انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن سے زندگی کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ کوٹ رادھا کشن سے تعلق رکھنے والے مہر فہد میرے دیرینہ دوست ہیں۔ میں نے ان کو ہمیشہ پُرجوش اور متحرک نوجوان کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے دیکھا۔ دینی‘ سماجی اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں کاروباری صلاحیتوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ وہ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور کامیاب بزنس مین ہیں۔ مہر فہد کے والد مہر مشتاق صاحب ایک قابل استاد تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی انتہائی یکسوئی سے تدریسی ذمہ داری کو سرانجام دیا۔ اُن کے طرزِ تدریس‘ اخلاق اور تعلیمی میدان میں دلچسپیوں سے لوگ بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس لیے طلبا تحصیلِ علم کے ساتھ اپنے نجی و سماجی معاملات کے حل کیلئے بھی ان سے مشاورت کیا کرتے تھے۔ مہر مشتاق صاحب طلبا کی اپنے علم اور تجربہ کی روشنی میں بہترین انداز سے رہنمائی کرتے رہے۔ مہر مشتاق صاحب مجھ سے بھی ہمیشہ محبت اور پیار والا معاملہ فرماتے اور جب کبھی مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملتا تو بڑی آؤ بھگت کرتے اور یوں محسوس ہوتا جیسے کسی خونی رشتہ دار سے ملاقات ہو رہی ہے۔ مہر مشتاق کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور ان کی بیماری کے حوالے سے مہر فہد ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہا کرتے تھے اور ان کے علاج و معالجے پر بھرپور توجہ دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے دعائے صحت کی بھی اکثرو بیشتر اپیل کیا کرتے تھے۔ تقریباً 20روز قبل مہر فہد نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ اندوہناک خبر سنائی کہ مشتاق صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ یہ خبر یقینا جہاں پر مہر فہد اور ان کے اہلِ خانہ کیلئے دکھ اور تکلیف کا باعث تھی‘ میں نے بھی اس خبر پر بہت زیادہ کرب اور دکھ محسوس کیا اور دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔
مہر فہدکے والدِ گرامی کا جنازہ پڑھانے کیلئے میں خود کوٹ رادھا کشن گیا اور خلوصِ دل سے ان کیلئے دعائے مغفرت کی۔ اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ مرحوم کے خلا کو بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ مہر فہد نے اپنے والد کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کو عمرہ کرایا اور بساط کی حد تک ان کی خدمت میں مشغول رہے۔ یقینا انہوں نے ایک تابعدار بیٹا ہونے کا حق ادا کیا اور اپنے والد کی خدمت کیلئے مسلسل کوشاں رہے۔ والد کے انتقال کے صدمے کو ہر شخص محسوس کرتا ہے لیکن مہر فہد کی اپنے والد سے چونکہ والہانہ وابستگی تھی اس لیے میں نے مسلسل ان کو دکھ اور صدمے کی کیفیت میں دیکھا۔ ان ایام میں جب بھی کبھی موقع ملا انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی۔
ابھی اس صدمے کے اثرات کم نہیں ہوئے تھے کہ جمعرات کے روز یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مہر فہد کے بڑے بھائی مہر حماد عین جوانی کے عالم میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ اس خبر نے مجھے چونکا کر رکھ دیا اور میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے یقینا انسان بے بس ہے اور انسان اس حقیقت سے کلی طور پر بے خبر ہے کہ آئندہ آنے والے ایام میں اس کی زندگی کس انداز سے گزرے گی۔ انسان تو اپنی دانست میں ایک خوشگوار زندگی کے پروگرام مرتب کررہا ہوتا ہے لیکن اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کتنے مزید صدمات اس کی زندگی میں آنے والے ہیں۔ مہر فہد کے بھائی کے انتقال پر میں خود کوٹ رادھا کشن پہنچا اور فہد بھائی اور ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل پر ایک بوجھ کی کیفیت تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ انسان فنا کی حقیقت سے کس قدر بے خبر ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو پا لے توشاید اس کی ساری خوشیاں کافور ہوکر رہ جائیں۔
مہر فہد کے بھائی اور والد کے انتقال نے جہاں دل و دماغ پر ایک بوجھ کی کیفیت طاری کی وہیں پر برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر کی پانچ ماہ کی پوتی جو کہ برادر عزیز ابو بکر قدوسی کی نواسی بھی ہے‘ اس کی علالت نے بھی طبیعت کو عجیب انداز سے متاثر کیا۔ برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر کی پوتی‘ جو تین ماہ تک بالکل صحت مند اور توانا تھی‘ اچانک سینے کی انفیکشن کا شکار ہوئی۔ ڈاکٹروں نے اس انفیکشن کی اصل تک کھوج لگانے کیلئے کئی ٹیسٹ کرائے جس کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ بچی کا مدافعتی نظام کمزور ہے اور اس کے علاج کیلئے بون میرو ٹرانسپلانٹ کرانا پڑے گا۔ یہ خبر بھی یقینا چونکا دینے والی تھی۔ بچی کی ولادت کے موقع پر کسی کے ذہن میں نہ تھا کہ چند مہینے بعد ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس اطلاع کے دوران دل میں یہ احساس اور دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یقینا بیماریوں‘ تکالیف اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو۔
ان غمناک خبروں کے ساتھ ساتھ ایک خوشی کی خبر بھی موصول ہوئی کہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر طاہر محمود رشتۂ اذدواج میں منسلک ہو چکے ہیں۔ ان کی شادی کی تقریب میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے دوست احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور ان کیلئے دعائے خیر کی۔ خوشی کی یہ خبر سننے کے بعد احساس ہوا کہ ابھی معاشرے میں غموں کے ساتھ ساتھ خوشی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ خوشی اور مسرت کے یہ لمحات یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہیں اور انسان کو اللہ کی نعمتوں اور عطاؤں پر اللہ کا بھرپور طریقے سے شکر ادا کرنا چاہیے۔ میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ دنیا کی خوشیاں دائمی نہیں بلکہ انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے غم اور مشکلات آتی رہتی ہیں۔ خوشی کی خبروں کے ساتھ ساتھ غم کی خبریں در حقیقت انسان کو زندگانی کی حقیقت سے آگاہ کرتی اور اس کے ذہن میں ان تصورات کو اجاگر کرتی ہیں کہ انسان فانی ہے اور اس کو جلد یا بدیر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا جہاں پر انسان کے سرمایے‘ مال‘ دولت اور شہرت کا مول نہیں ہوگا بلکہ اس دن انسان کے اعمال کی اہمیت ہو گی۔ اللہ تعالی سورۃ القارعہ کی آیت نمبر چھ تا گیارہ میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''تو وہ شخص کہ ہوں گے وزن دار اعمال اس کے‘ سو وہ ہوگا دل پسند عیش میں‘ اور وہ شخص‘ کہ ہوں گے ہلکے اعمال اس کے‘ تو ہوگا اس کا ٹھکانا گہرا گڑھا۔ اور کیا جانو تم کیا ہے وہ؟ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔
اُخروی زندگی کیلئے ابھی سے انسان کو تیاری کرنی چاہیے اور اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا دارالعمل ہے اور یہاں پر کئے گئے اعمال کا انسان کو آخرت میں بدلا دیا جائے گا۔ حقیقی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہو گی جو جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کے باغات میں داخل ہو جائے گا۔ اللہ تعالی اس حقیقت کو سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 185میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر جان کو چکھنا ہے مزا موت کا اور بے شک دیے جائیں گے تم کو پورے اجر تمہارے (اعمال کے) روز قیامت‘ پس جو بچا لیا گیا آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو بے شک کامیاب ہوگیا وہ‘ اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر محض سامان دھوکے کا‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کے اتار اور چڑھاؤ سے سبق حاصل کرکے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے تاکہ ہم صحیح طور پر اپنی اُخروی زندگی کی تیاری کرکے آخرت میں سربلندی اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔ آمین!