"AIZ" (space) message & send to 7575

قومی فلسطین کانفرنس

مینارِپاکستان گرائونڈ میں ایک عرصے سے دینی وسیاسی اجتماعات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مینارِ پاکستان پہ جب بھی کسی بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے تو اسکے اثرات پورے ملک پہ مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں سے دیے جانے والا بیانیہ ملک کے مذہبی اور سیاسی ماحول پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اپریل 1986ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے مینارِ پاکستان پر ایک بہت بڑے سیاسی پروگرام کا انعقاد کیا جس کے بعد 1988ء میں ہونیوالے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل نے مینارِ پاکستان میں ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا‘ جس کے بعد متحدہ مجلس عمل ملک میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی۔ 2013 ء میں عمران خان نے مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا جس کے بعد تحریک انصاف بھی ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اُبھری۔ 2021ء میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے شرکت کی۔ اس اجتماع نے ملک میں ختم نبوت کیلئے کام کرنے والے علماء‘ رہنمائوں اور کارکنان کو ایک نئی تحریک دی۔ 7 ستمبر 2024ء کو بھی جمعیت علمائے اسلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ایک عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس نے ماضی میں ہونے والے بہت سے اجتماعات کو ماند کر دیا۔ اس اجتماع میں ملک کے طول وعرض سے بڑی تعداد میں مذہبی کارکنان شریک ہوئے اور اس نے آئینی حوالے سے ملک میں بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ 7 ستمبر 1974ء کے قومی اسمبلی کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ نے اس فیصلے کا اعادہ کر دیا کہ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والا شخص نہ صرف یہ کہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے بلکہ وہ اپنے لٹریچر کو کتاب وسنت کے ساتھ منسوب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اس فیصلے کے پس منظر میں جہاں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی اجتماعی کوششیں شامل تھیں‘ وہیں مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ہونے والے عظیم الشان اجتماع کا دبائو بھی شامل تھا۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے ملک میں اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لیے رابطہ عوام مہم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پہلے پاک چائنہ سنٹر اسلام آباد میں اس حوالے سے ایک بھرپور پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور عوام کی کثیر تعداد نے پُرجوش انداز میں شرکت کی اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھرپور انداز سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس اجتماع سے قبل مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں مفتی منیب الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی‘ قاری حنیف جالندھری اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ اس اجلاس سے حماس کے سربراہ خالد مشعل نے بھی خطاب کیا اور اسرائیلی مظالم کے حوالے سے علماء کو بریفنگ دی۔ غزہ میں ہونے والے مظالم کی شدت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے علماء نے آپس میں تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جہاں ہمیں اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے وہیں تاجر برادری کو بھی اس بات پر آمادہ وتیار کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کی خرید وفروخت سے مکمل طور پر اجتناب کرے اور جو تاجر اس حوالے سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرے‘ اس کے ساتھ لین دین ختم کر دینا چاہیے۔ وہ مسلم ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں‘ ان کو جلد ازجلد سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے چاہئیں۔ دنیا میں مسلمانوں کے بہت سے ممالک ہیں جبکہ یہودیوں کی حکومت فقط اسرائیل میں ہے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کی مالی‘ افرادی اور عسکری حیثیت اسرائیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن یہ دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ اس کے باوجود اسرائیل ایک عرصے سے اہلِ فلسطین کے ساتھ شقاوت اور ظلم پر مبنی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کو ان مظالم سے روکنے کیلئے مسلم حکمرانوں کو راست اقدام کا الٹی میٹم دینا چاہیے۔ اگرچہ ان حالات میں امت پر جہاد لازم ہوتا ہے لیکن چونکہ جہاد کا اعلان کرنا حکومتوں کا مینڈیٹ ہے‘ اس لیے علماء کو اس مسئلے میں حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے عسکری وسائل اور ذرائع کا استعمال کریں۔ چنانچہ اگلے روز پاک چائنہ سنٹر اسلام آباد میں بھرپور انداز سے اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا۔
بعد از 13 اپریل کو کراچی میں ایک ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا اور یہ بات طے پائی کہ اب مینارِ پاکستان گرائونڈ میں ایک منظم اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا جس میں تمام دینی جماعتیں بھرپور انداز سے حصہ لیں گی۔ اس حوالے سے لاہور شہر میں ایک بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی اور تیاری کیلئے مختلف مقامات پر پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ چوک چوبرجی اور جامعہ اشرفیہ میں دو بڑے اجلاسوں کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں تمام جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ 27 اپریل کو پانچ بجے قومی فلسطین کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا جس سے مولانا فضل الرحمن‘ مفتی منیب الرحمن‘ حافظ نعیم الرحمن‘ قاری حنیف جالندھری‘ ڈاکٹر شجاع الدین شیخ‘ مولانا عبدالحق ثانی اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس سے خطاب کا موقع ملا۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تعالیٰ کی نظروں میں دین فقط ''اسلام‘‘ ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اسی دین کی دعوت دی تھی۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد کریمﷺ کو اللہ نے آلِ اسماعیل میں پیدا کیا جبکہ اس سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام آلِ اسحاق سے آتے رہے۔ یہود نے فقط آلِ اسماعیل میں سے بعثت کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی عداوت کا راستہ اختیار کیا اور آپﷺ کے خلاف سازشیں کیں۔ یہود نے نبی کریمﷺ کے خلاف سازشوں کا کوئی موقع جانے نہ دیا اور آپﷺ کے کھانے میں زہر تک ملانے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ آپﷺ پہ جادو کے حملے کیے گئے جن کے تدارک کے لیے اللہ نے معوذتین کو نازل فرمایا۔ یہود کے کئی بڑے سردار توہین رسالت کے ارتکاب اور شعائر دینیہ کے خلاف عداوت کی وجہ سے کیفرِ کردار کو پہنچے۔ کعب ابن اشرف کو حضرت محمد بن مسلمہؓ اور ابو رافع یہودی کو حضرت عبداللہ ابن عتیکؓ نے کیفر کردار تک پہنچایا۔ یہودیوں کے سردار مرحب کو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے انجام تک پہنچایا۔ نبی کریمﷺ نے اپنی حیات ہی میں اس بات کی وصیت کر دی تھی کہ یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دیا جائے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے ان کو جزیرۃ العرب سے بے دخل کر دیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں نے کبھی مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبات اختیار نہیں کیے اور ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے۔ انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے ساتویں عشرے تک ایک منظم پلاننگ کے تحت دنیا بھر سے نقل مکانی کر کے القدس کے علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ یہود کا ایک ملک‘ مسلمانوں کا استحصال کرنے میں اس لیے مستعد ہے کہ مسلمانوں میں اخوت‘ بھائی چارہ اور ایمانی اقدار کمزور ہو چکی ہیں۔ اگر مسلمان غزہ کے مظلوم بھائیوںکو ظلم سے نجات دلاناچاہتے ہیں تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ تمام مسلمان یکجان ہو کر صہیونی ریاست کے خلاف ایک منظم منصوبہ تیار کریں اور اس پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عمل کریں۔ اگر ایسا کیا گیا تو اللہ کے فضل وکرم سے یہود کی سازشیں ناکام اور نامراد ہو جائیں گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں