عصری معاشروں میں اس وقت سرمایے‘ اثر و رسوخ‘ عہدے اور منصب کو اس حد تک اہمیت دی جاتی ہے کہ عزت وتکریم کے فیصلے بھی اسی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اسلام کی دعوت اس حوالے سے یکسر جدا ہے۔ اسلام میں اونچ‘ نیچ کے فرق کے بغیر مسلمانوں کی باہمی اخوت پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حجرات کی آیت نمبر 10 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''دراصل مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ لہٰذا صلح کرا دیا کرو اپنے بھائیوں کے درمیان اور ڈرو اللہ سے‘ اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو مختلف قبائل میں تقسیم کیا‘ یہ قبائل درحقیقت تعارف کی بنیاد تو ہیں لیکن وجۂ فضیلت نہیں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۂ حجرات کی آیت نمبر 13 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اے انسانو! حقیقت یہ ہے کہ پیدا کیا ہے ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے۔ پھر بنا دیا ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے سے پہچانے جاؤ‘‘۔
انسانوں کے معاشی حالات اور پیشوں میں تفاوت کے پس منظر میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ اس تنوع کی وجہ سے معاشرے کی جملہ ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ اگر ہر شخص کا ایک ہی ذوق ہو اور ایک ہی جیسی صلاحیتیں‘ رجحانات اور ایک جیسی استعداد ہو تو ایسی صورت میں معاشرے کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف طرح کے ذوق اور صلاحیتیں عطا کیں اور ان کی معیشت میں تنوع رکھا۔ اس تفاوت کی وجہ سے معاشرے میں کاروبار چلتے رہتے ہیں۔ درحقیقت یہ تفاوت فضیلت کی وجہ نہیں ہے بلکہ فضیلت کی وجہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک تقویٰ ہی ہے‘ جس کا ذکر مذکورہ بالاآیت میں بھی کیا گیا ہے۔
مسلمان مرد و زن کو کسی بھی معاشرے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک دوسرے کا مددگار اور ساتھی قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ توبہ کی آیت نمبر 71 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ حکم دیتے ہیں بھلائی کا اور منع کرتے ہیں برائی سے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور انتشار کی بہت بڑی وجہ اپنی مالی‘ سیاسی اور سماجی حیثیت کی وجہ سے اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھنا ہے۔ آج مسلمانوں میں بھی یہ بیماری عام ہو چکی ہے کہ کئی مسلم اقوام اپنے آپ کو دوسری اقوام کے مقابلے میں افضل گردانتی ہیں جبکہ حقیقت میں کسی قوم کو محض قومی حیثیت کی وجہ سے دوسری اقوام پر فوقیت کا سبب نہیں قرار دیا گیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریمﷺ نے اس بات کا دوٹوک اعلان فرمایا تھا۔ مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے‘ مگر تقویٰ کے ساتھ‘‘۔
اگر اس حدیث پاک کے مفہوم کو سمجھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی انسان کو دوسری قوم کے مقابلے میں اپنے آپ کو افضل نہیں سمجھنا چاہیے۔ سقوطِ ڈھاکہ کی ایک بڑی وجہ یہ ہی تھی کہ ہمارے معاشرے میں قوم پرستی اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی تھی جس کی وجہ ایک قوم کو دوسری قوم کے مقابلے میں افضل سمجھا جا رہا تھا۔ بنگالی‘ غیر بنگالی اور مشرقی‘ مغربی کے جھگڑے نے اس حد تک زور پکڑا کہ پاکستان دولخت ہو گیا۔ درحقیقت بحیثیت مسلمان ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس سلسلے میں اُس اصول کو اپنائیں جس کو کتاب وسنت میں واضح کیا گیا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت سیاسی‘ لسانی اور مذہبی اعتبار سے اس حد تک تقسیم ہو چکا ہے کہ کوئی گروہ بھی دوسرے گروہ کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں۔ حالانکہ ہمیں کتاب و سنت کے پیغامِ اخوت کو پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ کی ایک اہم حدیث اس حوالے سے درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت‘ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے‘ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضا کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔
اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کو جسدِ واحد کی طرح سمجھنا چاہیے اور اُن کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا چاہیے۔ اس اخوت اور بھائی چارے کے فقدان کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مجموعی طور پر مسلمان بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ فلسطین‘ کشمیر اور میانمار میں ہونے والے ظلم کی بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا کے دیگر بہت سے مقامات پر بسنے والے مسلمان اپنے ان ستم رسیدہ مسلمان بھائیوں کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے معاشرے میں بھی نفسانفسی اس وقت اپنے پورے عروج پر ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو معمولی سے مفاد کے لیے نیچا دکھانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے اور بسا اوقات یہ تنازعات بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے کی جان لینے پر بھی آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قیام کی وجہ سے بھی معاشرے میں دھڑے بندی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور یہ دھڑے بازی دیہی علاقوں میں اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا باہمی احترام اور رواداری کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور جو چیز ایک مسلمان اپنے لیے پسند کرتا ہے اس کو اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرنی چاہیے اور ایک دوسرے سے کدورت‘ بغض اور نفرت رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے (یا فرمایا: اپنے پڑوسی کے لیے بھی) وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔
2۔ صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے‘ کسی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی بیع (سودا بازی) پر بیع کرے اور نہ اپنے بھائی کے پیغامِ نکاح پر نکاح کا پیغام بھیجے‘ حتیٰ کہ وہ (خود اسے) چھوڑ دے‘‘۔
3۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تعلق ترک کرے‘‘۔
ان احادیث مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اسلام کا پیغام اخوت‘ یگانگت اور رواداری ہے اور وہ کسی بھی طور پر مسلمانوں کی باہمی تفریق اور جدائی کو پسند نہیں کرتا۔ اس وقت معاشرے میں بوجہ رواداری‘ احترام‘ محبت اور مودّت مفقود ہے۔ چنانچہ ہمیں کتاب اللہ اور سنتِ مصطفیﷺ پر عمل کرتے ہوئے اتحاد‘ اخوت اور رواداری کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر یہ اوصاف مسلمانوں میں پیدا ہو جائیں تو یقینا مسلمان داخلی اور خارجی سطح پر ایک طاقتور اُمت کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین!