اللہ رحمن نے ماں کے سینے میں اولاد کی محبتوں کو اس طرح بھرا ہے کہ ماں کی مامتا ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ قمری حساب کے مطابق آج سے 80 سال قبل ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ساجد رکھا گیا۔ یہ بچہ جب اڑھائی ماہ کا تھا تو بچے کی والدہ ساجد کے جسم پر مکھن کی مالش کر رہی تھی۔ پڑوسن بولی: لگتا ہے ساجد کو پہلوان بنانا چاہتی ہو؟ ''پہلوان نہیں حافظ قرآن بنانا چاہتی ہوں‘‘۔ ماں کے یہ الفاظ ساجد کی بڑی بہن سن رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ کچھ ہی دنوں بعد ساجد کی ماں اپنے اللہ کے پاس چلی گئی۔ ساجد نے بچپن کے بعد لڑکپن میں قدم رکھا‘ ہوش سنبھالا تو بڑی بہن نے ماں کا جملہ ''ساجد کو پہلوان نہیں حافظ قرآن بنانا چاہتی ہوں‘‘ ساجد کے کان میں ڈال دیا۔ یہ جملہ ساجد کے دل ودماغ میں نقش ہو کر رہ گیا۔ ساجد نے اپنے ہوش میں ماں کو نہ دیکھا تھا مگر ماں کی اس خواہش نے اس کے دل میں ایک بے قراری جگا دی۔ وہ سکول کے دوران ہی قرآن کو اپنے دل ودماغ میں محفوظ کرنے لگ گیا۔ کالج کی زندگی میں بھی یہ عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ ساجد نے ماں کی محبت میں سارا قرآن اپنے سینے کے اندر محفوظ کر لیا۔ نوجوان ساجد‘ جو اَب حافظ بن چکا تھا‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ بھی سیالکوٹ سے آئے تھے تو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے۔ حافظ ساجد بھی سیالکوٹ سے آئے تھے اور لاہور میں گورنمنٹ کالج کے طالبعلم بن گئے۔ حافظ ساجد نے اب سید دائود غزنوی کے مدرسہ تقویۃ الاسلام میں پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر گورنمنٹ کالج لاہور سے حافظ ساجد نے لٹریچر میں ایم اے انگلش کر لیا۔ واپس سیالکوٹ گئے تو اپنے جد امجد مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ کے مدرسے میں پڑھنے لگ گئے۔ یہاں سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی۔ چونکہ کشمیری بٹ اپنے نام کے ساتھ 'میر‘ لکھتے ہیں لہٰذا حافظ ساجد اب مولانا ابراہیم میر کی نسبت سے ''مولانا حافظ ساجد میر‘‘ بن چکے تھے۔ پھر کالج میں لیکچررشپ سے آگے بڑھتے بڑھتے نائیجیریا کی یونیورسٹی میں پروفیسر بن گئے۔ جی ہاں! اب وہ حافظ پروفیسر مولانا ساجد میر بن چکے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مولانا معین الدین لکھوی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر تھے جبکہ میاں فضل حق مرحوم ناظم اعلیٰ تھے۔ دونوں اس دور کی مسلم لیگ کے اتحادی اور ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے ممبر بھی تھے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم آغاز میں ان دونوں کیساتھ تھے مگر پھر اختلافات ہوئے تو اپنی الگ جماعت‘ جمعیت اہلحدیث بنا لی۔ پروفیسر حافظ ساجد میر علامہ مرحوم کے اہم ساتھی تھے۔ پھر جب حضرت علامہؒ شہید ہو گئے تو دونوں جماعتیں باہم مل کر ایک ہو گئیں۔ میاں فضل حقؒ بھی فوت ہو چکے تھے چنانچہ پروفیسر حافظ ساجد میر نے اپنی صلح کن طبیعت کے مطابق تاریخی نام مرکزی جمعیت اہلحدیث کو برقرار رکھنے پر اتفاق کر لیا۔ جب معین الدین لکھوی امیر تھے تو پروفیسر ساجد میر کو ناظم منتخب کر لیا گیا۔ مولانا معین الدین لکھوی اور پروفیسر ساجد میر‘ دونوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کیا اور اختلاف کو اتحاد میں بدل دیا۔ مولانا معین الدین لکھوی‘ جو تب ایم این اے تھے‘ نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے کہا کہ پروفیسر ساجد میر کو سینیٹر بنا دیں۔ تب سے لے کر اپنی وفات تک پروفیسر صاحب متواتر سینیٹر بنتے رہے اور محترم لکھوی صاحب کی وفات کے بعد جماعت کے امیر بھی منتخب ہوتے رہے۔یوں وہ تقریباً 30 سال متواتر امیر جماعت اور سینیٹر رہے۔
حضرت حافظ الشیخ پروفیسر ساجد میرؒ نے اپنی امارت میں جماعت کو بین الاقوامی بنا دیا۔ بھارت کی مرکزی جمعیت اہلحدیث بھی ان کو اپنا قائد سمجھتی تھی۔ بنگلہ دیش اور برطانیہ کے امرا نے اپنے ملکوں میں پروفیسر صاحب کی تشریف آوری پر کہا: آپ ہمارے بھی امیر ہیں۔ سعودی عرب‘ گلف‘ امریکہ اور بہت سے ملکوں میں مرکزی جمعیت اہلحدیث موجود ہے۔ ناظم اعلیٰ سینیٹر حافظ عبدالکریم سے تعزیت کو پہنچا تو انہوں نے بتایا: یونان میں جماعت کی دعوت پر گئے‘ ہوٹل میں قیام تھا۔ پروفیسر صاحب نے واش روم میں آدھ گھنٹہ لگا دیا۔ ہمیں تشویش ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد باہر نکلے تو بنیان اور دھوتی پہنے ہوئے تھے‘ ہاتھوں میں دھویا ہوا سوٹ تھا۔ کہنے لگے: اسے دھوپ میں ڈال دو۔ یہ تھی ان کی سادگی اور کفایت شعاری۔ میں نے حافظ عبدالکریم سے استفسار کیا کہ میری معلومات کے مطابق حرمین کے ائمہ سمیت سعودی عرب کے ممتاز علماء حتیٰ کہ شاہی خاندان کے زعما اور امرا مفتی اعظم شیخ ابن بازؒ اور شیخ ابن عثیمینؒ کو تکریماً اپنا روحانی باپ کہتے تھے۔ غیر عرب دنیا میں وہ صرف پروفیسر ساجد میرؒ کو اپنا روحانی باپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ حافظ عبدالکریم صاحب نے میری بات کی تصدیق کی اور مزید بتایا کہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسیٰ نے میری موجودگی میں پروفیسر صاحب کو ''والدی الکریم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا: آپ شیخ الاسلام ہیں۔ یعنی جن کا مقام عالم اسلام میں امامت وقیادت کا ہے۔ پروفیسر صاحب نے عاجزی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر عبدالکریم العیسیٰ نے وہاں موجود عالمی مندوبین کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر پروفیسر ساجد میر شیخ الاسلام نہیں تو پھر اور کون ہے؟
چند ماہ پہلے کی بات ہے‘ عصر کی نماز پڑھنے کے لیے میں مرکز اہلحدیث راوی روڈ میں داخل ہوا۔ مولانا بابر رحیمی‘ معتصم الٰہی ظہیر اور جناب یوسف سراج مل گئے۔ انہوں نے پیغام ٹی وی کے دفاتر دکھلائے۔ ایک سو سے زائد افراد کا عملہ‘ ریسرچ کی مختلف ٹیمیں الگ الگ دفاتر میں اپنے کاموں میں مصروف‘ دنیا کی مختلف زبانوں میں پیغام چینل کے ذریعے دعوت‘ بے شمار لوگوں کا قبولِ اسلام۔ اللہ اللہ! یہ پروفیسر صاحب کا وہ صدقہ جاریہ ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اسی لیے مولانا علی محمد ابوتراب نے کہا: محترم میر صاحب کی وفات اہلِ خانہ‘ جماعت اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور سیاسی نظام کے استحکام کیلئے ہی دھچکا نہیں بلکہ عالم اسلام کا نقصان ہے‘ علمی دنیا کا فقدان ہے۔ مولانا عتیق اللہ جیسے عالم باعمل ایسے ہی نہیں بے قرار ہو کر بولے ''ایسا ہیرا کہاں سے لائیں؟‘‘۔ صحافتی دنیا سے محترم یحییٰ صاحب کہہ رہے تھے: میں نے موجودہ دور کے ممتاز علماء کے ساتھ بہت سفر کیے مگر مولانا معین الدین لکھویؒ‘ حافظ یحییٰ عزیز میر محمدیؒ اور پروفیسر ساجد میرؒ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا نہیں دیکھا۔ لوگو! حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں مذہبی برداشت اور سیاسی استحکام کیلئے جن شخصیات نے باہم مل کر تاریخ ساز کردار ادا کیا ان میں سے مولانا شاہ احمد نورانی‘ قاضی حسین احمد‘ مولانا سمیع الحق اور اب پروفیسر ساجد میر اپنے اللہ کے پاس جا چکے ہیں۔ اس قافلے کے تین ہی افراد اب حیات ہیں: مولانا فضل الرحمن‘ پروفیسر حافظ محمد سعید اور مولانا ساجد نقوی صاحب۔ کیا عظیم قد کاٹھ کا یہ قافلہ تھا۔ الحمدللہ! اس قافلے کے تمام سالاروں سے میری ملاقاتیں تھیں‘ مجلسیں تھیں‘ سٹیج پر تقریریں بھی ان کے ساتھ کرنے کا موقع ملا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث سمیت تمام جماعتوں کو خوب سے خوب تر نعم البدل عطا فرمائے۔
پروفیسر صاحب کہا کرتے تھے کہ میں جنت میں جائوں گا تو ماں سے ملاقات ہو گی۔ جی ہاں! وہ اپنے اللہ کے پاس گئے تو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے گئے۔ انکی وفات سے قبل حافظ ندیم احمد نے خواب دیکھا کہ پروفیسر صاحب احرام باندھے‘ لبیک اللھم لبیک کہتے اکیلے جا رہے ہیں۔ تعبیر یہ تھی کہ وہ فوت ہوں گے تو غلطیوں سے پاک صاف ہو کر فقیرانہ لباس پہن کر اللہ کی طرف جائیں گے۔ اے اللہ! میں حاضر ہوں‘ حاضر ہوں کہتے ہوئے رب کریم سے ملاقات کریں گے‘ ان شاء اللہ۔ ماں بیٹا ملے ہوں گے تو ماں نے اپنے حافظ بیٹے کو گلے سے لگایا ہو گا‘ اسکا ماتھا چوما ہو گا اور کہا ہوگا: میرا حافظ آ گیا‘ ساجد (سجدے کرنے والا) آ گیا‘ ست بسم اللہ‘ صدقے جاواں!۔