دیگر عصری معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ پاکستان میں قتل و غارت گری‘ چوری‘ ڈکیتی کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی برس کے دوران جنسی جرائم میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ان جرائم کے مرتکب لوگ خواتین کی عزت پامال کرنے کے ساتھ ساتھ بچے اور بچیوں کے ساتھ بھی بدکرداری کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایسے ہیں جو بچوں کو بعد میں قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے طول و عرض میں موجود مذہبی اور سیاسی طبقات کے علاوہ این جی اوز نے بھی اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت ملنی چاہیے‘ لیکن افسوس کہ اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان قبیح جرائم کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے بہت سے حصوں سے ایسی اطلاعات موصول ہوئیں‘ جن میں بچوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور ان کی عصمت دری کا بھی ارتکاب کیا گیا۔ اس حوالے سے قرآنِ مجید کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کسی بھی قسم کی رو رعایت نہیں رکھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں غیر شادی شدہ زانی کے لیے 100 کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے۔ سورۂ نور کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوا: ''زانی عورت اور زانی مرد‘ کوڑے مارو ان دونوں میں سے ہر ایک کو ‘ سو سو کوڑے‘ اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان کے سلسلے میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں‘ اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا‘‘۔ احادیث مبارکہ میں اس نوعیت کے جرم کے ارتکاب کرنے والے شادی شدہ افراد کے لیے سنگسار کی سزا مقرر کی گئی ہے؛ تاہم اس حوالے سے اس احتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی تلقین کی گئی ہے کہ کسی بے گناہ پر اس قسم کا سنگین الزام نہیں لگنا چاہیے اور معاشرے میں الزام تراشیوں کو روکنے کے لیے چار گواہوں کے نصاب کو مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ نور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر‘ پھر نہ لا سکیں وہ چار گواہ‘ تو کوڑے مارو انہیں‘ اسّی کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کبھی بھی‘ اور یہی لوگ ہیں فاسق‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی کہ جہاں بدکرداری ایک سنگین نوعیت کا جرم ہے‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بدکرداری کا جھوٹے الزام لگانے والے کو بھی سنگین نوعیت کا مجرم قرار دیا ہے اور دونوں طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سخت سزائوں کو مقرر کیا ہے۔
بدکرداری کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ہم جنس پرستی کی بھی شدت سے مذمت کی ہے اور قومِ لوط کے واقعے کو قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پہ بیان کیا کہ ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب کس شدت سے نازل ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعے کو سورۂ ہود میں کچھ یوں بیان کیا: ''پھر جب آئے ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط کے پاس تو بہت ناگوار گزرا انہیں اُن کا آنا اور دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے: یہ دن ہے بڑی مصیبت کا۔ اور آئے اُن کے پاس (اُن کی قوم کے لوگ) بے اختیار دوڑتے ہوئے اُن کی طرف اور پہلے بھی کیا کرتے تھے وہ بُرے کام‘ (انہیں دیکھ کر) کہا لوط نے: اے میری قوم! یہ ہیں میری (قوم کی) بیٹیاں‘ یہ زیادہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے‘ پس ڈرو اللہ سے اور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں کے معاملہ میں۔ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی؟ انہوں نے کہا: یقینا تو جانتا ہے کہ نہیں ہے ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی رغبت اور یقینا تو جانتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ لوط نے کہا: کاش! ہوتی میرے پاس تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لے سکتا کسی سہارے کی جو بہت مضبوط ہوتا۔ فرشتوں نے کہا: اے لوط! بے شک ہم بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں تیرے رب کے‘ ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے یہ تم تک‘ سو چل پڑو اپنے گھر والوں کو لے کر کسی حصے میں رات کے اور نہ پیچھے پلٹ کر دیکھے تم میں سے کوئی مگر تمہاری بیوی (جو ساتھ نہ جائے گی اور واقعہ یہ ہے) کہ اس پر بھی وہی آفت آنے والی ہے جو ان لوگوں پر آئے گی۔ بے شک اُن کی تباہی کا وقتِ مقرر صبح کا ہے۔ کیا نہیں ہے صبح بہت قریب؟ پھر جب آیا ہمارا عذاب تو کر دیا ہم نے اس بستی کو تلپٹ اور برسائے ہم نے اس پر پتھر کھنگر کے لگاتار‘ جو نشان زدہ تھے تیرے رب کے ہاں اور نہیں ہے وہ بستی اِن ظالموں سے کچھ دور‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے میں جرائم کو روکنے کے لیے سخت سزائوں کو مقرر کیا اور مجرموں کو کسی بھی قسم کی رو رعایت کا حقدار قرار نہیں دیا۔ اس حوالے سے دو اہم حدیث درجہ ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ابن مالک ؓسے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ (اس لڑکی میں ابھی کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے‘ فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں!) وہ یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ نبی کریمﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
2۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے: قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجیے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ مہیا نہیں کر سکتا‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ وغیرہ پیو تا کہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں سے چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ پی کر تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا۔ ایک شخص نے اس کی خبر آنحضرتﷺ کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے سوار دوڑائے۔ دوپہر سے پہلے ہی وہ افراد پکڑ کر لائے گئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے۔ پھر آپﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی اور انہیں حرہ (مدینہ کے قریب ایک پتھریلا علاقہ) میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا‘ یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ معاشرے میں سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینی چاہیے‘ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ رشوت‘ سفارش اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ان سزائوں سے بچ نکلتے ہیں جس وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں سنگین نوعیت کے جرائم کے ارتکاب کو روکنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے شرعی قوانین کے اطلاق اور نفاذ میں سختی کی ضرورت ہے اور جرم کے ثابت ہو جانے کے بعد کسی بھی قسم کی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر چند افراد کو عوامی طور پر سزائیں دی جائیں تو ملک جرائم سے پاک ہو کر ایک پُرامن ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو ایک پُرامن ریاست کے طور پر قائم اور دائم رکھے‘ آمین!