اللہ حلیم و کریم کے راستے میں قربانی کے دن قریب آ گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی یادوں کو یاد کرنے کے دن نزدیک آ گئے ہیں۔ حوصلے اور حلم کے اسباق دل و دماغ میں نقش کرنے کے ایام گیارہ مہینوں کا طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ حلم و حوصلے کے دنوں میں داخل ہوکر بھی جس کے دل و دماغ میں حلم و حوصلہ پیدا نہ ہوا وہ قربانی کے گوشت سے پیٹ تو بھر لے گا۔ ہاں! اسی طرح بھر لے گا جس طرح حیوان پیٹ بھرتے ہیں‘ درندے بھی گوشت سے پیٹ بھرتے ہیں مگر یہ انسانیت سے تہی دامن رہے گا‘ حلم و حوصلے کے زیور سے محروم رہے گا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی حلیمانہ سیرت سے دور رہے گا۔ کوئی عورت ایسی ہے تو وہ حضرت ہاجرہؑ کے صبر اور حوصلے سے دور رہے گی۔ سب ان اعلیٰ انسانی صفات سے دور رہیں گے۔ یہ محض گوشت کے قریب رہیں گے۔ عزیمت اور انسانی رفعت سے دور رہیں گے۔ اتنا دور رہیں گے جس طرح مشرق اور مغرب باہم دور رہتے ہیں۔
تمام اہلِ جہان کے لیے سراسر رحمت بن کر آنے والے حضور نبی کریمﷺ پر جو آخری کلام نازل ہوا ہے‘ اس نے اللہ شہنشاہ کو چار بار ''غفورٌ حلیم‘‘ کہا ہے؛ یعنی وہ اپنے بندوں کی غلطیوں کو معاف بھی کرتا ہے اور وہ حوصلے والا بھی ہے۔ دو بار قرآنِ مجید نے اللہ تعالیٰ کو ''علیمٌ حلیم‘‘ کہا ہے یعنی وہ سب کچھ جانتا ہے‘ اس کے باوجود اپنی مخلوقات کے لیے حلم و حوصلے والا ہے۔ فرقانِ حمید نے اللہ ذوالجلال کو ایک بار ''شکورٌ حلیم‘‘ کہا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے وہ بندے اور بندیاں جو حلم و حوصلے کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کے مذکورہ کردار کی قدر دانی بھی فرمائیں گے اور ان کے لیے حلم حوصلے سے بھی کام لیں گے۔ ایک بار قرآنِ کریم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ''غنیٌ حلیم‘‘ کی صفات استعمال کی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے بے پروا اور بے نیاز ہونے کے باوجود ان کے لیے حلم و حوصلے کا معاملہ فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اعلان فرمایا ''بلاشبہ ابراہیم یقینا انتہائی نرم دل اور حلم و حوصلے والے تھے‘‘ (التوبۃ:114) اب نرم دل اور حوصلہ مند باپ کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا تو اسے بھی حلم و حوصلہ عطا فرمایا۔ ارشادِ گرامی ہے ''ہم نے اسے (ابراہیم) کو حلم و حوصلے والا بیٹا (اسماعیل) دینے کی خوشخبری سے نوازا‘‘ (الصافات:101)دونوں باپ بیٹا ایسے حلیم تھے کہ ایک ذبح کرنے کے لیے چھری چلا رہا تھا تو دوسرا ذبح ہونے کے لیے زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اعزاز یہ دیا کہ آخری الہامی کتاب میں دونوں باپ بیٹا کو ''حلیم‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں آخری رسول کو مبعوث فرمایا تو انہیں ''رحمۃ للعالمین‘‘ بنا دیا۔ سبحان اللہ! دونوں باپ بیٹے کے حلم کا کس قدر عظیم اجر ہے کہ دونوں کے جو فرزند ارجمند ہیں وہ حضرت محمد کریمﷺ ہیں جو تمام جہانوں کے لیے مجسم رحمت ہی رحمت ہیں۔
لوگو! مجھے تو کچھ یوں سمجھ آئی ہے کہ جہاں حلم و حوصلے کی سرحد کا اختتام ہوتا ہے وہاں سے محمدی رحمت کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک دوسرے انداز سے قلم کو جنبش دوں تو اس طرح لکھوں کہ... انسانی تاریخ کے آخری زمانے میں تمام رسولوں اور نبیوں کے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں تو نبیوں اور رسولوں کی تاریخ کے آخری رسول حضور کریمﷺ ایسے انمول رسول ہیں کہ جہاں نفرت اور تشدد کا کانٹے دار بچھونا گول کر دیا گیا ہے اور ریشم سے بڑھ کر ایسا نرم بستر بچھا دیا گیا ہے جس میں رحمت ہی رحمت ہے، کستوری ہی نہیں ہر سو عُود ہی عُود ہے۔
مدینہ منورہ کے جو پکے منافق تھے‘ ان کے سینوں میں نفرت، حسد اور جلن اس قدر زیادہ تھی کہ اگر وہ اسے پوری طرح اپنی زبان پر لاتے تو حضور کریمﷺ کے اصحاب کرام کے بارے میں نہ جانے ان کی زبانیں کتنے زیادہ شعلے بھڑکاتیں مگر مدینہ منورہ میں حضور کریمﷺ کی رحمت کے جو ٹھنڈے میٹھے اور خوشبودار جھونکے تھے‘ ان میں بس وہ اتنا ہی کہہ سکے ''اور جب ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ اس طرح ایمان لاؤ جس طرح دیگر لوگ (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں: کیا ہم ایسے ایمان لائیں جیسے حلم سے عاری (نادان لوگ) ایمان لائے ہیں۔ خبردار! یہی وہ لوگ ہیں جو حلم سے عاری (جذباتی نادان) ہیں۔ مگر یہ (حقائق سے) بے خبر لوگ ہیں‘‘۔ (البقرہ:13)
مذکورہ آیت مبارک میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ''السفھآء‘‘ ہے، اس کا مصدر یا روٹ ''سفہ‘‘ ہے۔ ترجمہ کرنے والوں نے اس کا ترجمہ ''بے وقوف‘‘ بھی کیا ہے۔ یہ بھی درست ہے مگر عربی زبان میں اس کے دیگر اور ترجمے بھی ہیں۔ اس کا ایک ترجمہ نادان بھی ہے۔ امام جمال الدین المعروف ابن منظور رحمہ اللہ نے اسے ''نقیض الحلم‘‘ کہا ہے‘ اسی لیے راقم و عاجز نے اس کا ترجمہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ''حلم سے عاری‘‘ کیا ہے یعنی ایسے لوگ جو حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت سے اس لیے محروم ہوتے ہیں کہ جذباتی ہوتے ہیں‘ شعلہ بار طبیعت کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا نادانی میں ایسے شعلہ بار جملے کستے ہیں کہ اللہ کی پناہ! یہ سب کچھ حلم کی ضد ہے۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے حلم اور دانش کا دفاع کیا اور منافقوں کی گفتگو اور رویے کو حلم سے تہی دامن اور نادانی پر مبنی قرار دیا۔
ہمارے وطن عزیز میں وہ وقت بھی آیا جب غلط رویوں کو تبدیل کر کے ریاست مدینہ کے اعلیٰ اخلاقی رویوں کو لانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان خوش آئند تھا مگر غلط رویے جو چلے آ رہے تھے وہ اور بھی غلط ہو گئے بلکہ نئی طرح کے غلط طریقے بھی رواج پا گئے تو دل بہت دکھی ہو گئے جب پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران، سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم کو ہتھکڑیاں لگا کر پس دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سر سید سکول راولپنڈی کے استاذِ محترم عرفان صدیقی صاحب‘ جو ملک کے نامور صحافی اور ادیب ہیں، دانشور ہیں اور وفاقی مشیر بھی رہ چکے ہیں، میرے دوست اور بزرگ بھی ہیں‘ ان کو ہتھکڑی لگا کر پس دیوارِ زنداں کر دیا گیا۔ میں خود ہائی سکول میں چھ سال تک استاد رہا ہوں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے علم کو ہتھکڑیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ میں منبر و محراب کو بعض ایسے علماء کے قبضے میں دیکھتا ہوں جو مخالف علماء کے لیے ایسی ایسی گالیاں سناتے ہیں تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ کیا یہ ہمارے راہ نمایانِ قوم ہیں؟ سوشل میڈیا دیکھتا ہوں تو وہاں بھی اس طرح کی سرخیاں ملتی ہیں ''فلاں نے فلاں کی تاریخی چھترول کر دی‘‘۔ یہ ''چھترول‘‘ کا لفظ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ نستعلیقی تہذیب کو اس سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔ اس گھٹیا اور توہین آمیز لفظ کے ساتھ سستی شہرت حاصل کی جا تی اور جھوٹی وڈیوز بنا کر پیسہ کمایا جاتا ہے۔
الغرض! اس بدتمیزی اور بیہودگی سے رسول اللہﷺ کا حرم‘ آپﷺ کی مسجد بھی محفوظ نہ رہی۔ یہ تمغہ ہم اہلِ پا کستان ہی کے نام ہے (یا اللہ! ہمیں معاف فرما دے) مخالفوں کے گھروں کے سامنے بیہودگی کا کلچر، گلیوں بازاروں میں شرفا پر آوازے کسنے کا کلچر! ہمارے معاشرے میں مرد کے ساتھ اس کی بیوی، بیٹی، ماں یا بہن ہوتی تھی تو جھگڑا کرنے والا درگزر سے کام لیتا تھا۔ مگر اب یہ درگزر کی خاصیت بھی رخصت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس کی جگہ پر غضب آلود بیہودگی راج جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
قارئین کرام آئیے! جانوروں کی قربانی سے پہلے اپنی جھوٹی انانیت کو قربان کریں۔ اپنے غلط رویوں کی گردن پر اعلیٰ اخلاق کی چھری چلائیں۔ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ مخالف کے نقطۂ نظر کا احترام کریں۔ اختلاف کریں‘ ضرور کریں مگر دلیل اور تہذیب کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ گالم گلوچ اور بدتمیزی پر مبنی رویے کے سیلاب کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کے ایک فرمان کو حرزِ جان بناتے ہوئے بند باندھیں۔ فرمایا: ''جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے بتایا: یہ وہ لوگ ہیں جو (غیبت اور بہتان طرازی کر کے) لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے‘‘۔ (ابو داؤد:4878، اسنادہٗ صحیح)