"AIZ" (space) message & send to 7575

ایک جلیل القدر عالم کا انتقال

دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن اس فانی دنیا سے جانا پڑے گا‘ تاہم بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے علم وعمل کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک باعمل عالم دین یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہوتا ہے اور اس کی وفات سے جو خلا پیدا ہوتا ہے‘ مدتوں تک پُر نہیں ہو سکتا۔ بعض علماء تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی فریضہ بطریق احسن انجام دیتے ہیں اور شاگردوں اور باعمل لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے لیے صدقہ جاریہ کے طور پر چھوڑ کر جاتے ہیں۔ مولانا عتیق اللہ سلفی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھی انہی اہلِ علم میں ہوتا تھا‘ جو مدتِ مدید تک جڑانوالہ کے قریب ستیانہ بنگلہ میں قائم ایک بڑے تعلیمی ادارے میں تعلیم وتربیت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مولانا کے شاگرداور ان کی تربیت سے مستفید ہونے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا عتیق اللہ سلفی کو جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے علم وعمل‘ تقویٰ‘ للہیت‘ زہد اور رجوع الیٰ اللہ کی عظیم صفات سے نوازا تھا وہیں عوام الناس کی خیر خواہی اور امتِ مسلمہ کا درد بھی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ جہاں اپنے علاقے میں تعلیم وتربیت کے فرائض سر انجام دیتے‘ وہیں ملک کے کسی بھی مقام پر اگر کسی باعمل عالم دین یا باعمل شخصیت کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے میں ضرور شرکت کرتے اور اکثر جنازوں کی امامت بھی فرماتے تھے۔ لوگ ان سے اپنے مرحومین کے جنازوں کو پڑھانے کے متمنی ہوتے تھے اور مولانا تعلیم وتربیت کے فرائض کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ اس ذمہ داری کو بھی بطریق احسن نبھایا کرتے تھے۔ پورے ملک میں دین دار لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا‘ اٹھنا بیٹھنا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا مولانا کا وتیرہ تھا‘ جس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانا کو غیر معمولی قبولیت عطا فرما رکھی تھی۔
مولانا عتیق اللہ سلفی ایک شب زندہ دار‘ تہجدگزار اور نفلی عبادات میں منہمک رہنے والے انسان تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی وانکساری سے دعا کرنا ان کا خاصہ تھا۔ جب آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگتے تو آپ پر ایک رقت کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی گزارشات کو اس وقت تک پیش کرتے رہیں گے جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی رحمتوں کا نزول نہیں فرما دیتا۔
مجھے مولانا کے ساتھ بیسیوں مرتبہ ملاقات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور ہر ملاقات میں آپ کو پیار کرنے والا‘ محبت کرنے والا اور حوصلہ افزائی کرنے والا پایا۔ آپ کی عاجزی‘ انکساری اور متانت کو دیکھ کر کوئی شخص بھی نہیں بھانپ سکتا تھا کہ آپ کس قدر جلیل القدر شخصیت ہیں۔ جو لوگ آپ کے قریبی حلقہ احباب میں شامل تھے وہی اس بات کو صحیح طور پر جانتے اور پہچانتے تھے کہ مولانا علم وعمل سے کس قدر وابستگی رکھنے والی اور کس قدر بلند علمی شخصیت ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے مولانا چاق وچوبند اور صحت مند تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بہت سے عوارض سے محفوظ رکھا تھا؛ البتہ چند روز قبل مدرسے کی لفٹ سے اترنے کے دوران غلط فہمی کا شکار ہوئے اور چار فٹ کی بلندی سے زمین پر گر گئے جس سے اُن کو سخت چوٹ لگی۔ مولانا کوعلاج کے لیے لاہور کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا اور اکثر لوگ پُرامید تھے کہ مولانا صحت یاب ہو کر جلد اپنی سابقہ مشغولیات کا اجرا فرمائیں گے لیکن کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ مولانا اس چوٹ کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے۔ جہاںبڑی تعداد میں لوگ آپ کی عیادت کر رہے تھے وہیں آپ کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد آپ کی صحت کے بارے میں پوری طرح پُرامید تھی لیکن اچانک پیر کے روز اس بات کی اطلاع ملی کہ مولانا اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔
زمین پر جو شخص بھی آیا ہے اس کو ایک نہ ایک دن واپس اپنے خالقِ حقیقی کے پاس جانا ہے۔ نیکوکار ہو یا دین سے دور‘ کوئی بھی شخص موت سے فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ ہر شخص کو جلد یا بدیر اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے لیکن بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنی اس زندگی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت سمجھ کر اس کی رضا میں یہ گزارتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مولانا کی وفات یقینا جہاں دیگر بہت سے لوگوں کے لیے بہت بڑے صدمے کا باعث تھی وہیں ان کی وفات کی وجہ سے مجھے بھی بہت زیادہ صدمہ پہنچا ہے اور میں ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرنا شروع ہو گیا۔ مولانا کی شفقت‘ ان کا پیار‘ ان کی محبت اور ان کی ہمدردی بھرے جملے اور الفاظ مجھے یاد آنے لگے۔ مجھے تین برس قبل کا وہ وقت بھی یاد آ گیا کہ جب میں شدید بیمار تھا تو مولانا اپنے باعمل بیٹوں کے ساتھ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر مولانا نے بیماری پر صبر کرنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کی تلقین کی اور امید اور توکل کا درس دیا۔ مولانا نے یہ بات بھی کہی کہ یقینا ہر بیماری اور مشکل اللہ ہی کی طرف سے ہے اور جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ چاہیں اس وقت تک وہ مشکل برقرار رہتی ہے اور جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نجات کا وقت آ جاتا ہے تو بڑی سے بڑی مصیبت اور بیماری دور ہو جاتی ہے۔ مولانا کے یہ الفاظ یقینا قابلِ قدر اور بھولے ہوئے سبق کو دہرانے والے انداز میں تھے۔ میں نے مولانا کی نصیحت اور ان کی حوصلہ افزائی کے بعد اپنے دل میں طمانیت کو اترتے ہوئے محسوس کیا۔ مولانا کی محبت‘ شفقت اور پیار یقینا ان کی شخصیت کا ایک ایسا وصف تھا جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔
چنانچہ جب اس بات کی اطلاع ملی کہ مولانا کا انتقال ہوگیا ہے تو میں نے اسی وقت ارادہ کیا کہ مولانا کے جنازے میں ضرور شرکت کرنی ہے۔ مولانا کا پہلا جنازہ ستیانہ بنگلہ میں صبح ساڑھے دس بجے ادا کیا گیا۔ سینکڑوں علماء اور ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر شخص دل سے مولانا کی اخروی زندگی کی کامیابی وکامرانی کے لیے دعاگو تھا۔ مولانا کادوسرا جنازہ 36 چک میں ظہر کی نماز کے بعد قبرستان سے متصل گرائونڈ میں ادا کیا گیا۔ یہاں بھی کئی متعدد علماء‘ اکابرین اور ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ مولانا کے فرزند نے خود اُن کا جنازہ پڑھایا اور اس موقع پر گڑگڑا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مولانا کی بخشش کے لیے دعا مانگی۔ جنازے میں شریک تمام افراد نے دل کی گہرائیوں سے مولانا کے لیے دعائے مغفرت کی اور اس کے بعد مولانا کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔
مولانا عتیق اللہ کے جنازے نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو یاد کرا دیا کہ دنیا کی رنگینیاں‘ مال واسباب اور تعلقات عارضی ہیں اور انسان خواہ کتنی بھی دیر اس دنیا میں گزار لے‘ ایک دن اس کو دنیائے فانی سے کوچ کر جانا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ دنیاداری میں اس حد تک جذب ہو جاتے ہیں کہ اپنی موت اور آخرت ہی کو فراموش کر دیتے اور اسی زندگی کو اپنے لیے حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں آج ہی سے اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے اور ایسی زندگی گزارنی چاہیے جس کے نتیجے میں ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل ہو جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مولانا کی تقصیروں سے درگزر فرمائے‘ ان کی حسنات کو قبول فرمائے‘ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو ابھی سے اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں