قوت وجدان

جین ڈکسن امریکہ کی مشہور پیش گو ئی کرنے والی ماہر خاتون تھیں۔ ان کی پیش گوئیوں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ ڈکسن کی پیش گوئیوں پر مشتمل کتاب بیسٹ سیلر رہی ، ان کا کالم دنیا کے سینکڑوں اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ جین ڈکسن کو شہرت امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بارے میں پیش گوئی سے ملی۔ 1960ء کا امریکی صدارتی انتخاب بہت اہم تھا، اس میںری پبلکن پارٹی کی جانب سے نکسن امیدوار تھے، جب کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے نسبتاًنوجوان اور چارمنگ امیدوار جان ایف کینیڈی کو نامزد کیاتھا۔ جین ڈکسن نے اس انتخاب سے چار سال پہلے ایک امریکی جریدے میں دعویٰ کیا کہ اگلا انتخاب ایک نوجوان ڈیموکریٹ امیدوار جیتے گا، جس کی نیلی آنکھیں ہوں گی اور وہ بعد میں بطور صدر امریکہ قتل بھی ہوجائے گا۔ یہ پیش گوئی کئی سال بعد جب درست ثابت ہوئی توکسی امریکی اخبار نے برسوں پرانے اس آرٹیکل کو دوبارہ چھاپا، جسے پڑھ کر ہر کوئی حیران رہ گیا اور جین ڈکسن کا ستارہ دنوں میںعروج پر پہنچ گیا۔بعد میں ڈکسن کی ایک سہیلی نے بتایا کہ بائیس نومبر 1963 ء کی صبح جین بڑی مضطرب تھی، اس نے کہا ،جس سانحے کے بارے میں مجھے خدشہ تھا، وہ آج ہوگا۔ اسی روزصدر جان ایف کینیڈی قتل کر دئیے گئے۔
جین ڈکسن کی متعدد پیش گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ مشہور ٹی وی اینکر اوپراونفری نے 2007ء میں اپنے مقبول ترین ٹی وی شو میں بتایا کہ وہ ستر کے عشرے میں جین ڈکسن سے ملی تھی، جس نے پیش گوئی کی کہ ایک روز تم بہت مقبول اینکر بنو گی اور تمہارا پروگرام لاکھوں، کروڑوں لوگ دیکھا کریں گے۔جین ڈکسن کا کہنا تھا کہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں انہیں مختلف طریقوں سے پتہ چلتا تھا، کبھی وہ کوئی خاص امیج دیکھتیں، ایسا منظر جو بعد میں حقیقت بن جاتا، کبھی انہیں کوئی اشارہ سا ملتا، سرخ دھند یا کچھ اور جو کسی قتل کی خبر دیتا۔ جین ڈکسن کی کئی پیش گوئیاں بالکل غلط بھی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ روس پہلے چاند پر پہنچے گا، ایسا نہیں ہوا اور امریکی خلاباز پہلے چاند کو تسخیر کرنے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح جین ڈکسن نے ساٹھ کے عشرے میں تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی کی تھی، وہ غلط نکلی۔ ان کے اور بھی کئی اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔
اپنے پچھلے دونوں کالموں(یکم جون ، چار جون) میں انجانی یا نامعلوم دنیا کی مختلف سطحوں پر بات کی، دلچسپی رکھنے والے ان دونوں کالموں کو دنیا کی ویب سائیٹ پر مضامین ، کالم کے گوشے میں یا پھر میری فیس بک وال پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے پہلی نشست میں نامعلوم دنیا کے تصور کو بیان کیا کہ کچھ باتیں، کچھ چیزیں سائنس کے پیمانے سے جانچی، پرکھی نہیں جا سکتیں، مگر ا ن کا وجود ہمیں محسوس ہوتا ہے، ہم میں سے بہت سوں کو اپنے تجربے او ر مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے، صرف وہی نہیں، کچھ اس کے پیچھے بھی ہے۔ وہ نامعلوم دنیا ہے، جسے مابعدالطبیعیات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مابعدالطبیعیاتی دنیا سے انٹرایکشن چار پانچ مختلف سطحوں پر ہوتا ہے۔ ایک سطح مشاہدے کی ہے۔ مختلف علوم کے ماہرین اپنے مشاہدے اور حساب کتاب کے ذریعے اس ان دیکھی دنیا میں جھانکنے اور اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں دست شناس، نجومی، علم الاعداد وغیرہ کے ماہرین شامل ہیں۔ ان میں ڈھونگ رچانے والے بہت زیادہ ہیں، مگر کہیں کہیں پر اچھے ماہر بھی مل جاتے ہیں، جواپنے علم کی بنیاد پر کسی حد تک پیش گوئی بھی کرتے ہیں اور کسی اجنبی سے پہلی ہی ملاقا ت میں اس کا ہاتھ دیکھ کریا زائچہ بنا کر وہ بہت کچھ بتا دیتے ہیں جو حیران کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، مگر بہرحال عملی طور پر ایسا ہوتا ہے ، تاہم ان علوم کی اپنی محدودات ہیں، کچھ باتیں درست ہوجاتی ہیں تو بہت سی غلط بھی۔یہ ماہر اپنی درست پیش گوئیوں کے گیت گاتے اور غلط پیش گوئیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ 
مابعدالطبیعیات دنیا کی دوسری سطح شیطانی علوم ہیں۔ شیطان کا وجود قرآن پاک سے تسلیم شدہ ہے۔ شیطانی علوم بھی ایک بھیانک حقیقت ہیں۔ جادو، ٹونا، کالا علم وغیرہ اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ قرآن پاک حضرت موسیٰؑ والے قصے میں سامری جادوگر کے شیطانی کمالات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جادو سے سانپ بنا دینا، دھاتوں سے ایسا بچھڑا بنانا جس سے آواز بھی آئے وغیرہ وغیرہ۔ آج بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اگرچہ اس میں فراڈ اور لوٹ کھسوٹ کا کاروبار زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں بہت سی شیطانی تنظیمیں بنی ہیں جو مخصوص رسومات انجام دیتی اور چند خاص نشانات کے ذریعے ایک دوسرے کو پہچانتی اور سپورٹ کرتی ہیں۔ فری میسن بہت بدنام رہی ہے۔ آج کل Illuminati کا بڑا شہرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی بہت سی نامور شخصیات اسی سلسلے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ مخصوص علامات ، اشارات کے ذریعے اپنے شیطانی پیروکار ہونے کا اعلان کرتی ہیں۔ 
مابعدالطبیعیات دنیا سے انٹرایکشن کی ایک سطح غیرمعمولی قوت وجدان رکھنے والے سائیکک(psychic) اور پیش گو بھی ہیں۔ بیشتر سائیکک خاص وجدانی صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ایکسٹرا سینسری پرسیپشن (Extra Sensory Perception) یعنی ESPکو استعمال کر کے نامعلوم دنیا کی وہ جھلک دیکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جہاں تک پہنچنا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں بے شمار سائیکک اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان میں بہت سے کروڑ پتی بھی ہوچکے ہیں۔ ان کی مزید تفصیل آسانی کے ساتھ گوگل پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سائنس البتہ ان کو تسلیم نہیں کرتی۔ رائل سوسائٹی آف سائنس نے اس پر ایک سروے کرایا، جس میں سائنس دانوں کی اکثریت نے سائیکک صلاحیتوں کو سائنسی طور پر تسلیم نہیں کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، لیکن اس پر پابندی بھی نہ لگائی جائے۔اسے پیراسائیکالوجی یا مابعدالنفسیات کا نام دیا گیا۔ ہمارے ہاں بھی ایسے بہت سے لوگ مل جاتے ہیں، جن کی بہت سی پیش گوئیاں درست ثابت ہوچکی ہیں۔غلط بھی ہو جاتی ہیں، لیکن جوٹھیک ثابت ہوتی ہیں، وہ اتنی تہلکہ خیز ہوتی ہیں کہ ناکامیاں اس کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ حقیقت کیا ہے ، لیکن یہ سائیکک یا پیش گو حضرات کہتے ہیں کہ بعض اوقات ہمارے سامنے کوئی منظر آ جاتا ہے، خواب کی طرح ،مگر یہ جاگتے میں ہوتا ہے۔ کوئی آواز جو کوئی خبر دیتی ہے، کوئی اشارہ ، فلم کی طرح چلتا کوئی مسلسل منظر ... وغیرہ۔ جس طرح ٹی وی پر بعض اوقات کوئی انجانا چینل چند لمحوں کے لئے کیچ ہوجاتا ہے، اسی طرح شائد ان کے ذہن کی فریکوئنسی کسی خاص لمحے ان دیکھی دنیا سے مل جاتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
ویسے یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ ابنارمل، شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی امراض کے شکار لوگ بھی مختلف منظر، آوازیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں، لیکن وہ صرف دماغ کا خلل ہوتا ہے۔رئیس امروہوی مرحوم کہا کرتے تھے،'' سپرنارمل اور ابنارمل میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ ‘‘اس لئے یہ یاد رکھا جائے کہ ہر ملنگ مجذوب نہیں ہوتا، بہت سے ملنگ سچ مچ کے پاگل بھی ہوتے ہیں، سائیکک لوگوں کی ہر پیش گوئی درست بھی نہیں نکلتی ، اس لئے ان پر یقین اپنے رسک ہی پر کریں۔ مضبوطی صرف اللہ پر یقین رکھنے سے ملتی ہے۔مابعدالطبیعیات دنیا کی ایک اہم سطح صاحب عرفان بزرگوں کا کشف ہے۔ اللہ والوں کی اس دنیااورکشف کے حوالے سے انشا اللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں