کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کا اُس کے دفاع سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر ملک کا دفاع مضبوط ہو تو ملک مستحکم ہوتا ہے اور بیرونی و اندرونی دشمنوں کی سازشوں سے بے نیاز ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے دشمنوں کے خلاف اہلِ ایمان کو بھرپور تیاری کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 60 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی‘ جنہیں تم نہیں جانتے‘ اللہ انہیں خوب جان رہا ہے۔ جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے بھی اسلامی سرحدوں کے دفاع کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہے۔ جنت میں کسی کے لیے ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں شام کو چلے یا صبح کو تو وہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے‘‘۔ صحیح مسلم میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ''ایک دن اور ایک رات سرحد پر پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر (پہرہ دینے والا اس دوران) فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا‘ (قیامت تک) جاری رہے گا‘ اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا اور وہ (قبر کے) امتحان لینے والے سے محفوظ رہے گا‘‘۔ جامع ترمذی میں حضرت فضالہ بن عبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''ہر میت کے عمل کا سلسلہ بند کر دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوئے مرے تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنہ سے مامون رہے گا‘‘۔
نبی کریمﷺ خود بھی مدینہ کی سرحدوں کی نگرانی فرمایا کرتے اور مدینہ کا دفاع کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے پر (دشمن کے حملے کا) خوف تھا۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے حضرت ابوطلحہؓ سے ایک گھوڑا‘ جس کا نام مندوب تھا‘ مستعار لیا‘ پھر آپﷺ اس پر سوار ہوئے (صحابہ کرام بھی آپﷺ کے ہمراہ تھے) پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا: ہمیں تو کوئی خطرہ کی چیز نظر نہ آئی‘ البتہ یہ گھوڑا سمندر کی طرح (تیز دوڑتا) پایا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جب کسی کو اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہوا دیکھتے تو ہمیشہ اس کی تحسین اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ حضرت شرحبیل بن سمطؓ کے پاس سے گزرے‘ وہ اپنے مرابط (سرحد پر پاسبانی کی جگہ) میں تھے۔ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر وہاں رہنا گراں گزر رہا تھا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا: ابن سمط! کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ''اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی ایک ماہ روزہ رکھنے اور تہجد پڑھنے سے افضل ہے‘ آپ نے افضل کے بجائے ''خیر‘‘ (بہتر ہے) کا لفظ کہا۔ اور جو شخص اس حالت میں وفات پا گیا‘ وہ عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا اور قیامت تک اس کا عمل بڑھایا جائے گا‘‘۔
کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف کے ان احکامات پر عمل کرنا مسلم ممالک اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ جس مملکت کا دفاع مضبوط ہو یقینا اس مملکت کے باشندے امن اور سکون کی زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں اور مضبوط دفاع کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ الحمدللہ ہمارا ملک پاکستان اس اعتبار سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ مختلف سائنسی علوم بالخصوص نیوکلیئر اور فزکس پر عائد بہت سی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ہمارے ملک کے ذہین اور قابل سائنسدانوں نے (جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں) پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بطریق احسن آگے بڑھایا اور بالآخر پاکستان نے بھارت کی جانب سے مئی 1998ء میں کیے جانے والے ایٹمی تجربات کے جواب میں اسی مہینے کی 28 تاریخ کو کامیاب ایٹمی دھماکے کیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ملک کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہو گیا۔ دفاعِ وطن کے لیے پاکستانی افواج کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں جنہوں نے اسلحہ سازی اور پیشہ ورانہ تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اس وقت پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔
ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی ذمہ داری جہاں افواجِ پاکستان اور ملک کے سائنسدانوں پر عائد ہوتی ہے‘ وہیں ملک کی سیاسی قیادت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ دفاعی حوالے سے آنے والے کسی بھی بین الاقوامی دبائو کوقبول نہ کریں اور ملک کے دفاع پر قطعاً کوئی سمجھوتا نہ کریں۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنا دینی جماعتوں‘ مذہبی اداروں اور علمائے دین کی ذمہ داری ہے۔ الحمدللہ بہت سے علما اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔
یومِ تکبیر کے حوالے سے ہر سال ملک بھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ امسال اس حوالے سے 27 مئی کی رات کو الہ آباد‘ ضلع قصور میں مرکزی مسلم لیگ نے ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جس میں پروفیسر سیف اللہ قصوری‘ حافظ عبدالرحمن مکی اور دیگر قائدین کے ساتھ مجھے بھی خطاب کا موقع میسر آیا۔ اس موقع پر مقررین نے دفاعِ پاکستان کے لیے یکسو ہونے کے عزم کا اظہار کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ مملکت کے جوہری اثاثوں کے دفاع کے لیے پوری قوم یکسو ہے۔ دفاعِ وطن کے لیے اگر قربانیاں دینے کی ضرورت پڑی تو ان شاء اللہ پاکستانی عوام افواجِ پاکستان کی پشت پر ہوں گے۔ مقررین نے اس نکتے کو عوام کے سامنے رکھا کہ پاکستان اسلام کا قَلعہ ہے اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمان پاکستان سے توقع کرتے ہیں کہ تکلیف اور مشکل کی گھڑی میں پاکستان ان کا سہارا بنے گا۔ کشمیر اور میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مظلوم فلسطینی بھی صہیونی یہودیوں کے پنجۂ ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے پاکستانیوں کی راہیں تک رہے ہیں۔ جب پاکستان کا دفاع مضبوط ہوگا‘ اسی وقت ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے کام آ سکتے ہیں۔
اجتماع میں شریک ہزاروں افراد نے مقررین کی تقریروں پر والہانہ جوش اور جذبات کا اظہار کیا۔ عوام الناس کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سی کمزوریوں‘ سیاسی تنازعات اور آپسی جھگڑوں کے باوجود آج بھی پاکستانی قوم ملک وملت کے دفاع کے لیے یکسو ہے اورضرورت پڑنے پر اس حوالے سے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ۔