مسیحی لوگوں کا سب سے بڑا فرقہ ''کیتھولک‘‘ ہے۔ اس فرقے کا مرکز اٹلی کا شہر روم ہے۔ عیسائیت کا دوسرا بڑا علمبردار ملک فرانس ہے، البتہ قوت کے لحاظ سے فرانس پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے دارالحکومت پیرس سے ایک ہفت روزہ شائع ہوتا ہے، اس کا نام ''چارلی ہیبڈو‘‘ ہے۔ چارلی ہیبڈو نے اللہ کے رسولﷺ کے خاکے2011ء سے شائع کرنے شروع کئے، آخرکار اس رسالے کا سارا عملہ ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس رسالے کا ایک بانی رکن مسٹرہنری بتلاتا ہے کہ میں نے چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر شارب کو سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہ کرو، تمہارا یہ رویہ اسلام دشمن پالیسی ہے۔ یہ پالیسی ساری دنیا کے مسلمانوں کو اشتعال دلائے گی۔ میری اس تجویز کو شارب نے مسترد کر دیا اور خاکوں کی اشاعت کو ''ایڈیٹر کا فیصلہ‘‘ قرار دے کر مجھے مایوس کر دیا، لہٰذا عملے کے بارہ بندوں پر حملے اور ہلاکت کا ذمہ دار چارلی ہیبڈو کا ایڈیٹر شارب ہے جو ہٹ دھرم‘ ضدی اور کوڑھ مغز تھا۔
قارئین کرام! ٹیلی گراف میں دیئے گئے بیان کے مطابق چارلی ہیبڈو کا ایڈیٹر کوڑھ مغز تھا۔ کوڑھ ایک بیماری ہے، اسے جذام بھی کہتے ہیں اور ایسے مریض کے قریب بھی کوئی نہیں آتا۔ یہ بیماری چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر شارب کے دماغ میں تھی، اس کی سوچ اور تصورات میں کوڑھ اور جذام تھا، یہ وہی بیماری ہے جس کے مریض پر حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تھے اور مریض تندرست ہو جاتا تھا۔ یہ بات انجیل میں بھی ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے۔ جی ہاں! یہ بیماری ایک ایسے شخص کے خیالات میں تھی جو اپنے آپ کو مسیحی کہلاتا تھا۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ اور اس کا عملہ نام کے مسیحی تھے۔ اصل میں وہ صہیونی یہودیوں کے آلۂ کار اور ملحد تھے۔ بہرحال! وہ جو بھی تھے، کوڑھ مغز تھے۔
حیرت تو ان چالیس لوگوں پر ہے جن میں یورپ اور دیگر ملکوں کے حکمران اور نمائندے تھے۔ ان سب کو ترقی یافتہ اور مہذب کہا جاتا ہے۔ یہ کیسے تہذیب یافتہ لوگ تھے کہ فرانس میں اکٹھے ہو کر سب اعلان کر رہے تھے کہ ہم سب چارلی ہیبڈو ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اعلان کر رہے تھے کہ جس طرح مسٹر شارب کوڑھ مغز تھا ہم بھی اسی طرح کے کوڑھ مغز لوگ ہیں۔ ہم شارب کے پشتیبان ہیں، وہ جو کر رہا تھا درست کر رہا تھا، ہم سب اس کی حرکتوں کی تائید کرتے ہیں۔ فرانس کا مسٹر ہنری بے چارہ پہلے ایک کوڑھ مغز پر کڑھتا تھا‘ اب اسے چالیس کوڑھ مغزوں پر کڑھنا پڑے گا۔ انصاف پسند لوگ تو اس وقت بھی کڑھے تھے جب سلمان رشدی کو برطانیہ نے ایوارڈ دیا تھا۔ ایوارڈ بھی وہ دیا جو برطانیہ کے لئے جنگی خدمات سرانجام دینے والوں کو دیا جاتا تھا۔ اسے نائٹ ایوارڈ (Knight Award) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح تسلیمہ نسرین کو بھی حکومت فرانس کی جانب سے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی قماش کے دیگر گستاخوں کو بھی یورپ کے مختلف ملکوں نے انعام دیئے۔ اور اب سب نے مل کر کہہ دیا کہ ہم ان لوگوں کے ہمنوا ہیں، ان لوگوں کے ہم زبان ہیں، ہم سب چارلی ہیبڈو ہیں۔ اللہ کی قسم! میں بہت دکھی ہوں کہ تہذیب مر گئی، میں انتہائی غمناک ہوں کہ شائستگی دم توڑ گئی، میں انتہائی کرب میں ہوں کہ کوڑھ مغز تصور اجاگر ہو کر علانیہ سامنے آیا ہے۔
اے دنیا کے مہذب لوگو! کس کے خلاف؟ ارے، اس ہستی کے خلاف کہ جن پر جو آخری کتاب قرآن نازل ہوئی، اس قرآن نے ایک خالق کی عظمت کو بیان کیا، صفات کو بیان فرمایا اور پھر صاحب قرآن حضرت محمد کریمﷺ کی زبان سے ایک انتہائی شائستہ اور مہذب اعلان ہوا۔ اپنے ماننے والوں کے لئے ایک درس اور نصیحت کا اعلان ہوا، فرمایا:
''یہ (شرک کرنے والے لوگ) اللہ کو چھوڑ کر جن (مورتیوں وغیرہ) کو پکارتے ہیں، اے مسلمانو! ان کو برا بھلا مت کہنا کیونکہ اس طرح وہ نادان لوگ دشمنی میں آ کر اللہ کو گالی دے دیں گے۔‘‘ (انعام: 108)
ہاں ہاں! ارے کس کے خلاف؟ اس عظیم ہستی کے خلاف کہ جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہ سبق دیا کہ شیطان کو بھی گالی نہ دو (سلسلہ البانی)۔ اللہ اللہ! میرے حضورﷺ کا اخلاق اس قدر آسمانوں کی بلندیوں پر کہ کہیں حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے کا اخلاق متاثر نہ ہو، زبان آلودہ نہ ہو، بدزبانی کا عادی نہ ہو جائے، لہٰذا شیطان کی شرارتوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ ضرور طلب کرو مگر اسے گالی نہ دو۔ لوگو! میرے حضورﷺ کے بلند اخلاق کے واقعات پر تو کتابوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں مگر میں نے صرف ایسی دو چیزوں کاذکر کیا ہے کہ جہاں گالی دینے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، اخلاق کے منافی نہیں سمجھا جاتا کہ ایک پتھر کی مورتی ہے، اور دوسرا شیطان ہے۔ میں صدقے جائوں اپنے حضورﷺ کے بلند اور عظیم اخلاق پر کہ ان کے بارے میں بھی اخلاق اور شائستگی کا درس دے دیا۔ ایسی محترم ہستی کے خلاف اے چالیس لوگو... تم کھڑے ہو جائو، تو مسٹر ہنری فرانسیسی زبان میں تم لوگوں کو کوڑھ مغز نہ کہے تو کیا کہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی جسمانی کوڑھوں کا علاج کیا تھا، ذہنی کوڑھوں کا کیا علاج ہو؟ کوڑھ مغزوں کا کیا علاج ہو؟ ذرا بتلائو تو اے اپنے آپ کو مہذب کہلانے والو؟
امریکہ کے دو اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے دنیا کے دو حکمرانوں کے خاکے بنائے، اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا خاکہ کہ اس کے دونوں ہاتھ غزہ کے بچوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے احتجاج کیا اور اخبار نے معافی مانگ لی۔ اسی طرح بھارت کے نریندر مودی کو گائے کے ساتھ اڑتے ہوئے فضا میں دکھلایا گیا۔ یہ مذاق تھا مودی کی اس بات کا کہ موجودہ خلائی ٹیکنالوجی تو ہمارے دیوتائوں نے دی تھی۔ ہاں ہاں! اخبار نے اس پر بھی معذرت کر لی۔ بتلائو! اب تمہاری آزادی اظہار رائے کہاں گئی؟ مر تو وہ پہلے ہی چکی تھی کہ ہولوکاسٹ پر کوئی رائے کا اظہار نہیں ہے... پھر تم لوگوں کو محض ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی محبوب ہستی ہی مزاحیہ خاکوں کے لئے ملی ہے؟ جمہوریت یہ ہے کہ رائے عامہ کا احترام کیا جاتا ہے۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کی رائے کا احترام کہاں گیا؟ جمہوری رویہ کہاں دم توڑ گیا؟
تم لوگ امن کی باتیں کرتے ہو، ایسے توہین آمیز رویوں سے بتلائو، دنیا میں امن آئے گا یا امن غارت ہو گا؟ یقینا امن غارت ہو گا، پھر امن کا دشمن کون ہے؟ دہشت گرد کون ہے؟ سوال ہے میرا اے چالیس ملکوں کے چالیس نمائندو! ذرا بتلائو تو سہی، کوڑھ مغز کے حامل رویے جاری رہے تو امن کی فاختہ کو کون دیکھے گا؟ حضرت محمد رسول کریمﷺ کی حرمت و عزت کے تحفظ کا قانون نہ بنا تو اے سلامتی کونسل والو! دنیا کو سلامتی کیسے ملے گی؟ کیونکر ملے گی؟ جواب دو جواب!