اسلام کے معنی ہیں جس سے انسانیت کو سلامتی ملے۔ اسلام کو ماننے والا مسلمان کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے انسانیت کو سلامتی دینے والا... مسلمان جس پیارے نبی کا کلمہ پڑھ کر مسلمان کہلاتے ہیں وہ فرماتے ہیں ''اَنَا نَبِیُّ الرَّحْمَۃ‘‘ میں رحمت لے کر آنے والا نبی ہوں... جس رب کریم نے رحمت دے کر بھیجا وہ خود اپنے پُررحمت نبیﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں... ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
جنگ اور رحمت دو متضاد چیزیں ہیں، جنگ میں رحمت کا وجود حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پُررحمت رسول حضرت محمد کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو جنگ کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں! جنگ مسلط ہو جائے تو پھر ڈٹ کر بہادری سے لڑنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس مقصد کے لئے قرآن اور آپﷺ کے فرمودات واضح ہیں کہ جنگ کی تیاری کر کے رکھو... یہ تیاری اس وجہ سے ہے کہ کسی ظالم کے ظلم کا شکار ہونے سے محفوظ رہا جائے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ جو اس تقاضے سے روگردانی کرتا ہے وہ فطرت سے انحراف کا ارتکاب کرتا ہے۔ الغرض! ہمارے پررحمت حضورﷺ کی زندگی انتہائی پُررحمت اور متوازن زندگی ہے اسی لئے رب کریم نے اپنے رسولﷺ کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔
ہمارے پُررحمت رسولﷺ نے جنگ کو بھی پُررحمت بنایا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، مزدوروں، عبادت گاہوں میں مصروف لوگوں، گھروں میں بیٹھنے والوں اور عام شہریوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا، آگ میں جلانے سے منع فرمایا، کھیتوں کھلیانوں کو نذر آتش کرنے سے منع فرمایا... جی ہاں! مدمقابل فوج سے لڑائی کرنے کو کہا... اب ایسی ہدایات اور اس پر عمل کرنے والے رسولِ رحمتﷺ کا دین اس بات کی کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ ایک ایسا ہتھیار یعنی ایٹم بم چلایا جائے کہ جس سے انسانیت تباہ ہو جائے؟ اس کے برعکس ایسی حرکت کرنے والے کو میرے حضورﷺ پر نازل ہونے والا قرآن جہنمی قرار دیتا ہے اور اس کی سرشت کو یوں طشت از بام کرتا ہے:
''اور جب اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ اس بھاگ دوڑ میں لگ جاتا ہے کہ زمین میں فساد مچا دے، کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے‘‘۔ (البقرہ: 205)
قارئین کرام! غور فرمائیں، ایٹم بم سے دو چیزوں کی تباہی ہوتی ہے: ''حرث‘‘ یعنی کھیت کھلیان اور باغات تباہ ہو جاتے ہیں۔ جاپان میں گرنے والے ایٹم بموں کے بعد آج بھی مذکورہ علاقے کے کھیت پیداوار دینے سے قاصر ہیں۔ جو پیداوار سالہا سال بعد پیدا بھی ہوئی تو وہ تابکاری کی حامل تھی جس کا استعمال کینسر کے مرض کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نسلِ انسانی مٹ گئی۔ اللہ نے نسل کا لفظ استعمال کیا ہے، مسلمان نسل کا تذکرہ نہیں بلکہ نسل انسانی کا ذکر ہے اور صرف نسل انسانی کا ہی ذکر نہیں بلکہ جانوروں کی نسل بھی اس میں شامل ہے کہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی نسل بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں انسانی اور حیوانی زندگی کا خاتمہ اور جس پر نسلوں کی حیات کا دارومدار ہے یعنی کھیت کھلیان کا خاتمہ، یہ سب سے بڑا فساد ہے اور یہ اللہ کو پسند نہیں ہے اور ایسا کرنے والے کو میرے حضورﷺ کا قرآن جہنمی قرار دیتا ہے۔ ایسے شخص کو اگلی ہی آیت میں اللہ نے متکبر کہا ہے، یعنی کھیت اور نسل کو برباد کرنے والا انتہائی متکبر ہی ہو سکتا ہے کہ جو نسلوں کا دشمن ہے، انسانیت اور حیوانیت کا وَیری ہے۔
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے واضح کر دیا کہ میں آخری نبیﷺ ہوں اور ساری انسانیت کی طرف رسولﷺ بنا کر بھیجا گیا ہوں... یوں ساری انسانیت ہمارے حضورﷺ کی امت ہے۔ ایک ''امت اجابت‘‘ ہے یعنی جنہوں نے آپﷺ کا کلمہ پڑھ لیا، دوسری ''امت دعوت‘‘ ہے یعنی جنہوں نے آپﷺ کو نبی نہیں مانا۔ انہیں دعوت دی جائے گی۔ دعوت کے لئے امن چاہئے۔ دعوت محبت اور اخلاق کا تقاضا کرتی ہے۔ یعنی ہمارے حضورﷺ کی رسالت اور ختم نبوت غیر مسلموں کے لئے امن اور حسن اخلاق کا تقاضا لئے کھڑی ہے تو جب ہم نے دعوت دینا ہے اور دلیل سے قائل کر کے بغیر جبر کے لوگوں کو مسلمان بنانا ہے تو پھر ہم ان کو قتل کیوں کریں گے؟ اگر ایٹم بم سے انسانیت ہی تباہ ہو جائے تو دعوت کس کو دیں گے؟ لہٰذا ایٹم بم کا چلنا ہمارے حضورﷺ کی رسالت اور ختم نبوت کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔
تمام مذاہب کے لوگ اللہ کو مانتے ہیں، اللہ چونکہ خالق ہے لہٰذا اسی کو یہ حق ہے کہ اپنی حکمت کے تحت زلزلوں، سیلابوں، سونامیوں، وبائی بیماریوں سے اپنی مخلوقات کو جیسے چاہے ہلاک کر دے۔ انسانوں کا کام یہ ہے کہ اسباب اور علم کے ذریعے سے قدرتی آفات سے بچ نکلنے کا بندوبست کریںلیکن انسان کویہ حق نہیں ہے کہ وہ وسائل اور قوت حاصل کر کے مندرجہ بالا آفتوں کے ذریعے سے انسانوں کو ہلاک کرے اور ایٹمی قوت کے ذریعے سے کھیتی اور نسل کو برباد کر کے رکھ دے۔
میں بالکل غیر متعصب اور غیرجانبدار ہو کر جب سوچتا ہوں تو مجھے دنیا میں دو قوموں کے ہاتھوں انسانیت کی تباہی نظر آتی ہے اور یہ دونوں ہی انسانیت پر یقین نہیں رکھتیں۔ پہلے نمبر پر یہودی ہیں اور دوسرے نمبر پر ہندو ہیں۔ یہودی اپنے علاوہ سب انسانوں کو جانور سمجھتے ہیں جبکہ ہندو برہمن اپنے نچلی ذات کے ہندوئوں کو بھی انسان خیال نہیں کرتے... باقی انسانوں کا تو ذکر ہی کیا؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے مسیحی لوگوں نے پہلا ایٹم بم چلایا تو بنا کر یہودیوں نے ہی دیا اور انڈیا نے بنایا تو فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا ملک بڑا ہے، ہمارے لوگ تو بڑی تعداد میں بچ جائیں گے پاکستان کا کوئی شخص نہیں بچے گا... یہ ہے وہ غیر انسانی سوچ جس سے انسانیت کو خطرہ ہے اور اسی خطرے کا ڈیٹرنس پاکستان کو بھی قائم کر کے ایٹم بم بنانا پڑا ہے اور ایسا کرنا پاکستان کا فطری تقاضا اور فریضہ تھا۔ ڈیٹرنس کے بارے میں گفتگو آئندہ کسی اشاعت میں کریں گے۔(ان شاء اللہ)۔