''صحیح مسلم‘‘ میں اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ نے جو نبی اور رسول بھی بھیجا اس کی ڈیوٹی لگائی کہ اس کی قوم کے حق میں جو بہتر ہے اُسے آگاہ کرے اور جو چیز اُس کے نقصان میں ہے اس سے بھی اُسے خبردار کرے۔ یاد رہے‘ ختم نبوت کے بعد اس ڈیوٹی کے ذمہ دار علماء اور صحافی ہیں؛ چنانچہ اپنی ڈیوٹی کا احساس کرتے ہوئے جب میں نے فیصل آباد وزیرآباد ریلوے سیکشن پر ٹرین کے خوفناک حادثے کے اسباب پر تحقیق کی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ یہ حادثہ کسی بھی طرح دہشت گردی سے کم جرم نہیں۔ یہ حادثہ سراسر کرپشن کی وجہ سے ہوا لہٰذا میں اسے ایک نئی اصطلاح دے کر اس حادثہ کو ''خیانتی دہشت گردی‘‘ کا نام دے رہا ہوں۔
قارئین کرام! ریلوے کی پٹڑی پر جو گارڈر نصب کئے جاتے ہیں، اسے ریل کہا جاتا ہے، اس پر انجن اپنی بوگیوں کے ساتھ چلتا ہے اس لئے اسے ''ریل گاڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ریل کا ٹریک یا پٹڑی جو آج بھی بچھی ہوئی نظر آتی ہے، اس کا ٹریک ماڈل نمبر 90/R.B.S ہے۔ یہ ماڈل انگریز کے دور میں 1930ء اور پھر 1955ء میں بنایا گیا۔
گارڈر یعنی ریل کے سرے جب اپنی میعاد پوری کر لیتے ہیں تو ان کے سرے بیٹھ جاتے ہیں لہٰذا ریل گاڑی کے پہیے جب ان سروں سے گزرتے ہیں تو ٹھک ٹھک زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اسے انگریزی میں (HOGING) کہتے ہیں۔ اس پٹڑی کے نیچے پہلے تو لکڑی کے سلیپر ہوتے تھے، اب یہ سلیپر کنکریٹ کے ہوتے ہیں جب اسے جھٹکا لگتا ہے تو سلیپر کے نیچے بجری آہستہ آہستہ پستی رہتی ہے، اگر اسے تبدیل نہ کیا جائے تو بارش کی وجہ سے یہ بجری دھیرے دھیرے نکل جاتی ہے اور یوں ٹرین کے پہیوں سے لگنے والا جھٹکا دو سو فیصد تک بڑھ جاتا ہے، چنانچہ ٹرین کے ڈی ریل یعنی پٹڑی سے اترنے کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔
لاہور سے کراچی تک کی پٹڑی مین لائن ہے، یہاں کا ٹریک اپنی مدت پوری کر گیا تو اسے اکھاڑ کر برانچ لائنوں میں لگایا جانے لگا، ایک گارڈر یا ریل کی سٹینڈرڈ لمبائی 42فٹ ہے، اب ریلوے والوں نے اُن کے سرے کاٹے اور سٹینڈرڈ کا ستیاناس کر کے انہیں برانچ لائنوں پر فٹ کردیا، پھران میں ٹوٹے لگانے شروع کر دیئے۔ لاہور تا نارووال سیکشن پر 500کے قریب ٹوٹے چار تا پانچ انچ کے ہیں۔ یہی حال باقی برانچ لائنوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برانچ لائنوں پر کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت برانچ لائنوں پر زیادہ ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ریلوے کی پٹڑی ملک بھر میں فوجی چھائونیوں کے اندر تک جاتی ہے۔ اب برانچ لائنوں کی بربادیوں کے بعد یہ نقل و حرکت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ فوج نے اپنی نقل و حمل کو این ایل سی کے ذریعے متبادل کے طور پر یا دیگر ذرائع کو اختیار کر لیا ہے۔ اس سے بھی ریلوے کا تجارتی خسارہ بڑھا اور سستے اور محفوظ نقل و حمل کے ذریعے کو چھوڑ کر فوج کا خرچہ بھی بڑھ گیا ہے۔
آرمی کی ٹرین جس کو ہیڈ چھناواں کے قریب نہر لوئر چناب کے پُل پر حادثہ پیش آیا اس کے انجن کا کوڈ نمبر RGE-24 ہے۔ اس کا لوکونمبر 5206ہے۔ یہ انجن امریکہ کی ایلکو کمپنی کا ساختہ ہے۔ پاکستان میں یہ انجن 1956-58ء میں آئے جبکہ وزیر ریلوے کے مطابق حادثے کا شکار انجن 1969ء میں خرید گیا تھا۔ اس لحاظ سے بھی یہ 46 سال پرانا ہے جبکہ باقی انجن تقریباً ساٹھ سال پرانے ہیں۔ ساٹھ سال کا بندہ بھی ریٹائر ہو جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ انجن اپنی میعاد پوری کرنے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوا۔ جنرل مشرف کے دور میں ان کی اوور ہالنگ کی گئی، لیکن ان کی مکمل بحالی نہ ہو سکی۔ پاک فوج کے شیروں کی گاڑی کو یہی غیر متوازن بوڑھا انجن کھینچ رہا تھا ۔ فیصل آباد‘ وزیرآباد ریلوے سیکشن پر جامکے چٹھہ ریلوے سٹیشن سے تھوڑے فاصلے پہ یہ بوڑھا امریکی انجن جس پٹڑی پر چل رہا تھا وہ ہیڈ چھناواں کے قریبی پُل پر آ کر لڑکھڑا گیا۔ چونکہ 90/R.B.S کے 85سالہ پرانے ماڈل اب دستیاب نہیں لہٰذا خرابی کی صورت پرانے ٹوٹے جوڑ توڑ کر پیوند لگا دیا جاتا ہے اور پھر کاشن دیا جاتا ہے کہ پٹڑی انتہائی کمزور ہے لہٰذا سپیڈ 30کلومیٹر فی گھنٹہ سے اوپر نہ لے جائیں۔ اب ڈرائیور کاشن کے اندر تھا یا تھوڑا سا تیز ہو گیا یہ تو تحقیق سے پتہ چلے گا؛ البتہ یہ انجن اور پٹڑی دونوں زائد المیعاد تھے اور محکمہ ریلوے کی بدترین غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں میرے ملک کے سجیلے جوان اور ان کے اہل خانہ، بہنیں اور بیٹیاں بھی شہید اور زخمی ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جاپان میں ٹرین کی رفتار چھ سو کلومیٹر کے قریب پہنچ گئی ہے، یعنی ایک گھنٹے میں جتنا وہ سفر کرے گی ہماری ٹرین اتنا سفر 19گھنٹے میں کرے گی۔ ہماری ریلوے کی حیثیت اس وقت ایک مردہ کی سی ہے لیکن ''خیانتی دہشت گردی‘‘ کا ناس ہو کہ اس کی حفاظت پر مامور ''گینگ مین‘‘ ہی کفن چورہیں۔ یہ طبقہ مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی۔ مظلوم اس طرح ہے کہ ان کی تنخواہ اوسطاً سولہ ہزار روپے ہے۔ یہ اپنے افسران کے گھروں میں ان کے
ذاتی کام کرتے ہیں، یہ آٹھ ہزار روپے اپنے افسران کو ماہانہ رشوت بھی دیتے ہیں اور انہیں دیسی گھی، دیسی انڈے اور دیسی مرغیاں بھی پہنچانے پر مجبور ہیں؛ اس لئے کہ ریلوے لائنیں دیہات سے گزرتی ہیں، دیسی مال کھانے والے آفیسرز یعنی اسسٹنٹ وے انسپکٹر، پرمانینٹ وے انسپکٹر اور اسسٹنٹ انجینئرز ہیں۔ اب گینگ مین اپنی مظلومیت کا بوجھ ریلوے پر ڈالتے ہیں۔ وہ ریلوے لائن کے نٹ بولٹ اور فش پلیٹیں چوری کرتے ہیں، اپنا نقصان بھی پورا کرتے ہیں اور کمائی بھی کرتے ہیں۔16ہزار کا32ہزار بناتے ہیں۔ نیا سامان جو خریدا جاتا ہے، وہ برانڈرتھ روڈ اور پرائیویٹ سپلائرز سے خریدا جاتا ہے، کچھ لگا دیا جاتا ہے اور باقی ماندہ واپس دکانوں پر پہنچ جاتا ہے۔ خیانتی دہشت گردی کا یہ چکر تسلسل سے چلتا رہتا ہے۔ آج بھی اگر برانچ لائنوں کا سروے کیا جائے تو لاکھوں فش پلیٹیں اور نٹ بولٹ شارٹ ملیں گے۔ دوسری طرف ریلوے کی یہی چیزیں لوہے کی سکریپ مارکیٹوں میں بھی مل جائیں گی جہاں گینگ مین فروخت کرتے ہیں۔ صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ ریلوے کے انجنوں میں سالانہ 9کروڑ لٹر تیل صرف ہوتا ہے اس میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 فیصد باہر بکتا ہے۔
پنجابی کے ایک شاعر نے ایک جملہ بولا تھا ''بندے تاں ٹاواں ٹاواں نیں‘ سب سرکاراں ای سرکاراں نیں‘‘ یہ شعر ریلوے کے افسران پر اس طرح فٹ ہوتا ہے کہ کام کرنے والے ورکر تو خال خال ہی ہیں جبکہ مراعات لینے کے لئے افسروں کی تعداد بارش میں کھمبیوں کی طرح بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اس وقت ریلوے بورڈ کے علاوہ ہیڈ کوارٹرز آفس میں افسروں کی بھرمار ہے۔ 3جنرل منیجرز، 4ایڈیشنل جنرل منیجرز اور 1 اسسٹنٹ جنرل منیجر کے علاوہ تمام شعبوں یعنی انجینئرنگ، اوپن لائن، سگنلنگ، الیکٹریکل، ریپئرنگ اور کمرشل مارکیٹنگ میں 20گریڈ کے دو دو آفیسر مقرر ہیں، ڈبل ٹریک پر مامور آفیسر اور چھ ڈویژنل شعبہ جات میں بے شمار آفیسر اور ملازمین ہیں۔
اب تو نہیں، کچھ عرصہ پہلے تک ریلوے سٹیشنوں پر قبلہ کے رخ کی جانب ایک تیر لگا ہوتا تھا، اس تیر کے لئے 19ویں گریڈ کا ایک افسر ہوتا تھا، عہدے کا نام ''ڈپٹی سی او پی ایس قبلہ‘‘ تھا۔ اس کے لئے اسپیشل ٹرین چلا کرتی تھی، ایسے افسروں کی اب بھی کوئی کمی نہیں، اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس قدر کہ لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے دفاتر کم پڑ گئے ہیں اور باہر کرائے پر دفاتر لئے گئے ہیں ایک عہدہ اب چیف ایگزیکٹو ریلوے بھی تخلیق کر دیا گیا ہے، حتیٰ کہ پلوں کا ایک الگ افسر ہے۔ اس کا عہدہ ''چیف انجینئر برج‘‘ ہے اور آرمی ٹرین برج پر ہی حادثہ کا شکار ہوئی۔ الغرض! نچلا عملہ منتھلی دے کر کاموں سے فارغ۔ اوپر سرکاراں ای سرکاراں‘ اور بندے نیں ٹاواں ٹاواں۔
ریلوے میں ایک بہت اہم عہدہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کا ہے۔ یہ ریلوے پٹڑی کا معائنہ جس ریل کار پر کرتے ہیں اسے انسپکشن کار کہتے ہیں۔ یہ اسپیشل چلتی ہے اس کا سیلون ہوائی جہاز کی ایگزیکٹو کلاس سے کہیں اعلیٰ اور آرام دہ ہے۔ اس کو جھٹکا لگتا ہی نہیں اور ڈی ایس صاحب اس پر انسپکشن فرماتے ہیں۔ بتلایئے لاکھوں کے خرچے، اور پھر اس کی خاطر دوسری گاڑیوں کو روکنے کے علاوہ کیا حاصل ہوتا ہے کہ ٹھک ٹھک کی انسپکشن تو اس گاڑی میں ناممکن ہے۔ یہ کام تو عام گاڑی میں کیا جا سکتا ہے‘ الغرض! میں یہ سُن کر حیران ہوتا ہوں کہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کو بہتر کر دیا، کیا بہتر کر دیا، اگر مزید تفصیلات میں جائوں تو حیرتوں کے سمندر اور بھی ہیں۔ مختصر یہی ہے کہ ''خیانتی دہشت گردی‘‘ پر ضرب عضب کا وار چلنا چاہئے کہ میرے سجیلے جوان اس کا شکار ہوئے‘ مگر سوچتا ہوں یہ وار کہاں کہاں چلے گا، کیسے چلے گا اور کب چلے گا؟