ملتان کا معرکہ

سیاست میں ہونے والے بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں، جن کے اثرات اور مضمرات خاصے عرصے تک محسوس کئے جاتے ہیں۔ این اے 149 ملتان کا ضمنی انتخاب بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے۔ اس میں فتح اور شکست کی بڑی اہمیت تھی، مگر یہ انتخاب صرف ایک امیدوار کی فتح اور شکست تک محدود نہ تھا۔ اس کے اپنے نفسیاتی اور علامتی اثرات ہیں۔ 
الیکشن کا نتیجہ چند دن پہلے خاصی حد تک واضح ہو گیا تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی شکست تو یقینی تھی، سوال یہ تھا کہ وہ سخت مقابلہ کر کے ہاریں گے یا چودہ پندرہ ہزار سے بڑی شکست کھا جائیں گے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ ہاشمی صاحب کو بیس ہزار سے زیادہ مارجن سے شکست ہو گی، مگر اس طرح کا رزلٹ اچھے ٹرن آئوٹ سے منسلک تھا۔ اگر عام انتخابات کی طرح کا پچاس فیصد سے زیادہ کا ٹرن آئوٹ ہوتا تو شاید ہاشمی صاحب بیس ہزار سے زائد کی لیڈ سے ہارتے۔ اب بھی وہ بری طرح ہارے ہیں۔ انہیں مسلم لیگ ن کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ حکومتی اور انتظامی سپورٹ بھی ساتھ رہی۔ ملتان میں جے یو آئی اور ن لیگ کی اتحادی بعض دوسری جماعتوں کے ووٹروں نے بھی ہاشمی صاحب کے حق میں اپنا وزن ڈالا۔ اگرچہ یہ ان کا اپنا حلقہ نہیں، مگر بہرحال جاوید ہاشمی کوئی غیر معروف امیدوار نہیں تھے۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ وہ جیت کر اگر مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شامل نہ ہوئے، تب بھی حکومت کے قریب ہی ہوں گے۔ ان کے لئے فنڈز کا ایشو ہو گا نہ ہی حلقے میں کام کرانے کی کوئی رکاوٹ۔ ضمنی انتخابات میں یہ اہم فیکٹر ہوتا ہے۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ جیتنے والا امیدوار ہمارے کام بھی کرائے گا یا نہیں۔ جاوید ہاشمی اس سب کے باوجود چالیس ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے۔ خاصی مایوس کن کارکردگی رہی۔ 
تحریک انصاف کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے، جس سے اس کا مورال ہائی ہو گا۔ ملتان میں عمران خان نے تاریخ ساز جلسہ کیا تو پورا منظرنامہ بدل گیا، مگر اس جلسے کے اختتام پر جو سانحہ ہوا، اس سے لگتا تھا کہ شاید شہر میں تحریک انصاف کے خلاف لہر پیدا ہو۔ مسلم لیگ ن نے اس کی کوشش بھی کی، مگر رائے عامہ عمران خان کے حق ہی میں رہی۔ الیکشن کے نتیجے نے ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف پنجاب میں اہم ترین سیاسی قوت ہے۔ مسلم لیگ ن اور پنجاب حکومت کی کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کے امیدوار نے آسانی سے میدان مار لیا۔ پی ٹی آئی کے نوجوان کارکنوں کو ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی۔ دھرنے سے نکلنے پر وہ ہاشمی صاحب کے شدید مخالف ہو گئے تھے۔ یہ بھی بڑی حد تک واضح ہو گیا کہ تحریک انصاف میں ایک ہی لیڈر ہے، جس کا نام عمران خان ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی پارٹی کے صدر تھے۔ انہیں ہر جلسے میں باغی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ کارکنوں کے دلوں میں عزت تھی۔ جب وہ پارٹی چھوڑ کر گئے تو دوسری صف کا بھی کوئی لیڈر ان کے ساتھ نہیں گیا۔ کارکنوں نے بھی فوراً ہی سب رشتے توڑ ڈالے۔ ماضی میں یہ بات صرف پیپلز پارٹی میں نظر آتی تھی۔ بھٹوز کی پارٹی سے جو بھی الگ ہوا، اس کا قد کاٹھ خواہ کس قدر بلند تھا، وہ بعد میں صفر ہی ہو گیا۔ مسلم لیگ کا معاملہ مختلف ہے، یہاں الگ ہونے والے دھڑے اپنا وجود کسی نہ کسی حد تک برقرار رکھ لیتے ہیں۔ ہمارے بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ اب واضح ہو جانا چاہیے کہ جس دن قریشی صاحب خان صاحب
سے الگ ہوئے، ان کا حال بھی مخدوم جاوید ہاشمی جیسا ہی ہو گا۔ شاہ محمود کے ساتھ تو مزاحمتی اور باغی ہونے کا تمغہ موجود نہیں، وہ تو مزید محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ تحریک انصاف کو البتہ بہتر امیدوار چننا چاہیے تھا۔ یہ درست کہ انہوں نے امیدوار کا چنائو خود نہیں کیا۔ مقابلے میں موجود افراد میں سے ایک کی حمایت کی۔ بہرحال اس حلقے سے جیتنے والے امیدوار ویسی ساکھ اور شہرت نہیں رکھتے، جس کی توقع تحریک انصاف جیسی انقلاب کی مویّد جماعت سے کرنی چاہیے؛ تاہم فتح کی اپنی ایک قوت اور اثر ہوتا ہے، تحریک انصاف کو اپنی لڑائی لڑنے کے لئے ایسے ٹانک کی ضرورت تھی۔ 
مسلم لیگ ن نے یہ الیکشن بری طرح ہارا۔ انہوںنے مخدوم جاوید ہاشمی کو جتوانے کی بھرپور کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ اصل ناکامی مسلم لیگ ن کی یہ ہے کہ وہ فتح و شکست میں الجھ گئے اور اس الیکشن کے غیرمعمولی سائیڈ ایفیکٹس کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے۔ یہ الیکشن ایک طرح سے مسلم لیگ ن کے موقف کی فتح اور تحریک انصاف کے بیانیہ یا نقطہ نظر کے خلاف بھی گئے۔ تحریک انصاف نے دھرنوں میں مسلسل یہ موقف اپنائے رکھا کہ اس الیکشن کمیشن سے انصاف ممکن نہیں اور میاں نواز شریف کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی۔ یہ الیکشن مسلم لیگ ن کے لئے زندگی موت کا سوال تھا۔ وہ ہر حال میں الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔ حکومت میں ہونے کے باوجود وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ شکست سامنے نظر آتی دیکھ کر حکومت نے یہ انتخاب ملتوی کرانے کی درخواست بھی دی، مگر الیکشن کمیشن نے وہ مسترد کر دی۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے سسٹم نے درست انداز میں کام کیا۔ الیکشن کمیشن نے اچھے انداز میں معاملات سنبھالے اور اپوزیشن کا حامی امیدوار جیت گیا۔ مسلم لیگ ن کو یہ نکتہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہم ہار گئے یہ الگ بات ہے، مگر سسٹم جیت گیا۔ یہ اہم بات ہے۔ بیلٹ کی اہمیت راسخ ہو گئی۔ یہ اصل جیت ہے۔
پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھرپور حمایت کے باوجود پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ ایک زما نے میں یہ شہر بھٹو کی پارٹی کا گڑھ تھا۔ بی بی کے دور میں بھی یہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اچھا خاصا تھا۔ زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی کا سنٹرل پنجاب میں صفایا ہو گیا۔ اب جنوبی پنجاب بھی معاملہ اسی طرف چل پڑا ہے۔ بھٹو ووٹ بینک‘ جس کے بارے میں مبصرین بڑے تیقن سے کہتے تھے کہ یہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے، اب پرانی کہانی ہے۔ بھٹو صاحب کے جیالوں کی نئی نسل عمران خان کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ پرانے کارکن مایوس ہو کر یا گھروں میں بیٹھ گئے یا پھر وہ بھی تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ ان کا شہر میں مستقل گروپ ہے۔ وہ لوگوں کو یکجا کرتے ہیں۔ یہ باتیں درست ہوں گی، لیکن اگر اس محنت کے بعد ضمانت ہی ضبط کرانی تھی تو ایسے گروپ کو ختم کر دینا چاہیے۔ میرے خیال میں اس انتخاب کے جنوبی پنجاب پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سرائیکی وسیب میں بعض اہم الیکٹ ایبلز پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔ اب وہ تحریک انصاف کا رخ کر سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ اب بوجھ بن چکا ہے۔ 
مخدوم جاوید ہاشمی کی ہار پر مجھے ذاتی طور پر افسوس ہوا۔ وہ بھلے آدمی ہیں۔ گو روایتی سیاست دان ہیں، مگر بہت سوں سے بہتر۔ ماضی میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے۔ یونس حبیب وغیرہ کے تنازعات میں ان کا نام بھی لیا جاتا رہا۔ اب ان کا رویہ اور سوچ یکسر بدل چکی ہے۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سٹینڈ رکھتے اور اس فکر پر قائم ہیں۔ پرویز مشرف کی مزاحمت کی، برسوں جیل قید کاٹی۔ آئندہ کے لئے بھی وہ کسی ایسے سیاسی کھیل میں شامل ہونے کو تیار نہیں، جس پر اسٹیبلشمنٹ کے سایے ہوں۔ دھرنے سے وہ ببانگ دہل الگ ہوئے اور یہ حقیقی معنوں میں گیم چینجر تھا۔ اس ایک واقعے نے پوری بساط الٹ کر رکھ دی۔ میرے خیال میں ہاشمی صاحب کو الگ ہو کر زیادہ باوقار رویہ اپنانا چاہیے تھا۔ جس طرح وہ میڈیا کا شکار ہوئے۔ مسلسل بیانات دیتے رہے۔ اس سے ان کا بہتر امیج نہیں بنا۔ وہ خاموشی سے چین چلے جاتے اور وہاں کچھ عرصہ ٹھہر کر علاج کراتے، پھر واپس آ جاتے۔ ان کے لئے اب کسی بھی سیاسی جماعت میں رہ کر سیاست کرنا مشکل ہو گا۔ اس شکست سے بظاہر ان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہو گیا، مگر وہ واپس آنے کی پوری صلاحیت اور قوت رکھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں جاوید ہاشمی جیسا شخص اگر ایک بار کارنر ہو بھی جائے تو وہ کچھ عرصے کے بعد، کسی نہ کسی مرحلے پر دوبارہ یاد آتا ہے ۔ ممکن ہے زیادہ اہم اور طاقتور کردار مستقبل میں ان کا منتظر ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں