ہمارے حضور نبی کریمﷺ کائنات کی سب سے عظیم اور قابلِ احترام ہستی ہیں‘ جن کو کائنات کے بنانے والے نے اپنا خلیل اور حبیب بنایا۔ آپﷺ کی شانِ اقدس میں توہین کا ارتکاب کرنے والا ملعون 3 اکتوبر کو کار حادثے میں جل کر کوئلہ بن گیا۔ لارس ولکس اس بدبخت کا نام تھا۔اس نے یہ مذموم حرکت 2007ء میں کی تھی‘ تب اس کی عمر 60 سال تھی۔ 2021ء میں وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا‘ اب اس کی عمر 75 سال تھی۔ یوں اس گستاخ کو 15 سال تک مہلت ملی۔ میں اس لمبی مہلت کا سبب تلاش کرتا رہا‘ غوروفکر کرتا رہا تو اللہ رحمن نے اپنا فضل فرمایا اور غوروفکر میں رہنمائی اس طرح نمایاں ہوئی کہ اس کے شیطانی دل و دماغ میں ہمارے عظیم رسولﷺ کے بارے میں حسد کی جو آگ تھی‘ شیطانی غضب کا جو بھانبڑ اور الاؤ تھا اس کا تقاضا تھا کہ وہ حضور کریمﷺ کے کسی جانثار غلام کے ہاتھوں واصل جہنم نہ ہو بلکہ براہِ راست اس آگ میں جل کر بھسم ہو کہ جس حسد کی آگ میں وہ 15 سال تک متواتر جلتا رہا۔ وہی آگ جو اندر لگی ہوئی تھی‘ اللہ جبار و قہار نے باہر سے اس کا بندوبست خود فرمایا۔ حضور کریمﷺ کے غلاموں نے اس کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی مگر کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ یہ کوشش اس لیے کامیاب نہ ہوئی کہ جس رب نے میرے حضور کریمﷺ کو اپنا خلیل اور حبیب بنایا ہے‘ اس نے خود بدلہ لینے کا فیصلہ فرما لیا تھا۔ اس ملعون گستاخ پر ڈنمارک میں بھی حضورﷺ کے غلاموں نے حملہ کیا تھا۔ یہ وہاں بھی بچ نکلا مگر دو بندے مارے گئے۔ یہ اس لیے بچ نکلا کہ اللہ نے اپنے انتہائی برگزیدہ بندے اور دوست حضرت محمد کریمﷺ کی حرمت کا انتقام خود لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
جب بدر کا میدان لگا تھا تو ہمارے حضورﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک میں کنکر لیے‘ کنکریالی مٹی کو اپنی مٹھی میں لیا اور ابوجہل کے لشکر کی جانب پھینکا تو رب کریم نے اس منظر کو قرآن میں یوں بیان فرمایا تھا ''(میرے حبیبﷺ) یہ (کنکریالی مٹی) آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی‘‘۔ (الانفال:17) اللہ اللہ ! کیا مقام ہے رب کریم کے حبیبﷺ کا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ حدیبیہ کے میدان میں جب 1400 صحابہ کرامؓ نے حضور کریمﷺ کے ہاتھ مبارک پر اپنے ہاتھ رکھ کر بیعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ''ان ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔ (الفتح:10) جی ہاں! ملعون بچتا اس لیے رہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی عزت و حرمت او رناموس و وقار کا بدلہ اپنے دستِ قدرت سے لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آگاہ کرنا تھا کہ جس رب نے اپنے آخری رسول پر ''سورۃ الملک‘‘ نازل کی اس نے سورت کا آغاز ہی ''بِیَدِہِ الْمُلْک‘‘ سے کیا کہ کائنات کا اصل اختیار اور انتظام صرف اللہ واحد کے ہاتھ میں ہے‘ حقیقی بادشاہت اسی کے پاس ہے۔
چنانچہ اس عظیم شہنشاہِ کائنات نے گستاخ کو سرعام مارا‘ سڑک پر مارا۔ مارٹن نامی بستی کے پاس یہ حادثہ ہوا۔سویڈش پولیس کے سربراہ نے اپنے نائب کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور دنیا کو بتایا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔ اچانک رونما ہونے والا ایکسیڈنٹ تھا‘ کسی انسان کا اس میں دخل نہ تھا‘ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ کسی نے اس کی سازش کی ہو۔ البتہ اتنی زیادہ آگ کا لگنا سمجھ سے باہر ہے۔ سب لوگ یہی کہہ رہے ہیں۔ تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ بظاہر حادثے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ نہ رش تھا۔ نہ ازدحام تھا۔ پُرسکون سڑک پر حادثہ ہوا۔ پھر ٹرک کو بھی آگ لگی جس کے ساتھ‘ سامنے سے آتی ملعون کی کار ٹکرائی تھی مگر اس چھوٹے سے ٹرک کا ڈرائیور زندہ بچ گیا جبکہ کار میں ملعون کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار بھی اس کے ساتھ کوئلہ بن گئے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سویڈش پولیس کے کمشنر اینڈرس تھارنبرگ جب حیرت کے مارے پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کے نائب کمشنر آف پولیس حیرت و استعجاب سے آنکھیں بند کرکے اپنا سر دائیں بائیں گھما رہے تھے، یعنی وہ نفی میں سر ہلا کر کہہ رہے تھے کہ اس قدر اعلیٰ جدید ترین کار‘ تمام سہولتیں‘ جو حادثے کے وقت دفاع کرتی ہیں، آگ لگنے سے بھی دفاع کرتی ہیں، وہ سب ختم ہوگئیں اور آگ لگنے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر پھر بھی لگ گئی اور اس قدر زیادہ کیسے لگ گئی کہ بجھ بھی نہ سکی‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جی ہاں! حضور نبی کریمﷺکا ادنیٰ سا غلام امیر حمزہ کہتا ہے کہ اپنے حبیب اور خلیل کی حرمت و عزت کی پامالی کا جس رب نے بدلہ لیا‘ یہ تو اس کا اپنا دستِ قدرت تھا۔ تمہیں سمجھ کیسے آئے؟ یہ سمجھ آئے گی توصرف حضورﷺ کے غلام کو آئے گی۔ اور غلامیٔ رسولﷺ میں ہمیں سمجھ یہ آئی ہے کہ ہر گستاخ اور بدبخت ملعون کو جب موت آتی ہے تو عبرت آموز آتی ہے۔ اور رسول معظم و مکرمﷺ کی حرمت کا دفاع کرنے والے غلام کو جب موت آتی ہے تو قابلِ رشک موت آتی ہے‘ عظیم موت آتی ہے اور اعزازات سے معزز ہوکر آتی ہے۔
قارئین کرام! آپ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے حبیب اور خلیل کا بدلہ اپنے ہاتھ سے لیا۔ یہ درست ہے! مگر پندرہ سال بعد لیا۔ اس کا سبب اور وجہ تو ابھی باقی ہے۔ جی ہاں! ملاحظہ کیجئے جناب والا! یورپ کے انتہائی شمال میں چار ملک ایسے ہیں جو ''سکینڈے نیوین‘‘ ممالک کہلاتے ہیں۔ سویڈن ان میں سے ایک ہے۔ نیٹو کا ممبر ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو امریکا کا اتحادی بن کر افغانستان کی لڑائی میں شامل تھا۔ شکست کے آثار دیکھ کر جو ممالک چند سال پہلے یہاں سے اپنے فوجی لے کر نکل گئے‘ سویڈن ان میں شامل تھا۔ گستاخ لارس ولکس یہ سب کچھ دیکھتا رہا‘ حسد کی آگ میں جھلساؤ بڑھتا رہا۔ پھر 15 اگست 2021ء کو وہ لمحہ آیا جب امریکا سمیت تمام افواج یہاں سے نکل گئیں۔ اس منظر نے بدبخت لارس کی آگ کو اور تیز کیا۔ 3اکتوبر تک 50 دن ہوگئے۔ ان دِنوں میں حضرت محمد کریمﷺ کے غلاموں کا اقتدار دیکھ کرپگڑی اور داڑھی کو دیکھ کر اس کے دل کی آگ کے بھانبڑ کے بھڑکاؤ کا اب کوئی پیمانہ نہ رہا‘ ایسے میں اللہ تعالیٰ کا قوی ترین دستِ غیب حرکت میں آیا اور سڑک پر مچتا اور بھڑکتا بھانبڑ سارے جہان نے دیکھ لیا۔ یہ ہے سبب پندرہ سال کی مہلت کا۔
جہان بھر کے لوگو! ہمارے حضورﷺ تو سب کے حضور ہیں‘ بلند و بالا اور عالی مقام ہیں‘ سب اہلِ جہان کے لیے رحمت کا پیام ہیں۔ جب دس ہزار کا لشکر مدینہ منورہ کی ریاست کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا تو خندق کھود کر دفاع کرنے والے صرف ایک ہزار تھے۔ امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمہ اللہ ''صحیح مسلم‘‘ میں ایک حدیث شریف لائے ہیں۔ معروف محدث تابعی زید بن شریک بتاتے ہیں کہ ''میں صحابیٔ رسول حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص بولا: اگر میں حضورﷺکے زمانے میں ہوتا تو بھرپور جہاد کرتا۔ یہ سن کر حضرت حذیفہؓ نے کہا: تو بڑی باتیں کرتا ہے‘ اگر تو ہمیں حضورﷺکے ہمراہ خندق کی ٹھنڈی رات میں دیکھتا (تو ہوش ٹھکانے آجاتے) بہت تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی‘ حضورﷺنے تین مرتبہ فرمایا: کون ہے جو (محاصرہ کرنے والی اتحادی) قوم کی خبر لائے‘ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرے ساتھ کردے گا۔ کوئی نہ بولا تو حضورﷺ نے مجھے حکم دیا کہ حذیفہؓ اٹھو اور دشمن کے بارے میں خبر لاؤ۔ حضورﷺ نے نام لے دیا‘ اب مجھے جانا ہی تھا۔ حضورﷺنے نصیحت فرمائی۔ جاؤ اور حالات کی خبر لاؤ اور دیکھو!ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ وہ غضب میں تلملاتے ہوئے ہم پر چڑھائی کردیں۔ اب میں ادھر کو روانہ ہوا تو ایسے تھا جیسے گرم حمام میں چل رہاہوں‘ وہاں پہنچا تو دیکھا۔ ان کا (چیف کمانڈر) ابوسفیان آگ پر اپنی کمر سینک رہا تھا۔ میں نے تیر کو کمان پر چڑھا لیا کہ ابوسفیان میرے نشانے پر تھا‘ میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار گراؤں مگر حضورﷺ کا حکم یاد آگیا کہ کوئی ایسا کام نہ کرنا جس کی وجہ سے وہ غضب میں آجائیں (اور جاتے جاتے پھرپلٹ آئیں) اب میں واپس آیا تو پھر ایسے تھا جیسے حمام میں چل رہا ہوں۔ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ حالات سے آگاہ کیا (کہ وہ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں)۔ اب مجھے ٹھنڈ لگنے لگ گئی۔ حضور نے مجھے اپنے ایک کمبل میں لپیٹ دیا۔ (صحیح مسلم:4640) اس حدیث شریف کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب کوئی ناکام جا رہا ہو تو اسے غصہ نہیں دلانا چاہیے۔ جی ہاں! حضور رحمت عالمﷺ انسانیت کے لیے امن چاہتے ہیں۔ آج افغان طالبان نے بھی وہی کام کیا ہے کہ اتحادیوں کو امن کے ساتھ جانے دیا۔ اب مغرب کا غصہ پاکستان پر ہے۔ پاکستان کے اہلِ اقتدار‘ وزیراعظم عمران خان او رآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ انہیں ٹھنڈا کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم امن کے خواہاں ہیں۔ جی ہاں! موجود حالات میں وطن عزیز کو بہت زیادہ قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لیے رب کریم کا پیغام ہے کہ اس کے حبیب اور خلیلﷺ کی عزت و توقیر کا خیال کرنا ہوگا۔ پاکستان امن چاہتا ہے۔ افغانستان والے بھی امن کی بات کر رہے ہیں لہٰذا ! آؤ...امن کے ساتھ‘ انسانیت کی بھلائی کا کام کریں۔ ہمارے پاک حضورﷺ کی سیرت کا یہی پاک پیغام ہے۔ ہم اسی پیغام کے علمبردار ہیں۔ حرمتِ مصطفی زندہ باد!