اللہ تعالیٰ ہم اہلِ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے کہ ہم ایک عرصہ سے سیاسی عدم استحکام کے زلزلے اور اس کے آفٹر شاکس کے ایسے شکار بن چکے ہیں کہ ہماری معیشت بھی زبوں حالی اور ابتری کی داستان سنا رہی ہے۔ آئی ٹی کی سائنس میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ تعلیمی نظام کی فرسودگی سے ہماری جان نہیں چھوٹ رہی۔ ٹریفک حادثات کی کثرت ہو گئی ہے۔ سڑکوں کی بناوٹ میں کرپشن بھی اس کا باعث ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی عدم پابندی بھی اس کا سبب ہے۔ ہسپتالوں میں صحت کا نظام ابتری کا شکار ہے۔ ان عوامی مسائل پر گفتگو کا کلچر ہمارے ہاں اہمیت نہیں پاتا۔ بس چٹخارے دار سیاسی بیان بازیوں میں ہمیں مزہ ملتا ہے جبکہ ترقی یافتہ قوموں میں ایسی چیزوں کی اہمیت کچھ نہیں ہوتی۔ معاشرے کے مجموعی کلچر میں ان کا حصہ مشکل سے پانچ فیصد ہوگا جبکہ صحت مند علمی اور سائنسی بحث کا حصہ 95 فیصد ہوتا ہے۔ سائنسی بنیادوں پر ہی ترقی یافتہ معاشروں کی معیشت استوار ہوتی ہے اور انہی بنیادوں پر ان کے عوامی مسائل کے حل کا انحصار ہوتا ہے۔
قارئین کرام! دُکھ اور غم سے بھری اس تمہید کے بعد میں ایک ایسے زلزلے اور بھونچال کی بات کرنے جا رہا ہوں جس کا آغاز موجودہ سال کے آغاز سے ہوا۔ 23 فروری 2023ء کو اس زلزلے نے دنیا بھر کی سائنسی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یاد رہے! ذرات اورخلیات کو خوردبینوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس دیکھنے سے ہی ہماری اس زمین پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح آسمان کی بلندیوں اور رفعتوں میں جھانکنے کے لیے زمین پر بڑی بڑی دوربینیں نصب کی جاتی ہیں جن سے ہم آسمانی عجائبات کی سائنس کو دیکھتے ہیں۔ دوسری قسم کی دوربینیں وہ ہیں جو خلا میں بھیجی جاتی ہیں۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور یہ سب زمین کے مدار میں گھوم رہی ہیں۔ آئی ٹی یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیٹلائٹس بھی زمینی مدار میں ہی گردش کر رہے ہیں۔ ان کی معلومات سے ہماری آئی ٹی کی سائنس زمین پر انسانوں کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ میرے وطن عزیز اور اس کے لیڈروں کا اس میں کتنا حصہ ہے‘ کوئی سیاستدان اس پر بات کرتا دکھائی نہ دے گا۔ جی ہاں! سائنس کی دنیا میں ایک زلزلہ برپا ہو چکا مگر ان بیچاروں کو کیا پتا کہ یہ زلزلہ کس طرح کا زلزلہ ہے؟
قریب دو سال اور چند مہینے قبل امریکہ اور دنیا کے چند دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے مل کر ایک خلائی دوربین خلا میں بھیجی تھی۔ اس کا نام ''جیمز ویب‘‘ ہے۔ یہ واحد ٹیلی سکوپ( دوربین) ہے جسے سورج کے مدار میں بھیجا گیا۔ اسے ''ٹائم مشین‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ 14.7 ارب نوری سال پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ دیکھ کر بتائے گی کہ ہماری کائنات کیسے بنی اور کس طرح۔ یہ کن کن مرحلوں سے گزر کر وجود میں آئی۔ کیسے کیسے سائنسی قوانین کہاں کہاں اور کس کس طرح تخلیقِ کائنات میں اپنے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ سائنس دانوں کا نظریہ یہ تھا کہ بگ بینگ کے بعد ابتدائی ایٹمی لہریں اور ذرات وجود میں آئے اور پھر کھربوں سال بعد ستاروں اور گلیکسیوں کی نرسریاں وجود میں آئیں۔ ہماری گلیکسی مِلکی وے کا سورج قریب چھ ارب سال قبل وجود میں آیا جبکہ ہماری زمین تقریباً چار ارب سال قبل وجود میں آئی۔
''جیمز ویب‘‘ نے اب انکشاف کیا ہے کہ ابتدائی ایٹمی لہروں اور ذرات سے قبل ہی کائنات میں چھ گلیکسیاں دکھائی دی ہیں۔ یہ گلیکسیاں اتنی بڑی ہیں کہ ہماری کائنات کے ٹوٹل ماس (حجم) سے بھی بڑی ہیں۔ یہ وہ کائنات ہے جو ابتدا میں بن رہی تھی۔ یہ بات اس سائنس دان نے دنیا کو بتائی ہے جو جیمز ویب کے سائنسی منصوبے سے منسلک ہے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کا سائنسدان ہے۔ اس کا نام پروفیسر Ivo Labbe ہے۔ وہ کہتا ہے:
So you know that something is Afoot.
آپ کو جاننا چاہیے کہ کوئی نہ کوئی ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔
مزید کہا: ان چھ گلیکسیوں میں سے ہر ایک کا ماس 100ارب سورجوں جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ یعنی ان چھ گلیکسیوں کی ایک الگ کائنات ہے۔ یہ کہاں سے آ گئی؟
''سکائی نیوز‘‘ نے دنیا کے ایک بڑے سائنسی میگزین ''نیچر‘‘ کے حوالے سے لکھا:
Six ancient "Universe Breaker" galaxies discovered.
یعنی یہ چھ ایسی قدیمی گلیکسیاں دریافت ہوئی ہیں جنہیں ''کائنات کو توڑنے‘‘ والی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی ان کے انکشافات ایسے ہیں کہ انہوں نے موجودہ کائنات کے بارے میں ہمارے نظریات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سائنس دانوں نے ان چھ گلیکسیوں کو Universe Breakers کا نام دیا ہے۔
''سائنس الرٹ‘‘ نے 22 فروری 2023ء کو لکھا:
Astronomers detect Six massive Galaxies so old, they cannot be explained by Science.
خلا نوردوں نے چھ بہت بڑی گلیکسیوں کا‘ جو بے حد پرانی ہیں‘ پتا لگایا ہے جنہیں سائنس (کے نظریات) سے واضح نہیں کیا جا سکتا۔ مزید لکھا: سائنسی نظریات کے مطابق ابتدائی ایٹمی ذرات وجود میں آئے تو اس کے 150 ملین سالوں کے بعد ابتدائی ستاروں اور گلیکسیوں کے وجود کا آغاز ہونا شروع ہوا مگر اب معلوم ہو رہا ہے کہ ہم سائنسدانوں سے کوئی غلطی ہو رہی ہے۔
معروف ہفت روزہ ''گارڈین‘‘ میں Joel Leja جیسے سائنس ریسرچر‘ جو امریکی ریاست پینسلوینیا کی Penn State University سے وابستہ ہیں اور ''جیمز ویب‘‘ کی سٹڈی میں شامل ہیں‘ کہتے ہیں ''ہماری کائنات (اس وقت) آج کی نسبت اتنی چھوٹی تھی کہ محض 3 فیصد تھی‘ یہ تو تب Tiny اور Baby تھی۔ ایسے میں ان چھ گلیکسیوں کا وجود‘ جو بہت بڑی ہیں‘ سمجھ سے باہر ہے۔
ہفت روزہ ''ٹائم‘‘ نے ''یونیورسٹی آف کولوراڈو‘‘ کی سائنس دان ڈاکٹر اریکا نیلسن (Erica Nelson) کا حیرت میں ڈوبا بیان شائع کیا ''یہ چھ گلیکسیاں اور ستارے تو انتہائی پرانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ:
You just don't expect the early universe to be able to organise itself that quickly. These galaxies should not have had time to form.
آپ کائنات سے اتنی جلدی اپنا آپ منظم کرنے کی توقع نہیں کرتے۔ ان گلیکسیوں کے پاس اپنی تشکیل کے لیے اتنا وقت نہیں ہو گا۔ یعنی ان گلیکسیوں کو اس ٹائم پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مزید لکھا:
Each may have existed at the dawn of the universe more than 13 billion years ago, about 500 to 700 million years after the Big Bang.
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی گلیکسیاں کائنات کی صبح (ابتدا) میں ہی‘ 13 ارب سال سے بھی قبل وجود میں آ گئیں۔ بگ بینگ کے بعد 500 سے 700 ملین سال کے عرصے میں۔
جیفری کلگر نے بھی ٹائم کے حوالے سے ایسی ہی بات رپورٹ کی اور لکھا کہ سائنس کے قانون یہاں ختم ہو گئے ہیں۔ پروفیسر لابے (Labbe) 22 فروری 2023ء کے نیچر میگزین میں یہ کہتے ہوئے حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ ''ہماری گلیکسی کے 60ارب سورجوں کا ماس (حجم) 13ارب سالوں کی گروتھ کے بعد جتنا اب ہے‘ ان چھ میں سے ہر ایک گلیکسی کا اُس وقت ہی اتنا تھا۔ یہ کیسے ہوگیا‘ سمجھ سے باہر ہے۔
مِشیو کاکو (Michio Kaku) ایسے امریکی سائنسدان ہیں جو جاپان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے آبائو اجداد جاپان سے امریکہ آ کر آباد ہوئے تھے۔ وہ اب ایک ممتاز امریکی سائنسدان ہیں۔بعض لوگ انہیں آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ سے بھی بڑا سائنسدان مانتے ہیں۔ وہ 23 اپریل 2023ء کو اپنے خطاب میں فرماتے ہیں: چھ عدد قدیمی گلیکسیوں کا انکشاف: Proves God۔ (خدا تعالیٰ کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے)۔ جناب مشیو کاکو نے مزید فرمایا:
God created the world with voice.
خدا نے دنیا کو آواز سے (کُن کہہ کر) پیدا کیا۔
سبحان اللہ! حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید نے آٹھ بار انسانیت کو آگاہ فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی شے کو وجود دینے کا (کسی کام کے کرنے کا) ارادہ فرماتے ہیں تو ''کُنْ‘‘ کہتے ہیں اور وہ شے (مخلوق) وجود میں آ جاتی ہے، وہ کام ہو جاتا ہے۔ جی ہاں! الحادی سائنس کی دنیا میں زلزلہ بپا ہے کہ کہیں آئندہ کی دریافتوں کی بنیاد پر یہ تسلیم نہ کرنا پڑ جائے کہ کائنات کی تخلیق ایک خالق کے ''کُنْ‘‘ کہنے سے ہوئی۔ مگر یاد رکھو! آج نہیں تو کل‘ حق کو ماننا ہی پڑے گا۔