مجھے گاہے گاہے تقریباتِ نکاح میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ چند روز قبل قریبی دوست اور ساتھی حافظ ساجد وکیل کا نکاح پڑھانے کا موقع ملا۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔
نکاح خوشی کے موقعوں میں سے ایک انتہائی اہم موقع ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی برکت سے انسان کو برائیوں سے محفوظ و مامون فرما لیتے ہیں۔ اسی طرح اس رشتے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اولاد جیسی نعمت بھی عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا ہے۔ لباس انسان کے عیوب کو ڈھانپتا ہے اور اسے زینت بھی دیتا ہے۔ لباس سے انسان کی وجاہت و وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ درحقیقت دُلہا اور دلہن ایک دوسرے کی وجاہت میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہیں‘ ایک دوسرے کی زینت بھی ہیں اور ایک دوسرے کے عیوب کے محافظ بھی۔ شوہر اور بیوی میں جس قسم کی قربت‘ نزدیکی اور وابستگی پائی جاتی ہے‘ وہ دنیا کے کسی دوسرے رشتے میں موجود نہیں؛ تاہم کئی لوگ اس رشتے کی قدر نہیں کرتے۔ کئی لوگ اپنی بیویوں کو لونڈی کی مانند سمجھتے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ ان پر تسلسل کے ساتھ نکتہ چینی کرتے‘ ان کی تضحیک کرتے‘ ان کو ذہنی اذیت دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ انہی سے اپنی خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ یہ انسان کا دہرا معیار اور دوغلا پن ہے کہ وہ ایک عورت کے ساتھ خلوت میں اپنی خواہشات کو پورا کرے اور زندگی کے باقی معاملات میں اس کے ساتھ درشتی‘ سختی اور زیادتی والا معاملہ کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت نمبر 19 میں فرمایا ہے کہ ان سے اچھا برتائو کرو۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ویسے ہی حقوق مقرر کیے ہیں جیسے مردوں کے حقوق ہیں لیکن مردوں کو یک گونہ فضیلت اس لیے حاصل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ معیشت کے معاملات چلانا مرد کی ذمہ داری ہے۔ یہ رشتہ آقا و مالک کا رشتہ نہیں‘ نہ ہی یہ رشتہ آمریت کا رشتہ اور نہ ہی غلامی کا رشتہ ہے۔ یہ تو خلوص‘ پیار‘ محبت‘ رفاقت اور اپنائیت والا رشتہ ہے۔
نکاح درحقیقت ایک سماجی اور مذہبی بندھن کا نام ہے جس میں مرد بھی اپنی مرضی کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور عورت کی رائے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھنا یا زوجین کے کسی عیب یا مالی کمزوری کی وجہ سے اس کو اپنے سے کمتر سمجھنا کسی بھی طور پر جائز اور درست نہیں ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اتفاق‘ اتحاد‘ پیار اور انس ہو تو اس کے خوشگوار اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ وہ بچے جن کے والدین ایک دوسرے کے ساتھ پیار‘ محبت اور احترام کرنے والے ہوتے ہیں ان بچوں میں بالعموم نفسیاتی کمزوریاں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے خود اعتمادی اور قوت رکھی ہوتی ہے اس لیے کہ ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے جس میں انہوں نے نفرت‘ تشدداور اذیت کے بجائے پیار‘ الفت‘ محبت و مؤدت کو دیکھا ہوتا ہے۔ والدین کے پیار اور محبت کے نتیجے میں اولاد کی تربیت پر ارتکاز ایک فطری بات ہے اور اس میں کوئی دقت و دشواری پیش نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں اگر والدین آپس میں الجھتے ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں تو اولاد کے معاملات بھی چڑچڑے پن‘ اکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہوں گے۔ والدین کے لڑائی‘ جھگڑوں اور آئے روز کے اختلافات کے بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں میں بھی نفرت‘ درشتی اور بدتمیزی والی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ رشتہ ایسا نہیں کہ جس میں انسان کو کبھی کوئی دقت اور تکلیف پیش نہ آئے۔ کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں انسان کو سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات بیان فرمائی کہ کوئی بات تمہیں اچھی لگتی ہے اور وہ تمہارے لیے بری ہوتی ہے اور کوئی بات تمہیں بری محسوس ہوتی ہے مگر وہ تمہارے لیے اچھی ہوتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ کئی دفعہ ہم کسی ایسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں جو ہمارے لیے بہتر ہوتی ہے اور کئی دفعہ ہم ایسی چیز کو پسند کرنے لگتے ہیں جو ہمارے لیے بری ہوتی ہے۔
بیوی کو کسی شہزادی کی طرح سمجھنا یا اس سے ایسی توقعات وابستہ کرنا جو کوئی بازاری عورت ہی پورا کر سکتی ہو‘ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اسی طرح شوہر کو کسی ملک کا شہزادہ سمجھ کر اس سے ایسی توقعات وابستہ کرنا جو کوئی امیر و کبیر شخص ہی پوری کر سکتا ہو‘ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ چنانچہ اپنے ارمانوں کو کسی نہ کسی مقام پر روکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صابر و شاکر لوگ ہی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ صبر کرنے والے لوگوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ محبت فرماتے ہیں‘ اسی طرح شکر کرنے والا بندہ بھی اللہ کو بڑا پسند ہے اور ربِ دوجہاں اس پر اپنی نعمتوں کا نزول بڑھا دیتا ہے۔ اگر کفرانِ نعمت کیا جائے تو جان لینا چاہیے کہ اللہ کا عذاب شدید ہے۔ انسان کو صبر و شکر کرنا چاہیے اور مادی اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت لوگوں کو دیکھنا چاہیے۔ جو بندہ اس خوبی کو خود میں پیدا کر لے‘ اس کے اندر کبھی ناشکری پیدا نہیں ہوتی۔
انسان کو جہاں بیرونی لوگوں کے ساتھ صبر کرنا ہوتا ہے وہیں اپنی اہلیہ کی غلطی یا چھوٹی موٹی خطا پر بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کی خدمت پر لازمی شکرگزار ہونا چاہیے اور بیوی کو بھی اپنے شوہر کی عنایات‘ تحائف اور وابستگی پر شکر گزاری کا مظاہرہ اور خفگی اور ناراضی پر صبر کرنا چاہیے۔ جب بندہ ان باتوں پر عمل کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھر ایک مثالی گھرانا بن جاتا ہے اور باہمی ہم آہنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نکاح کے نتیجے میں انسان کی سماجی اور مذہبی زندگی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انسان کے جوڑے بنائے۔ اس کا مطلب ہے کہ فرد تنہا کچھ نہیں‘ اس میں بہت سی نامکمل باتیں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح ایک پائوں میں جوتا ہو دوسرے میں نہ ہو تو انسان کی چال ناہموار ہو جاتی ہے‘ اسی طرح اللہ نے آنکھوں کا بھی جوڑا پیدا کیا ہے‘ ایک آنکھ کام نہ کر رہی ہو تو انسان کے دیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اکثر جسمانی اعضا کی طرح انسانوں کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا گیا ہے جس کے سبب انسان ہر طرح کی اونچ نیچ کا مقابلہ بڑے حوصلے سے کر سکتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی ہمارے لیے مثال ہے کہ جب آپﷺ گھر تشریف لاتے تھے تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے زخموں پر پھاہے رکھتیں‘ آپﷺ کو دلاسا دیتیں تو بیرونی تکالیف اور اذیتوں کا مقابلہ کرنا آپﷺ کے لیے سہل ہو جاتا۔ ان کے انتقال کے بعد آپﷺ مغموم تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو محبت و پیار کرنے والی‘ ضروریات کا خیال کرنے والی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نوازا‘ جنہوں نے آپﷺ کے لیے اپنی زندگی کو ایسے وقف کیا کہ آپﷺ کی خدمت بھی کرتی رہیں اور آپﷺ کی تعلیمات کو بھی یاد کر کے آگے پہنچاتی رہیں۔ اللہ نے انہیں اولاد نہیں عطا کی کہ اولاد کی صورت میں عورت کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی توجہ کو بٹنے نہیں دیا اور نبی کریمﷺ کی طرف ہی مرتکز رکھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد بھی اشاعتِ دین کا کام کرتی رہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری عورتیں مغربی عورتوں کو اپنا آئیڈیل بناتی ہیں لیکن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ان کیلئے رول ماڈل نہیں ہیں۔ ایک مثالی عائلی زندگی گزارنے کیلئے مردوں کو نبی کریمﷺ کی سیرت اور خواتین کو امہات المومنینؓ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں ایک مثالی عائلی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!