پہلے سے معلوم جواب اور فتنہ پھیلاتے سوالات

صحافت کی وادی پُرخار میں بیس اکیس سال گزر چکے۔ میڈیا کے دو عشروں کے تجربے اور سوشل میڈیا کے چھ، سات برسوں کے مشاہدے سے کئی باتیں سیکھ چکا ہوں۔ اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ یہاں کچھ بھی بلا مقصد نہیں ہوتا۔ ہر مہم کے پیچھے کوئی نہ کوئی قوت، گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے۔ اخبار اگر خبروں کے مجموعے کو کہتے ہیں‘ تو پھر اخبار کی بھی قسمیں ہیں۔ ایک اخبار شائع ہوتا ہے، جسے سب لوگ دیکھتے، پڑھتے ہیں۔ ایک اخبار یعنی خبروں کا مجموعہ ایسا بھی ہے، جو شائع نہیں ہوتا، ہو بھی نہیں سکتا کہ اس میں وہ خبریں ہوتی ہیں جن کا صرف سینہ گزٹ میں ذکر ہو سکتا ہے۔ ایک اخبار وہ بھی ہے جو نظر نہیں آتا، اس کی خبریں بین السطور ہوتی ہیں، جس کے لیے انگریزی میں Between The Lines کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ خبریں صرف ہوشیار قاری ہی دیکھ، پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ اخبار کا ایک حصہ مگر وہ بھی ہے، جو معمول میں شاید شائع نہ ہو، مگر وہ شائع کرایا جاتا ہے۔ اپنی من پسند خبریں پلانٹ کی جاتی، کرائی جاتی ہیں۔ مخصوص مفادات کے لیے بعض مخصوص طریقے برتے جاتے ہیں۔ اہم مواقع پر آنے والے مخصوص سروے اور پول جن کا فائدہ کسی خاص جماعت کو پہنچانا مقصود ہو۔ جعلی اعداد و شمار رکھنے و الی خبریں، گمراہ کن سازشی تھیوریز، غیر ممالک کے گمنام، غیر معروف اخبارات کی بعض من پسند رپورٹیں، جنہیں یہاں پر 'فلاں معروف عالمی جریدے یا اخبار‘ کی خصوصی رپورٹ کہہ کر پھیلایا جاتا ہے۔ اسی طرح اکثر دیکھتے ہوں گے کہ کسی غیر ملکی سفیر کے ساتھ کسی وزیر اعلیٰ کی ملاقات کے حوالے سے خبر شائع ہوتی ہے، جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس یورپی ملک میں ہمارے ان وزیر اعلیٰ کی صلاحیتوں اور کمٹمنٹ کی دھوم مچی ہے‘ اور وہ وہاں بہت مقبول ہیں۔ آپ چاہیں تو ان خبروں کو درست سمجھ لیں، ہمارے جیسے شکی البتہ یہ سوچتے ہیں کہ جس وزیر اعلیٰ کی صلاحیتوں کی اپنے شہر میں دھوم نہیں مچ سکی، 
ہزاروں میل دور دیار غیر میں اسے کون جانے گا؟ یہ سب خبریں ایک خاص قسم کی امیج بلڈنگ کا حصہ ہوتی ہیں۔
خیر یہ ایک الگ داستان ہے، جس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی، حوالے دینے لگیں تو کئی کالم صرف ہو جائیں گے۔ ذکر یہ ہو رہا تھا کہ اخباری صفحات، عالمی جرائد اور اب سوشل میڈیا میں کوئی باقاعدہ، منظم مہم شروع ہو جائے تو پھر اس کے محرکات سمجھنے چاہئیں۔ الجھا ہوا پورا معاملہ فوری طور پر سلجھ جاتا ہے۔ میرا شمار ان چند لکھنے والوں میں ہے، جو فیس بک پر بہت فعال ہیں اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو باقاعدگی سے مانیٹر کرتے ہیں۔ یہاں بے سبب کچھ نہیں ہوتا۔ اچانک ہی اتنے بہت سے لوگوں کے سر پر کھجلی شروع نہیں ہو جاتی۔ ان کی زبانوں پرکانٹے اچانک نہیں اگ آتے۔ اس سب کا کوئی نہ کوئی پس منظر، ایجنڈا، مقصد اور ہدف ہوتا ہے۔ اس ہدف اور ایجنڈے کو سمجھ لیا جائے تو بات آسان ہو جاتی ہے۔ پندرہ دسمبر کی شام سے سے سولہ دسمبر کی دوپہر تک سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر ایک طوفان کھڑا رہا۔ چند گھنٹوں کے دوران بہت سی پوسٹیں وجود میں آ گئیں، جنہیں کمال سرعت کے ساتھ پھیلایا گیا۔ سانحہ پشاور میں بعض شہدا کے ورثا کی جانب سے احتجاج کیا گیا، اس کی ویڈیو نہایت منظم انداز سے پھیلائی گئی۔ ایسے ایسے سوالات اٹھائے گئے، جن کے جوابات معلوم تھے یا پھر اندازہ تھا کہ ان سوالات میں جو فتنہ پوشیدہ ہے، جواب دینے اور بحث کرنے سے وہ فتنہ پھیلے گا۔ رواج ہے کہ ایسے موقعوں پر بہت سے ایسے لوگوں بھی تبصرے کرتے ہیں یا ان پوسٹوں کو شئیر کرتے ہیں، جن کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے نیک نیتی سے تبصرے کئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس مہم میں شامل ہو کر وہ نادانستہ طور پر دہشت گردوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا کے ایک حصے نے بھی اس ایجنڈے میں حصہ ڈالا۔ ایک بڑے چینل پر سانحہ پشاور کے حوالے سے پروگرام نشر کیا گیا، جس کے آخر میں چند شہید بچوں کے ورثا سے گفتگو کی گئی تھی۔ وہ گفتگو اور پروگرام کا مکمل تاثر فوج اور پاکستانی ریاست کے خلاف تھا۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جن درندوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر گھٹیا پن، بزدلی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا، ان کا تذکرہ ہی نہیں، گویا یہ بچے دہشت گردوں نے نہیں، خدانخواستہ ریاست نے شہید کیے ہیں۔ حد ہوتی ہے۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ محاذ جنگ میں لڑتی فوج کی پشت میں چھرا گھونپا جائے اور یہ کام کمال ڈھٹائی اور بے حمیتی سے مسکراتے ہوئے کیا جائے اور جب کوئی اعتراض کرتے تو الٹا اسی پر ناراض ہوا جائے کہ آپ لوگ ہمیں سوال اٹھانے سے روک رہے ہیں، ہمارے اوپر شک کر رہے ہیں۔ جن کے جگر گوشے چلے گئے، ان کی ناراضی، تلخی سمجھ میں آتی ہے۔ مناسب ہے کہ اس رویے کی نفسیاتی وجوہ کو سمجھا اور اس کے مطابق انہیں ڈیل کیا جائے۔ شہدا کے ورثا کی باتوں کو تحمل سے سنا اور نظرانداز کیا جائے، ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور ان کے مسائل فوری حل کئے جائیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان میںسے کسی کی تلخ گوئی کو پاک فوج اور ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایسا کرنا درحقیقت دہشت گردوں کی حمایت اور ان کی سہولت کاری کے مترادف ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ سانحہ پشاور کو ایک سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تقریب کی وجہ سے پیدا ہونے والی قومی یک جہتی کی سپرٹ کو کیوں سبوتاژ کیا جا رہا ہے؟ پچھلے پورے سال میں تو کسی نے نہیں کہا کہ اس حادثے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ کون سی نااہلی؟ بھائی‘ وہ سکول تھا، کون سا فوجی اہمیت کا اڈہ تھا، جس کی خاص سکیورٹی فراہم کی جاتی؟ ایک سکول کی کتنی سکیورٹی ہو سکتی ہے؟ دو چار گارڈ اگر زیادہ بھی ہوتے تو دہشت گردی کے اس قدر منظم حملے کی کیا مزاحمت کر لیتے؟ رہی با ت سکیورٹی الرٹ جاری ہونے کی تو یہ ایسی ڈرامہ بازی ہے، جس کے بارے میں ہر صحافی جانتا ہے۔ روزانہ کئی محکمے درجنوں سکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہیں۔ ہر مہینے ایسے بیسیوں بلکہ کبھی تو سینکڑوں الرٹ غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کبھی دو چار مہینے بعد کوئی واقعہ ہو جائے تو فوراً وہ محکمہ اپنے الرٹ کو ڈھونڈ کر اس کی کاپی میڈیا کو لیک کر دیتا ہے۔ یہ سب ایک بے فائدہ، غیر ضروری، گھسی پٹی پریکٹس ہے، جس کا ہر ایک کو علم ہے، جسے کوئی درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ ہونا یہ چاہیے کہ ان سب اطلاعات کو اکٹھا کر کے، ان کا تجزیہ کر کے باقاعدہ، بامعنی الرٹ جاری کیا جائے، جسے لوگ اور محکمے وزن دیں اور اس کے مطابق حکمت عملی بنائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ان الرٹس کا کوئی فائدہ نہیں۔ 
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ آپریشن ضرب عضب پہلے سے جاری تھا، اس دردناک واقعے 
کے بعد اس کی شدت کئی گنا بڑھ گئی۔ سیاسی قیادت نے اکٹھے ہوکر نیشنل ایکشن پلان دیا، ملٹری کورٹس تک بنا دیں، جن کے بارے میں آئینی ماہرین کو تحفظا ت تھے۔ فورسز اور ایجنسیوں نے ایسا موثر آپریشن کیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ پچاس ہزار کے قریب لوگ پکڑے گئے، بے شمار مارے گئے جبکہ باقی بزدل، حقیر چوہوں کی طرح بل میں دبکے بیٹھے ہیں یا کچھ افغانستان اپنے پروانڈین فنانسروں کے پاس جا چھپے ہیں۔ کوئی ہے جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ پاکستان پندرہ دسمبر 2014ء کی نسبت کئی گنا محفوظ ہو چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی لڑائی جاری ہے، دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنا ہو گا، ان کی باقیات کو بھی ختم کرنا ہو گا، قومی یک جہتی اور یکسوئی کے ساتھ انشاء اللہ ہم یہ بھی کر دکھائیں گے۔ دہشت گردوں، ان کے نظریاتی حامیوں، سہولت کاروں اور پاکستان کی دشمن قوتوں کو یہ تکلیف ہے کہ پوری مسلم دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا۔ سانحہ پشاور کے حوالے سے سوال تو تب پوچھے جاتے، جب اس دلگداز سانحے کے بعد بھی کچھ نہ کیا جاتا اور آج دہشت گرد پہلی جیسی پوزیشن میں ہوتے۔ جب ایسا نہیں ہوا اور وہ سب کچھ ہو گیا، جس کی توقع بھی نہیں تھی، تب ایسا معجزہ کر دکھانے والے جوانوں پر تنقید کے تیر نہیں بلکہ تحسین کے پھول نچھاور کرنے چاہئیں۔ اپنی جان کی بازی لگانے، دہشت گردوں کی برستی گولیوں، پھٹتے بموںکا سامنا کرنے والی فورسز، پولیس اور دیگر محکموں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، جنہیں نے ہمیں اور ملک کو محفوظ بنایا۔ سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں، کسی پر کوئی پابندی نہیں، مگر پہلے سے معلوم جوابوں والے سوال پوچھنا بھی زیادتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ فتنہ پھیلانے والے سوالات سے دہشت گردوں کو فائدہ ہو گا، ملک و قوم کو نہیں۔ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ کے ضابطے، دستور اور اصول عام دنوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں