"AIZ" (space) message & send to 7575

صبر کا اجر

ہر انسان کی زندگی مختلف نشیب وفراز سے گزرتی ہے۔ اس نشیب وفراز کے دوران کئی مرتبہ وہ مختلف طرح کی مشکلات اور تکالیف کا شکار ہو جاتا ہے اور کئی مرتبہ اسے مختلف قسم کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات بھی آتے ہیں جب انسان اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کرتا ہے اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس کی نفسیاتی اور طبعی صلاحیتیں بھی بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ انسانوں کو مصائب‘ حوادث اور تکالیف کے دوران ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصو ل کیلئے صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی زندگی میں آنے والے مصائب کے حوالے سے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نہایت خوبصورت ارشادات فرمائے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیات: 155 تا 157 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصانات سے ضرور آزمائیں گے‘ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت‘ اور یہی ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کو مختلف طریقوں سے آزماتے ہیں اور انسان جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور عنایات کا نزول فرماتے ہیں اور اس کو سیدھے راستے پر گامزن کر دیتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی سب سے بلند‘ معتبر اور مقدس ترین ہستیاں ہیں۔ ان کو اپنی زندگی میں مختلف طرح کی تکالیف اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن تمام انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی زندگی میں آنے والے مصائب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم نے بہت زیادہ تکالیف دیں اور ان کے بارے میں بہت بے ادبی کے الفاظ بھی کہے لیکن نوح علیہ السلام نے ان تمام تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ علیہ السلام نے ان تمام تکالیف کو نہایت تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ آپ علیہ السلام کو جلتے ہوئے الائو میں اتارا گیا لیکن اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے آپ علیہ السلام نے صبر کا راستہ اختیار کیا۔ بستی والوں کی عداوت اور حکمرانانِ وقت کی شقاوت کے باوجود بھی آپ علیہ السلام صبر اور استقامت پر سختی سے کاربند رہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ کو اور آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کو زندگی میں بہت سی ابتلائوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی پر صبر کیا‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کی طرف سے ملنے والی تکالیف کو پوری خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ علیہ السلام کی زندگی بہت سی تکالیف کا شکار رہی۔ بھائیوں نے آپ کو کنویں میں پھینک دیا‘ آپ پر جھوٹی تہمت لگائی گئی اور آپ کو بغیر قصور کے طویل عرصہ کیلئے جیل بھی جانا پڑا لیکن ان تمام تکالیف کو آپ علیہ السلام نے صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اپنی زندگی میں بہت سی ابتلائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون کی رعونت‘ ہامان کے منصب اور قارون کے سرمائے سے متاثر ہوئے بغیر آپ علیہ السلام صبر اور استقامت کی چٹان بنے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اپنی قوم اور حکمرانوں کی عداوت کو برداشت کرنا پڑا‘ آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن آپ نے زندگی میں آنے والی تمام ابتلائوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام طویل عرصہ تک بیمار رہے لیکن اس بیماری کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو صبر اور رضا کے ساتھ قبول کیا اور اللہ کی بارگاہ میں اس تکلیف سے نجات کے لیے دعاگو رہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے صبر‘ استقامت اور دعائوں کی بدولت آپ کی بیماری کو دور فرما کر آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما دیا۔ آپ علیہ السلام کے مال‘ اسباب اور اہل وعیال میں بھی برکت عطا فرما دی۔
نبی کریمﷺ نے بھی اپنی زندگی میں بہت سی ابتلائوں اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ آپﷺ کو شدید ایذا دی گئیں‘ تکالیف پہنچائی گئیں‘ آپ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا۔ آپﷺ کو سرزمین مکہ سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ مخالفین نے آپﷺ کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی‘ آپﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں کی گئیں‘ جادو کے حملے بھی کیے گئے لیکن ان تمام ابتلائوں کے دوران نبی کریمﷺ نے صبر اور استقامت کا راستہ اختیار کر کے اپنی امت کے لوگوں کو اس بات کا سبق دیا کہ حالات کتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہوں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہلِ ایمان کو اپنی تکالیف اور مصائب کے دوران اللہ کی تقدیر پر یقین رکھنا چاہیے اور اسی کی ذات پر توکل کرنا چاہیے۔ سورۃ التوبہ کی آیات: 50 تا 51 میں ارشاد ہوا ''اگر تمہیں آسائش حاصل ہوتی ہے تو انہیں (کافروں کو) بری لگتی ہے‘ اور اگر کوئی مشکل پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا کام پہلے ہی سنبھال لیا تھا اور خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں۔ کہہ دو ہمیں ہرگز نہ پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا‘ وہی ہمارا کارساز ہے‘ اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان کو زندگی میں تکالیف کا سامنا کرنا پڑے تو ایسی صورت کے اندر اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا چاہیے اس لیے کہ وہی اپنے بندوں کا والی اور مددگار ہے‘‘۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کی عظمت کا ذکر کیا اور اپنی معیت ان کے ساتھ ہونے کا ذکر کیا۔ صابرین کے ساتھ اپنی محبت کا بھی ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر مختلف نیک اعمال کے اجر وثواب کا ذکر کیا لیکن جس وقت صبر کے اجر کی باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے صبر کے بے حساب اجر کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت: 10میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو‘ اپنے رب سے ڈرو‘ ان کے لیے جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے اچھا بدلہ ہے‘ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے‘ بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔
نبی کریمﷺ کے تلامذہ اور آپ کے اصحاب نے بھی نبی پاکﷺ کے راستے پہ چلتے ہوئے کفارِ مکہ کی طرف سے آنے والی پریشانیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور صبر اور استقامت کی تصویر بنے رہے۔ حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت سمیعہؓ کی غیر معمولی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آئمہ دین بھی مختلف ادوار میں حکمرانوں اور بااثر طبقات کی طرف سے آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔
صبر کا راستہ یقینا فلاح کا راستہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں ایمان‘ عمل صالح اور حق کی نصیحت کے ساتھ صبر کی وصیت کو کامیابی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں ارشاد فرماتے ہیں ''زمانہ کی قسم ہے۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے‘‘۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے اتار چڑھائو کے دوران آنے والی مشکلات کو صبر اور استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں