ہمیشہ خودکو لعنت ملامت کیوں؟

گزشتہ شب دفتر سے نکل کر باہر آیا توکئی ٹولیوں کو گرما گرم بحث کرتے دیکھا۔ ایک صاحب بڑے جوش وخروش سے کہہ رہے تھے کہ یہ سب ہیں ہی ایسے، جوا کھیلا ہے انہوں نے، مجھے پہلے ہی پتہ تھا... اس سے ملتے جلتے جملے ان کے منہ سے نکل رہے تھے، درمیان میں ناقابل اشاعت گالیاں بھی۔کئی گردنیں ان جملوں کی تائید میں ہل رہی تھیں،ایک آدھ نے کمزور سی مدافعت کی کہ پاکستانی ٹیم کھیلی تو برا نہیں، بائولنگ کلک نہیں کر سکی...اس غریب کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح دب گئی یا دبا دی گئی۔تھوڑا آگے بڑھا تو کم وبیش اسی طرح کے مکالمے سنے، ہر کوئی پاکستانی ٹیم کومیچ ہارنے پر نہ صرف لعن طعن کر رہا تھا ،بلکہ ساتھ ہی یہ فتویٰ بھی جاری کر رہا تھا کہ یہ سب ہیں ہی جواری اور غلط، ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پارکنگ میں پہنچا تو وہاں سے موٹر سائیکل نکالتے ایک نوجوان نے اپنے ساتھ والے سے چلاّ کر کہا، میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ انہوں نے فائنل ہارنا ہے، یہ طے ہوچکا ہے۔ دوسرے نے تائید کرتے ہوئے کہا، واقعی یار تم ٹھیک کہتے تھے، ہم خواہ مخواہ ہی ان سے امیدیں لگاتے ہیں۔ حیرت کے عالم میں یہ سب میں دیکھتا رہا۔ یہی لوگ تھے،جنہوں نے بھارت کے ساتھ میچ کے بعد خوشیاں منائیں اور جشن میں حصہ لیا، ان ناراض نوجوانوں میں سے بعض کو میں نے اس رات بھنگڑے ڈالتے بھی دیکھاتھا۔ آج ایک شکست نے انہیں سب کچھ بھول کر ٹیم پر الزامات لگانے پر مجبور کر دیا۔ 
ہمارے ہاں ویسے بھی سازشی نظریات گھڑنے والوں کی کمی نہیں۔اس حوالے سے ہم خودکفیل ہیں۔ میدان کوئی بھی ہو، سازشی تھیوری موجود ہوتی ہے۔ یار لوگوںنے تو پاکستانی فوج تک کو نہیں بخشا، اس پر بھی دھڑلے سے الزام دھر دیتے ہیں۔ خود میڈیا میں کئی سینئر صاحبان ایسی غیرمحتاط گفتگوکرتے اور گاہے لکھ بھی دیتے ہیں کہ آدمی کو حیرت ہوتی ہے۔ کرکٹ ٹیم توخیر گھڑے کی مچھلی ہے، اس پر جو مرضی کہہ دو ،کون سا کسی نے اعتراض کرنا ہے یا پھر کسی کھلاڑی نے ہتک عزت کا مقدمہ کر دینا ہے۔کوئی سرپھرا کر بھی دے تو کون سا فیصلہ ہوجائے گا۔ مغربی دنیا میں کسی کھلاڑی یا اداکار وغیرہ پر میچ فکسنگ کا الزام تو دور کی بات ہے، کوئی چھوٹا موٹا الزام لگا دے تو لاکھوں ڈالر کا ہرجانہ بھرناپڑ جاتا ہے۔ مارلن برانڈوہالی وڈ کے نامور اداکارتھے،گاڈ فادر ان کی مشہور فلم ہے، جس پر انہیں آسکر ایوارڈ بھی ملا۔ ایک بار مشہور امریکہ میگزین لائف نے مارلن برانڈو پر کوئی الزام لگایا، جواباً انہوں نے ہرجانے کا دعویٰ کر دیا،عدالت نے فیصلہ حق میں کر دیا، لائف میگزین کو اتنا بڑا ہرجانہ بھرنا پڑا کہ اس کا دیوالیہ نکل گیا، اسے بند کرناپڑ گیا۔ یہاں پر کرکٹرز کو سال میں اوسطاً دس بارہ مرتبہ تو میچ فکسنگ کے الزامات سننے پڑتے ہیں، بعض سابق کرکٹرز ایسے ہیں جو بڑے آرام سے ہر قسم کے سنگین الزامات لگا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کون سا ثابت کرنا پڑے گا۔الٹا ان کی شہرت ایک بے باک اور منہ پھٹ تبصرہ نگار کے طور پر مستحکم ہوجاتی ہے، ٹی وی چینلزکوشش کر کے انہیں بلاتے ہیں تاکہ سکرین پر رونق بڑھ سکے۔
ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا ہے،جو ہر اہم ٹورنامنٹ میں منحوس پیش گوئیوں کا ایک بلیٹن جاری کردیتا ہے ،اگر اتفاق سے ان کی بات درست نکلے تو وہ بڑے تفاخر سے کریڈٹ لیں گے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ اکثر یہ لوگ کسی نہ کسی میچ فکسنگ کرنیوالے بکی کا حوالہ دیتے ہیں کہ ہمیں یہ خبر اس نے دی۔ میں نے پچھلے دو تین برسوں کے اندر ایسے بکیوںکی متعدد پیش گوئیاں غلط ہوتی دیکھی ہیں،مگر ان کا یہ وتیرہ ہے کہ دس میں سے نو باتیں غلط نکلیں توجھوٹ ثابت ہونے والی باتوں کو چھوڑ کر صرف اسی ایک کی بات کرنی ہے،جو اتفاق سے درست ہوگئی۔مجھے یاد ہے کہ جب مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بھارت ون ڈے سیریز کھیلنے گئی، پاکستان پہلا ون ڈے جیت گیا، اگلے میچ سے پہلے ہر بکی یہ کہہ رہا تھا کہ یہ میچ پاکستان ہار جائے گاتاکہ تیسرا میچ سنسنی خیز بن جائے اور زیادہ جوا کھیلا جا سکے۔ یہ سب بکی غلط ثابت ہوئے اور پاکستان نے دوسرا ون ڈے جیت کر سیریز ہی جیت لی، تیسرا میچ تب بے کار ہوگیا۔ اسی طرح چند ماہ پہلے پاکستان جنوبی افریقہ ون ڈے سیریز کھیلنے گیا، وہاں تیسرا ون ڈے فیصلہ کن تھا، میچ سے پہلے رپورٹیں آنے لگیں کہ پاکستان یہ میچ ہار جائے گا، یہ بات کہنے والے وزن پیدا کرنے کے لئے کہتے کہ بھارت اور دوبئی کے میچ فکسنگ نیٹ ورک سے یہ خبر آئی ہے۔ اگلے روز پاکستان نے میچ جیت کر تاریخ میں پہلی دفعہ جنوبی افریقہ کو اپنے ملک میں ون ڈے سیریز ہرانے کا اعزاز حاصل کر لیا، یوں بری خبریں سنانے والوں کے چہروں پر خاک پڑگئی۔ایسی خبریں اور ایشو فیس بک پر کچھ زیادہ اچھالے جاتے ہیں کہ وہاں پر کوئی الزام لگانا زیادہ آسان ہے، کسی نے ثبوت بھی نہیں مانگنا اور فورا شیئر یا لائیک کر دینا ہے۔
صرف کرکٹ ہی نہیں ،ہمارے ہاں اس رویے کی جھلک اکثر جگہوں پر نظر آتی ہے۔ رواج بن گیا ہے کہ اپنے آپ کو لعن طعن کیا جائے۔ اپنے کھلاڑیوں پرالزامات لگائے جائیں،ہر شعبے کو ردی ثابت کیا جائے اور پوری قوم میں کیڑے نکالے جائیں۔ کرکٹ میں تو ایک جھلک ہی آئی ہے،مگر ہمارا قومی رویہ یہی ہے کہ کہیں سے کوئی بری خبر آئی تو اس کو جواز بنا کر پوری قوم پر کالک پھیر دی جائے۔ اس طرح کے مکالمے عام سننے میں ملتے ہیں،''جی یہ قوم ہی ایسی ہے، ہر بندہ کرپٹ ہے، ہم سب غلط ہیں...وغیرہ وغیرہ‘‘۔ ایک بار ایسے ہی ایک صاحب سے بات ہورہی تھی۔ دو چار خرابیاں گنوانے کے بعد وہ بڑے طنطنے سے بولے،'' ہم سب بے غیرت ہوچکے ہیں، پوری قوم ہی ایسی ہے۔‘‘میرا سر گھوم گیا، بے اختیار میں نے کہا، ''جناب‘ آپ اگر اپنے بارے میں اعتراف کرنا چاہتے ہیں، سچ بیانی سے کام لینا چاہ رہے ہیں تو ٹھیک ہے، مگربراہ کرم ہمیں ساتھ شامل نہ کیجئے، 
اللہ کے شکر سے میں تو بے غیرت نہیں، نہ ہی میں پاکستانی قوم کے بارے میں ایسا کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘
مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اگر ملک کے کسی کونے میںکوئی افسوسناک واقعہ ہوجائے تو اس میں میرا یا پوری قوم کا کیا قصور ہے ؟ہمیں کیوں گالیاں پڑیں ؟ اگر کہیں کوئی جنسی جنونی یا نفسیاتی مریض کسی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کر دے،کسی پاگل کے بے رحم ہاتھوں سے کوئی ننھی تتلی مسلی جائے ... المیے کی شدت کے باوجود اس پر پوری قوم کو مطعون کرنا ضروری نہیں۔ مسئلے کی شدت اس کے بغیر بھی ظاہر کی جا سکتی ہے۔ابھی چند روز پہلے جوہر ٹائون لاہور میں ایک خاتون نے اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا، وجہ یہ بتائی کہ انہیں بھوکا نہیں مارسکتی تھی۔ اس خبر پر تو گویا طوفان امنڈ آیا۔ فیس بک پر دھڑا دھڑ سٹیٹس پوسٹ ہونے لگے کہ ہمیں تو زندہ رہنے کا حق نہیں، قوم کہلانے کا کوئی جواز نہیں...وغیرہ وغیرہ۔ میں حیران تھا کہ جوہر ٹائون جیسے پوش علاقے میں کون سی غریب خاتون رہتی ہے، پھر اس شہر میں جہاں کام کرنے والی عورتوں کی شدید قلت ہے، منتیں کر کے انہیں روکنا پڑتا ہے۔ ایمانداری سے کام کرنے والی کوئی بھی عورت سرکار کی طرف سے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ یعنی دس ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ کمالیتی ہے۔ ایسے میں کس طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی جوان عورت اپنے بچوں کو قتل کر دے کہ وہ بھوکے ہیں۔بعد میں معلوم ہوا کہ کہانی ہی یکسر مختلف تھی، غربت اور بھوک ایشو ہی نہیں تھا۔ خدارا خود کو حساس ظاہر کرنے کے لئے اپنے آپ اور اپنے ملک وقوم کو گالیاں مت دیں۔ اس کے بغیر بھی بات کی جاسکتی ہے ۔ ہم آپ کو ویسے ہی حساس مان لیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں