کیا یہ خلافت ہے ؟

پچھلے پندرہ بیس برسوں کے دوران مسلم دنیا میں کئی شدت پسند گروہ پیدا ہوئے، جنہوں نے کئی اعتبار سے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان میں سے اکثر نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، تاہم بعض ایسے گروہ بھی ہیں، جن کے نظریات انقلابی تھے، مگر انہوں نے ہتھیار اٹھانے کے بجائے مسلم ممالک کی افواج میں گھس کر نظریاتی دعوتی کام کو ترجیح دی، مقصد یہی تھا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے انقلاب آ جائے ۔ ایسے گروپوں میں سر فہرست حزب التحریر ہے، جس نے ان مسلم ممالک کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا ، جن کی افواج طاقتور ہیں اور جہاں اینٹی امریکن جذبات موجود ہیں۔ سوڈانی مفکر اور دینی سکالر حسن ترابی نے یہی کام سوڈانی فوج میں کیا اور اس عمل کے نتیجے میں جنرل عمر البشر سوڈان کے حکمران بنے ، وہ ابھی تک سوڈان کے آمر چلے آ رہے ہیں،یہ اور بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے ماسٹر برین حسن ترابی کونشانہ بنایا اور انہیں کارنر کر دیا۔ 
مسلح جدوجہد کرنے والے گروپوں میں سب سے نمایاں القاعدہ ہے، ازبک، چیچن عسکریت پسندوں سے لے کر صومالیہ کے الشباب اور نائجیریا کے بوکو حرام تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ افغان طالبان کو اس فہرست میں اس لئے شامل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بنیادی طور پر امریکہ حملے کا نشانہ بنے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے افغانستا ن پر قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف تحریک مزاحمت شروع کی۔ دلچسپ بات ہے کہ بنیادی طور پر یہ گروپ امریکی پالیسیوں کی مخالفت اور مزاحمت میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنا مقصد امریکی استعمار کے خلاف جدوجہد کو قرار دیا ، مگر ان کی کوششوں کے نتیجے میں امریکی استعمار ان مسلم ممالک میں پہنچا، جہاں پہنچنے تک اس کی حسرت اور خواہش تو 
تھی، مگر اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔ نائن الیون پر حملہ ، جس کا القاعدہ سے وابستہ گروپ فخریہ کریڈٹ لیتے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی ختم ہوئی اور پچھلے دس برسوں میں ایک ملین سے زیادہ افغان شہری مارے گئے، امریکیوں کو عراق پر حملہ آور ہونے کا موقعہ ملا ، صدام حکومت ختم ہوئی اور لاکھوں عراقی نہ صرف ہلاک ہوئے بلکہ اب عراق کے ٹکڑے ہونے کا خدشہ بہت بڑھ چکا ہے۔ الشباب کی وجہ سے صومالیہ میں غیرملکی مداخلت کی راہ ہموار ہوئی اور اب نائیجیریا میں بوکو حرام کی جانب سے سکول کی طالبات کے اغوا کے احمقانہ اقدام کے بعد وہاں غیرملکی افواج کے داخل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ 
آج کل عراق میں بھی بڑا دلچسپ منظرنامہ تشکیل پا چکا ہے۔ وہاںدولت الاسلامیہ عراق وشام (داع ش یعنی داعش)نامی شدت پسند گروپ نے تہلکہ مچا رکھا رکھا ہے۔ داعش یا ISIS(Islamic State of Iraq and Sham) کے حوالے سے ابھی تک خاصی پراسراریت چھائی ہے۔ اس شدت پسند سنی گروپ کی جڑیںعراق میں کئی سال پرانی ہیں،امریکی میزائل حملے میں چند سال پہلے مارے جانے والے القاعدہ کے کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی بھی انہی خیالات کے حامی تھے۔ دو تین سال پہلے شام میں بشار الاسد کے خلاف شامی اپوزیشن کی عسکری جدوجہد میںداعش نامی یہ گروپ نمایاں ہوا۔ پہلے اس القاعدہ کا حصہ سمجھا گیا ،مگر اس کی شدت پسندی القاعدہ 
سے دو ہاتھ آگے تھی۔ جس کی بنا پر القاعدہ نے باقاعدہ طور پر اپنے آپ کو داعش سے الگ کیا اور اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔ داعش نے دو ماہ پہلے شمالی عراق کے کئی اہم شہروں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا۔ خاص کر موصل جو بغداد کے بعد دوسرا بڑا عراقی شہر ہے، اس پر داعش جنگجوئوں کے قبضے نے عراقی حکومت کو دہلا کر رکھ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ موصل میں تیس ہزار عراقی فوج موجود تھی، صرف ایک ہزار کے قریب داعش کے جنگجوئوں نے حملہ کیا اور عراقی فوجی لڑے بغیر ہی پسپا ہوگئے۔ موصل کے سنٹرل بینک میں ساڑھے چار سو ملین ڈالر تھے، وہ بھی داعش کے ہاتھ آگئے۔ داعش کے جنگجو اعلیٰ تربیت یافتہ اورمرنے کے لئے لڑائی لڑنے والے ہیں، یہ بنیادی فرق ہے عراقی فوج اور ان میں۔ عراقی فوج کو امریکیوں نے اربوں ڈالر دے کر ٹرینڈ کیا، مگر لگتا ہے کہ سب کچھ ضائع گیا۔
داعش کی کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ عراق کے اندرونی تضادات اور مسلکی وقومیتی تقسیم بھی ہے۔ عراق میں شیعہ آبادی پچاس سے پچپن فیصد کے قریب ہے، سنی عرب پچیس تیس فیصد کے لگ بھگ ہیں ،جبکہ سنی کرد بیس پچیس فیصد بتائے جاتے ہیں۔ صدام نے دو عشروں سے زیادہ عراق پر حکومت کی، اس کے دور میں سنی عربوں کو عروج رہا، کرد بری طرح استحصال کا نشانہ بنے، جبکہ اکثریتی شیعہ آبادی بھی محرومی کا شکا ررہی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ حملے کے بعد صدام کے حامیوں نے تحریک مزاحمت شروع کی تواس میں صرف سنی عرب ہی شامل ہوئے، دوسری دونوں آبادیاں الگ تھلگ رہیں۔ القاعدہ پلس صدام کی کالعدم بعث پارٹی کی مزاحمت تکرت، فلوجہ اور سمارہ وغیرہ میں ہوئی، جسے سنی ٹرائی اینگل کا نام دیا گیا تھا، امریکیوں نے مقامی عرب قبائل کو ساتھ ملا کر اس مزاحمت کو توڑ کر رکھ دیا۔ کردوں نے تواپنے علاقے میں خودمختار حکومت بھی قائم کر لی ،یہ بھی امکان ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے یہ عراق سے الگ ہو کر آزاد کرد ریاست بن جائے۔ عراق کے وزیراعظم نوری المالکی افغان صدر حامد کرزئی کی طرح نااہل حکمران ثابت ہوئے، انہوںنے سنی بیلٹ کو ساتھ ملانے اور ان کے دل جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کے حملوں میں بعث پارٹی کی باقیات، مختلف سنی جنگجو گروپ اور مقامی قبائل بھی شامل ہوگئے۔داعش کے پیچھے سعودی حمایت کارفرما ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے ،مگر داعش کے ایجنڈے میں سعودی حکومت کے خلاف جنگ کرنابھی شامل ہے، اس لئے اس رائے کی نفی ہوجاتی ہے۔
داعش نے شام اور عراق کی سرحد کے دونوں اطراف ایک مخصوص علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کر کے دو ہفتے پہلے اعلان کیا کہ اسلامی خلافت قائم ہوگئی ہے اور داعش کے کمانڈر ابو بکر البغدادی خلیفہ ہیں، البغدادی صاحب نے اس کے بعد موصل میں نماز جمعہ پڑھائی اور پوری ''مسلم امہ ‘‘سے خطاب کرتے ہوئے تعاون کی اپیل کی، داعش نے اپنے علاقے میں عراقی پاسپورٹ منسوخ کر کے اسلامی خلافت کا پاسپورٹ بھی جاری کر دیا ۔داعش نے شروع میں مخالفوں کی گردنیں کاٹنے اور ان کے قتل عام کی ویڈیوز پوسٹ کی تھیں۔ اب داعش یا ان کی خلافت نے سافٹ امیج بنانے کے لئے اپنے جنگجوئوں کی مختلف دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں پر مبنی ویڈیوز بھی جاری کی ہیں۔ ان کے لڑاکے ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت ، بچوں کو ٹافیاں دینے کے ساتھ مختلف کھیل اور تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 
داعش کا مستقبل کیا ہوگا، یہ شمالی عراق پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتی ہے یا نہیں ... ان سوالات کے جوابات تو بہت جلد مل جائیں گے۔ ملین ڈالر سوال مگر یہی ہے کہ یہ عسکریت پسند گروپ ہر وہ کام کیوں کر رہے ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کے گریٹر ایجنڈے کا حصہ ہے۔ عراق کی تقسیم اسرائیل کی دیرینہ خواہش تھی، جو کام امریکہ عراق پر قابض رہ کر نہیں کر پائے، اب اس'' امریکہ مخالف گروپ ‘‘کی وجہ سے ہوتا نظر آ رہا ہے۔ رہی بات ان کی'' خلافت‘‘ کی تو یہ ان جنگجو ئوں کی سادہ لوحی اور عملی حقائق سے یکسر لاتعلق ہونے کی علامت ہے۔ انہیں یہ اندازہ نہیں کہ خلافت ظلم اور قتل وغارت کے ذریعے قائم نہیں ہوسکتی۔ یہ ہزار سال پرانا دور نہیں، جس میں کوئی گروہ تلوار اٹھائے یلغار کرے اور ملکوں کو فتح کر کے اپنی سلطنت قائم کر لے۔خلافت اگر کبھی دوبارہ قائم ہوئی تو وہ دلوں کو جیتنے سے ہوگی، اس کا راستہ دعوت وتعلیم کے ذریعے کھلے گا، گردنیں مارنے سے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں