قرآن کی‘ جس آیت میں ''کُرْسِیُّہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہوا ہے‘ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے اس آیت کو ''آیت الکرسی‘‘ کا نام دیا ہے۔ (بخاری:2311,501) اللہ تعالیٰ اپنی کرسی کے بارے میں واضح کرتے ہیں ''وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِِ‘‘ اللہ کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یاد رہے! جہاں آسمانوں اور زمین کا ذکر آتا ہے‘ وہاں کائنات مراد ہے‘ یعنی ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی کرسی کے گھیرائو میں ہے۔ جی ہاں! کرسی کتنی بڑی ہے اور اس میں موجود کائنات کی جو جسامت ہے ‘اس کی حیثیت کیا ہے‘ اس کے بارے میں اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کا ایک فرمان صحیح سند کے ساتھ یوں ہے‘ فرمایا:'' کرسی کے اندر ساتوں آسمان اس طرح ہیں‘ جس طرح وسیع و عریض ریگستانی زمین میں ایک انگوٹھی پڑی ہو۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ:109)۔ حدیث میں ''فَلَاۃٌ‘‘ کا لفظ ہے۔ ''لسان العرب‘‘ میں اس کا معنی وسیع و عریض ریگستان ہے۔ اس کا معنی چٹیل میدان بھی ہے۔ دونوں معنوں کو ملائیں تو معنی ''ریگستان نما چٹیل میدان‘‘ ہو گا۔ حضور نبی کریمؐ نے ''بِاَرْضِ فَلَاۃٍ‘‘ فرمایا ہے‘یعنی اس سے پوری زمین بھی مراد لی جا سکتی ہے۔ جی ہاں! ساری زمین ایک ریگستان نما چٹیل میدان ہو تو یہ کرسی کی جسامت ہے اور اس میں ایک انگوٹھی پڑی ہو تو یہ ساتوں آسمانوں جیسی جسامت ہے۔ معلوم ہوا اس کرسی میں بے شمار‘ لاتعداد اور ان گنت کائناتیں سما سکتی ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر پوری زمین مراد نہ بھی لی جائے۔ سعودی عرب کا صحرا ہی مراد لے لیا جائے‘ تو وہ بھی چھ لاکھ پچاس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جزیرۃ العرب کے اس صحرا کو ''ربع الخالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ہزار کلومیٹر لمبا اور پانچ سو کلومیٹر چوڑا ہے۔ اتنا بڑا صحرا کرسی سمجھ لی جائے تو اس کے وسط میں پڑا ہوا ایک چھلا یا انگوٹھی (Ring)ساتوں آسمان ہیں‘یعنی اس اعتبار سے کرسی اس قدر بڑی ہے کہ اس میں اربوں کھربوں کی گنتی سے کہیں زیادہ کائناتیں سما سکتی ہیں‘ باقی کرسی کی حقیقت کو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں‘ وہ ہماری ذہنی پرواز کے اعدادوشمار سے کہیں بڑی ہے۔ نظریاتی فزکس کے نامور سائنس دان مسٹر اسٹیفن ہاکنگ جو تھوڑا عرصہ قبل وفات پا گئے‘ ان کی کتاب میرے سامنے ہے۔ اس کا نام (The Universe In A Nutshell) ہے۔ کتاب کا تیسرا چیپڑ بھی اسی عنوان سے ہے۔ عنوان کے نیچے اخروٹ کی تصویر ہے‘ یعنی جس طرح اخروٹ میں مغز بند ہے‘ اسی طرح یہ کائنات ایک مضبوط خول کے اندر بند ہے۔ مسٹر ہاکنگ یہاں انگریز دانشور مسٹر شیکسپیئر کا ایک قول لائے ہیں:
"I could be bounded in a nutshell and count myself a king of infinite space"
''میں تو ایک خول میں جکڑا ہوا ہوں ‘جبکہ میں اپنے آپ کو لامحدود خلا کا بادشاہ سمجھے ہوئے ہوں۔‘‘... اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں اس حقیقت کا برملا اعتراف اور اعلان کیا کہ ''یہاں تو کئی آسمان ہیں اور کئی کائناتیں ہیں‘‘۔
جی ہاں! مولا کریم نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ پر آخری کتاب قرآن کریم نازل فرمائی تو اس کا آغاز ہی بے شمار کائناتوں کے وجود سے کیا۔ فرمایا '' سب تعریف اس اللہ کے لئے جو بے شمار کائناتوں کی ضروریات کو پورا فرمانے والا ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا ''فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ (الجاثیہ:36) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے‘ جو آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا رب ہے‘ تمام کائناتوں کا رب ہے۔ قارئین کرام! یہاں آسمانوں کا الگ تذکرہ فرمایا‘ زمین کا الگ تذکرہ فرمایا... اور پھر کائناتوں کا الگ تذکرہ فرما کر واضح کر دیا کہ کائنات کوئی ایک نہیں‘ بلکہ بے شمار ہیں اور سب کائناتیں کرسی کے اندر جکڑی ہوئی ہیں‘ جیسا کہ اللہ کے رسولؐ کے فرمان میں ''فِیْ الْکُرْسِیِّ‘‘ ہے ‘یعنی کرسی کے اندر ہیں۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زمین کی شکل بیضوی ہے‘ ستاروں اور سیاروں کی شکلیں بھی تقریباً ایسی ہی ہیں۔ کہکشائوں کی صورتیں بھی اسی قسم کی ہیں۔ کرسی کی صورت بھی ایسی ہی ہو گی‘ باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ کس قدر بے شمار کائناتیں ہیں‘ جو بن چکی ہیں‘ بنتی جا رہی ہیں اور بنتی چلی جائیں گی۔ ان کی تعداد بس اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق کرسی کے اندر انتہائی معمولی حیثیت کی حامل ہیں۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور ابدی ہیں۔ خلق‘ یعنی پیدائش (Creation) اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ صفت کا اظہار ہر لمحے جاری و ساری ہے ۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ کرسی سے بھی بڑی کوئی مخلوق ہے؟ جی ہاں! اور وہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے ''کرسی کے مقابلے میں عرش اتنا بڑا ہے جتنا کہ چٹیل ریگستانی میدان انگوٹھی سے بڑا ہے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ: 109)۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی مخلوق اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘ جسے آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے۔ (القرآن) اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ ان میں سے ایک فرشتے کی حقیقت کو بتلانے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے۔ اس کے کان کی کونپل سے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت ہے۔(الجامع الکامل) یہ رفتار اگر حضرت جبرائیل ؑ جیسے فرشتوں کی رفتار کے مطابق ہو گی‘ تو اتنی سی جگہ پر نہ جانے کتنی کائناتیں سما جائیں۔
الغرض! سب سے بڑی مخلوق عرش ہے۔ عرش کے بعد اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی مخلوق کرسی ہے۔ کرسی میں بے شمار کائناتوں میں سے ایک ہماری کائنات ہے ‘جو سات آسمانوں اور سات زمینوں پر مشتمل ہے۔ اس میں جو ہمارا آسمان ہے‘ قرآن نے اسے آسمانِ دنیا کہا ہے اور فرمایا کہ ہم نے اسے ستاروں سے مزین فرمایا ہے باقی آسمانوں کی تزئین و آرائش یا بناوٹ کیسی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ سائنس دان اب تک جو دوربینیں بنا چکے ہیں‘ ان میں زمینی‘ خلائی اور وائیجرون‘ وائیجر ٹو جیسی خلائی شٹلز جو نظام شمسی کو کراس کر کے آگے جا چکی ہیں‘ ان کی بھیجی ہوئی معلومات کے مطابق یہاں تو خلا میں ''سپرکلسٹر‘‘ یعنی ایسے بڑے جھرمٹ ہیں‘ جن میں اربوں کھربوں کلسٹر ہیں‘ پھر ہر کلسٹر میں اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں۔ جی ہاں! ایک کہکشاں میں اربوں کھربوں ستارے‘ سیارے ہیں‘ بلیک ہولز ہیں اور نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ان اربوں کھربوں کہکشائوں میں سے ایک ہماری کہکشاں ہے جس کا نام ہم نے ملکی وے‘ یعنی ''دودھیا راستہ‘‘ رکھا ہے۔ اس کے ایک بازو پر ہمارا نظام شمسی ہے ‘جو بے چارہ ایک نکتے کی طرح ہے‘ پھر اس نظام شمسی میں ہماری زمین بالکل ایک نکتہ معلوم ہوتی ہے۔ جب ناسا کا وائیجرون نظام شمسی سے نکلتے ہوئے نظام شمسی کے 9سیاروں کی تصویر ناسا کے کنٹرول روم میں بھیجتا ہے تو اہل زمین کو ہماری اوقات سے باخبر کرتا ہے۔ لوگو! اس زمین پر سات براعظم ہیں اور کوئی تیسرے حصہ سے بھی کم خشکی ہے۔ سمندروں اور برفوں میں گھرے ہوئے خشکی کے ان ٹکڑوں پر کوئی دو سو کے قریب ملک ہیں ‘جن میں انسان اور جانور بستے ہیں۔ ملکوں میں رقبے کے اعتبار سے ممالک کو پانچ درجنوں میں تقسیم کیا جائے ‘تو میرے ملک پاکستان کا شمار تیسرے درجے میں ہو گا۔
یوں تو ساری دنیا میں ہی کرسی کا جھگڑا ہے‘ چار ٹانگوں والی کرسی جو بمشکل چار مربع فٹ کی جگہ گھیرتی ہے‘ اس پر ایک انسان بیٹھ جاتا ہے‘ کبھی وہ ساڑھے پانچ فٹ کا ہوتا ہے‘ کبھی چھ فٹ کے آگے پیچھے ہوتا ہے۔ اصل انسان تو ''روح‘‘ ہے۔ یہ بے چارہ تھوڑے سے ٹائم کے لئے گوشت‘ ہڈیوں اور خون نام کے پانی کے مکسچر میں قید ہے۔ میرے حضورؐ نے فرمایا ''دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے‘‘۔ (مسلم)۔ یہاں مومن کم ہی نظر آتے ہیں‘ جن کی نظر اپنے حقیر اور فانی وجود سے آگے بڑھتے ہوئے عرش کے نیچے فردوس پر جاتی ہے۔ اکثر کا حال یہی ہے کہ کرسی کی خاطر چالیں چلتے ہیں‘ جھوٹ بولتے ہیں‘ سازشیں کرتے ہیں‘ کرپشن کرتے ہیں‘ انسانوں پر ظلم کرتے ہیں‘ قید خانوں میں پھینکتے ہیں‘ گالم گلوچ تک کرتے ہیں ‘مگر ایک مومن جب ان کو دیکھتا ہے تو یہ سب کھلونے دکھائی دیتے ہیں‘ جو چھوٹی سی حقیر جگہ پر دھینگا مشتی کر رہے ہیں۔ ایسی دھینگا مشتیاں کرتے کرتے بے شمار حکمران جنہیں بادشاہ‘ سلطان‘ قیصر‘ کسریٰ‘ صدر‘ وزیراعظم وغیرہ کہا جاتا تھا‘ قبرستان نامی زمین میں مٹی بنے پڑے ہیں۔ باقیوں کا حشر بھی عنقریب ایسا ہی ہونے والا ہے‘ مگرعبرت مومن ہی پکڑتا ہے۔ میرے حضورؐ کا غلام اور پیروکار کہ جس کی نظر عرش بریں پر ہے۔ کردار دوغلا نہیں‘ فرشتہ سیرت ہے۔ وجود تو اس کا بھی مٹی میں ہے‘ مگر روح عرش کے نیچے ہے۔ اس لئے کہ اس کی سوچ اور اس کا کردار عرشی ہے فرشی نہیں ہے۔
قارئین کرام! میں چند لمحوں کے لئے روحانی فلائٹ پکڑتے ہوئے عرش کے نیچے جا کھڑا ہوا‘ مجھے بڑی مشقت کے بعد اپنی کائنات دکھائی دی۔ دنیاوی آسمان دیکھنا تو بہت مشکل ہو گیا۔ دیکھا تو اس میں ملکی وے ایٹم سے بھی چھوٹے ذرے الیکٹرون جیسی دکھائی دی۔ آگے میں نظام شمسی کو کیا دیکھتا‘ زمین پر کیا نظر ڈالتا کہ اس کا وجود عدم سے بھی کمتر تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کرسی‘ ولادی میر پیوٹن کی کرسی‘ چین کے شی کی کرسی‘ شاہوں کی کرسی اور میرے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی‘ نہ یہ وہاں یاد تھیں‘ نہ ان کی کوئی حیثیت تھی۔ میں نے ''سبحان اللہ‘‘ کا ورد کیا... اگلے لمحے ذہنی طور پر زمین پر تھا۔ اب میں اس عارضی کاٹھ کباڑ میں اس احتیاط کے ساتھ رہنے کا پروگرام بنا رہا ہوں کہ عرش کے نیچے فردوس میں میری آخری روحانی فلائٹ کنفرم ہو جائے۔