"AIZ" (space) message & send to 7575

سیدنا ابراہیم علیہ السلام‘ ایک عظیم المرتبت شخصیت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا میں سب سے بلند وبالا مقام انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرمایا ہے۔ انبیاء کرام میں سے رسل اللہ کا مقام بلند ہے اور رسل اللہ میں سے اولو العزم رسول خصوصی مقام رکھتے ہیں۔ ان ہستیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کے علاوہ جس شخصیت کے اسوہ کو اسوہ حسنہ قرار دیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی شخصیت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر ہمہ وقت آمادہ وتیار رہنا چاہیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی کے لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک تدبیر سے بتوں کی حقیقت کو ان پر واضح کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ الانبیاء کی آیات: 51 تا 67 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''اور یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے۔ جب اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں‘ جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو‘ کیا ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا۔ (ابراہیم نے) کہا: پھر تو تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یونہی مذاق کر رہے ہیں۔ (ابراہیم نے) کہا: نہیں‘ درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے‘ جس نے انہیں پیدا کیا ہے‘ میں تو اسی بات کا گواہ (اور قائل) ہوں۔ اور اللہ کی قسم! میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے‘ ایک چال چلوں گا۔ پس انہوں نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے‘ ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں۔ (قوم کے لوگ جب واپس آئے تو) کہنے لگے کہ ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ (سلوک) کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقینا ظالموں میں سے ہے۔ (کچھ افراد) بولے: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا‘ جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ سب نے کہا: اچھا‘ اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لائو تاکہ سب دیکھیں۔ کہنے لگے: اے ابراہیم کیا تُو نے ہی ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے‘ تم اپنے خدائوں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہو گئے اور کہنے لگے: واقعی ظالم تو تم (خود) ہی ہو۔ پھر (شرمندگی سے) اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں۔ (ابراہیم نے) کہا: افسوس! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان۔ تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟‘‘۔
جب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دلائل سے سامنا نہ کر سکے تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں غلط اقدامات کا فیصلہ کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی سازشوں کو ناکام ونامراد بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الانبیاء کی آیات: 68 تا 70 میں یوں بیان فرماتے ہیں ''کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خدائوں کی مدد کرو‘ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔ ہم نے فرمایا: اے آگ! تُو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا! گو کہ انہوں نے ابراہیم کا برا چاہا‘ لیکن ہم نے انہیں ہی خسارے والا بنا دیا‘‘۔
آپ علیہ السلام نے جہاں بتوں کی حقیقت کو واضح فرمایا وہیں آپ علیہ السلام کی بستی کے وہ لوگ جو اجرام سماویہ کی پوجا کرتے تھے‘ ان کے سامنے اجرام سماویہ کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ الانعام کی آیات: 75 تا 79 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھلائے تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا‘ چمکتا ہوا‘ تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہو گیا تو کہا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ دی تو میں راستہ گم کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جائوں گا۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا خوب چمکتا ہوا‘ تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے‘ یہ تو سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اُس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر‘ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کا بادشاہ نمرود غرور اور تکبر کے راستے پہ چلتا چلتا اس حد تک گر چکا تھا کہ اپنے آپ ہی کو رب کہنا شروع ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے اس بے بنیاد دعوے کی حقیقت کو واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ البقرہ کی آیت: 258 میں بیان فرماتے ہیں کہ ''کیا تو نے اُسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے‘ (تو) وہ کہنے لگا: میں بھی جِلاتا اور مارتا ہوں‘ ابراہیم نے کہا: اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تُو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا‘ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے جہاں ہر طرح کے دبائو کو برداشت کیا وہیں محبتوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنے شیرخوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا اور جس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خواب دکھلایا کہ آپ اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ آپ فی الفور اس حکمِ الٰہی پر عمل کرنے کے لیے آمادہ وتیار ہو گئے۔ اس واقعہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الصافات کی آیات: 102 تا 105 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیم) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘۔
ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے پر ہمہ وقت آمادہ و تیار رہناچاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے لیے اگر اپنی عزیز ترین متاع کی بھی قربانی دینا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردارسے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں