انسان عام طور پہ اُن امور پر زیادہ توجہ دیتا ہے جن کو اپنے لیے مفید اور اہم سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر شخص اپنی ملازمت اور کاروبار کو پوری تندہی سے کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے معاشی مسائل اچھے طریقے سے حل ہوتے رہیں۔ اسی طرح انسان اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے بھی بھرپور کوشش کرتا ہے اور ان کو ہر روز ان کے تعلیمی اداروں تک پہنچاتا ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے افراد اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کیلئے تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ اپنے آرام اور کھانے تک کو فراموش کر دیتے ہیں اور مضامین کے مشکل مقامات کو سمجھنے کیلئے جس حد تک ممکن ہوتا ہے‘ جستجو کرتے ہیں۔ مگر یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بالعموم اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ''نماز پنجگانہ‘‘ جیسی اہم ترین ذمہ داری سے بے پروا رہتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں جس عبادت کو بجا لانے کا سب سے زیادہ حکم دیا گیا وہ نمازِ پنجگانہ ہی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد نماز کی ادائیگی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتی۔ دن میں مؤذن پانچ مرتبہ اذان دیتا ہے اور حی علی الصلاۃ کہہ کر نماز کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ حی علی الفلاح کہہ کرکامیابی کی یقین دہانی بھی کراتا ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اذان کو سننے کے بعد بھی مؤذن کی پکار پر لبیک نہیں کہتی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ فجر کی نماز کے وقت غالب اکثریت اپنے بستروں پر سو رہی ہوتی ہے‘ ظہر کی نماز کے وقت لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوتے ہیں‘ عصر کے وقت کاروباری امور کو انجام دیتے‘ مغرب کے وقت شام کی ورزش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ عشاء کا وقت بالعموم کسی عشائیہ یا تقریب کی نذر ہو جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہم پر نماز کو وقتِ مقررہ پر فرض کیا ہے لیکن ہم اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کے حوالے سے سورۃ النساء کی آیت: 103 میں ارشاد فرمایا ''یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نمازوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مقرر کیے گئے وقت پر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں نمازوں کی حفاظت کا خصوصیت سے حکم دیا۔ چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیات: 238تا 239 میں ارشاد ہوا ''نمازوں کی حفاظت کرو‘ بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ کیلئے باادب کھڑے رہا کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوار ہی سہی (نماز ادا کر لو)‘ ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکر کرو (یعنی نماز ادا کرو) جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو جنگ اور خوف کی حالت میں بھی نماز ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور امن کی حالت ہوتے ہی نماز کو پورے خشوع وخضوع سے ادا کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر) مجھے مسجد میں لے آئے۔ اس نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ آپﷺ نے اسے اجازت دے دی‘ جب وہ واپس جانے لگا تو آپﷺ نے اسے بلایا اور پوچھا: کیا تم نماز کا بلاوا (اذان) سنتے ہو؟ اس نے عرض کی : جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا ''تو اس پر لبیک کہو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المومنون کے آغاز میں اُن مومنین کا ذکر کیا جو فردوسِ بریں میں جانے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے نمایاں اوصاف میں دو مرتبہ نمازوں کی ادائیگی کا ذکر فرماتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ المومنون کی پہلی اور دوسری آیت میں ارشاد ہوا ''یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح آیت: 9 میں ارشاد ہوا ''جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں‘‘۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرنا چاہیے اور بھرپور طریقے سے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نمازوں میں خشوع وخضوع اور ان کی محافظت کرنے والے لوگ یقینا اخروی کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے۔
نماز جہاں اخروی کامیابی کی ضمانت ہے وہیں یہ انسان کی شخصیت اور کردار سازی میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ العنکبوت کی آیت: 45 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیے اور نماز قائم کریں‘ یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘ بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے‘ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ نماز فحاشی اور منکرات جیسی قباحتوں سے روکتی ہے۔ انسان زندگی میں کئی مرتبہ معاشی کشمکش میں اس حد تک جذب ہو جاتا ہے کہ وہ نماز کو ترجیحی بنیادوں پر ادا نہیں کر پاتا جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النور میں اہلِ ایمان کے وصف کا ذکر کیا کہ وہ تجارت اور خرید و فروخت کی وجہ سے بھی کبھی نماز سے غافل نہیں ہوتے۔ سورۃ النور کی آیات: 37 تا 38 میں ارشاد ہوا ''ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلے دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادہ عطا فرمائے (اور) اللہ جسے چاہے بیشمار روزیاں دیتا ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان نماز کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیتا ہے اور یومِ حساب کو مدنظر رکھ کے نمازوں کی ادائیگی پر توجہ دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے شخص کو اجر سے نوازتے ہیں اور اس پہ اپنے فضل عظیم کا نزول فرماتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کا دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری کلام یہ تھا کہ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا‘‘۔
نماز کو ترک کرنا درحقیقت سنگین قسم کی نافرمانی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الماعون میں ایسے لوگوں کی شدت سے مذمت کی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ سورۃ الماعون کی آیات: 4 تا 5 میں ارشاد ہوا ''ان نمازیوں کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں‘‘۔ جو لوگ نمازوں سے غافل رہے‘ کل قیامت کے دن انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المدثر کی آیات: 40 تا 44 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہ وہ (جنتی) بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناہ گاروں سے سوال کرتے ہوں گے۔ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے‘‘۔
احادیث طیبہ کے مطالعہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز انسان کیلئے دنیا وآخرت میں فلاح اور سربلندی کا ذریعہ ہے۔ نماز میں کسی قسم کی کمی اور سستی کرنا درحقیقت سرکشی اور انحراف کے راستے پر چلنا ہے۔ انسان کو اپنے تمام کاموں میں سے نماز کو اولین ترجیح دینی چاہیے تاکہ جو تخلیق کا بنیادی مقصد ہے یعنی عبادت کرنا‘ اس کو پورا کیا جا سکے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نماز پنجگانہ کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!