مکتوب

آر سی وی بوڈلے ایک مشہور یورپی مصنف اور سفرنامہ نگار تھے۔ رونلڈ وکٹر بوڈلے دراصل ایک برطانوی فوجی افسر تھے۔ بچپن فرانس میں گزرا، بعد میں برطانوی فوج کا حصہ بنے۔ ایٹن کالج اور سیندھرسٹ ملٹری اکیڈمی میں تربیت کا موقعہ ملا۔ نوجوان بوڈلے کو لکھنے لکھانے کا شوق تھا، ان دونوں اداروں کی مطبوعات میں تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ سکینڈ لیفٹننٹ کے طور پر ہندوستان میں چند سال گزارے۔ وہاں سٹیج ڈرامے لکھے اور ان میں حصہ بھی لیا۔ نوجوان بوڈلے پہلی جنگ عظیم میں شریک ہوا۔ کئی لڑائیاں لڑیں، زخمی بھی ہوا، حتیٰ کہ ایک بار تو کیمیکل گیس کا نشانہ بنا۔ چھبیس سال کی عمر میں لیفٹننٹ کرنل کا عہدہ مل گیا اور ایک بٹالین کی قیادت بھی کی۔ فرانس میں اسسٹنٹ ملٹری اتاشی بنا کر بھی بھیجا گیا۔ 1919ء کی پیرس پیس کانفرنس میں شریک تھا‘ جس کے نتیجے میں لیگ آف نیشنز بنائی گئی‘ اور جرمنوں کو ٹریٹی آف ورسیلز میں جکڑا گیا۔ یہاں پر جو کھیل کھیلا گیا، اس نے بوڈلے کو متنفر کر دیا۔ اسے لگا کہ اس نے اور اس جیسے لاکھوں فوجیوں نے بلا مقصد اپنی جانیں دائو پر لگائیں اور اتنے برسوں پر محیط عالمی جنگ بے سود لڑی گئی۔ اس نے بعد میں لکھا کہ خود غرض سیاستدان اپنی حرکتوں کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، ہر ملک زیادہ سے زیادہ ہڑپ کرنے کے چکر میں ہے اور اس سے قوم پرستی کی لہر کو ہوا ملے گی۔ اسی کانفرنس میں ایک دوست نے اس کی ملاقات ٹی ای لارنس سے کرائی، وہ مشہور برطانوی کردار جسے تاریخ لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ملاقات ساڑھے تین منٹ پر محیط تھی، مگر بقول بوڈلے اس نے اس کی زندگی کا رخ بدل ڈالا۔ بوڈلے نے لارنس سے پوچھا کہ اب جنگ ختم ہو گئی اور سیاست میں حصہ لینے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں، اسے کیا کرنا چاہیے؟ لارنس نے ایک سطری جواب دیا، جائو اور عربوں کے ساتھ کچھ وقت گزارو، تمہاری زندگی بدل جائے گی۔ لارنس آف عریبیہ سے دو سو سکینڈز کی ملاقات نے اس کے مستقبل کا تعین کر دیا۔ بوڈلے نے اپنے معاملات نمٹائے اور صحارا (شمالی افریقہ کا سب سے بڑا صحرا جسے صحراالکبریٰ کہا جاتا ہے) جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دوستوں نے اسے فیئرویل پارٹی دی، جس میں شرطیں لگائی گئیں کہ بوڈلے صرف چھ ہفتوں کے اندر واپس آ جائے گا۔ شرط لگانے والوں کو بدترین ہزیمت اٹھانا پڑی۔ آر سی وی بودلے اگلے سات برسوں تک اسی صحرا میں عرب بدوئوں کے ساتھ مقیم رہا۔ 
بوڈلے نے اپنے صحرا کے دنوں کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں۔ وہ اسے اپنی زندگی کے بہترین سال گردانتا تھا۔ بوڈلے کی کتاب Algeria From Within کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے‘ اور بوڈلے کو اس کتاب کی بنیاد پر صحرا کے بارے میں سب سے بہتر جانکار ی رکھنے والا برطانوی قرار دیا جاتا رہا۔ بوڈلے کا پہلا ناول یاسمینہ بھی اسی خاص کلچر کی عکاسی کرتا رہا۔ 
بوڈلے نے اپنے آپ کو صحرائی عربوں کے سے انداز میں ڈھال لیا۔ اس کی پہلی بیوی نے اس بنیاد پر طلاق لی تھی کہ وہ بہت شراب پیتا ہے۔ بوڈلے نے اب شراب نوشی مکمل طور پر ترک کر دی۔ وہ صحرائی عربوں کا لباس پہنتا، انہی کی طرح خیمے میں رہتا اور فرش پر سوتا تھا۔ عربی اس نے بڑے ذوق شوق سے سیکھی۔ اسے یہ لائف سٹائل اتنا بھا گیا کہ بوڈلے نے باقاعدہ بھیڑیں خرید کر انہیں چرانا شروع کر دیا۔ پہلے اس نے اس کام کے لئے چرواہے رکھے، مگر پھر خود ہی بھیڑوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ عام بدوئوں کی طرح وہ اپنی بھیڑوں سے محبت کرتا، ان کے ساتھ سوتا اور کاروبار کرتا تھا۔
بوڈلے کے بقول ان سات برسوں کے دوران اس کی زندگی میں کسی بھی قسم کی پریشانی یا دکھ نہیں تھا۔ وہ نہایت اطمینان اور سکون سے زندگی گزارتا رہا۔ اس کی بڑی وجہ اس کے میزبان عربوں کی قناعت پسندی اورخدا پر یقین تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ غریب صحرائی عرب اس قدر طمانیت سے بھرپور زندگی گزارتے تھے کہ دیکھ کر رشک آتا۔ وہ قسمت پر یقین رکھتے اور ہر مصیبت پر صبر کرتے۔ عرب اس کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کرتے، ''مکتوب‘‘۔ یہ جادوئی لفظ کسی بھی مصیبت زدہ عرب کے لئے مرہم کا کام دیتا۔ حتیٰ کہ جس کسی کا سب کچھ لٹ جاتا، اسے بھی دوسرے تسلی کے لئے یہی لفظ استعمال کرتے، ''مکتوب‘‘۔ بوڈلے کو بتایا گیا کہ مکتوب کا مطلب ہے لکھا ہوا یعنی قسمت۔ یہ مسلمان عرب اس پر یقین رکھتے کہ ہر اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے اور پریشان رہنے سے معاملات سلجھ نہیں جائیں گے۔ صبر اور ہمت سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ 
بوڈلے نے اپنی کتاب میں ایک اہم واقعہ کا ذکر کیا ہے، جب صحرا میں شدید طوفان آیا۔ سخت گرمی کے دن تھے، آگ برساتی لو چلنے لگی۔ آندھی کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ ریت کے چھوٹے ٹیلے اڑ کر میلوں دور تک بکھر گئے۔ بوڈلے کے بقول یوں لگ رہا تھا‘ جیسے کسی شیشے کے کمرے میں پوری شدت سے دہکتے کسی آتش دان کے سامنے آدمی کھڑا ہو، جب دیواریں بھی آگ کی طرح دہکنے لگیں اور سانس لینا تک دشوار ہو جائے۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سر کے بال لو کی حدت سے پگھل جائیں گے۔ تین دنوں تک یہ شدید گرم آندھی طوفان جاری رہا۔ ایسی تباہ کن حالت میں جب بوڈلے ہوش و حواس کھو رہا تھا، مقامی عرب مطمئن رہے۔ وہ ایک ہی لفظ دہراتے، مکتوب... یہ لکھا ہوا ہے۔ طوفان تھما تو بدو قبیلے نے فوری طور پر اپنی بھیڑیں ذبح کرنا شروع کر دیں، جن کی حالت نازک لگ رہی تھی۔ یہی بھیڑیں ان کی زندگی، ان کا کاروبار، روزگار کا ذریعہ تھیں، مگر عربوں کے اطمینان میں فرق نہیں آیا تھا۔ قبیلے کے سردار نے بوڈلے کو متوحش دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور تسلی دیتے ہوئے کہا، ''اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا سب کچھ ضائع نہیں ہوا۔ اس قسم کے طوفان میں کچھ بھی نہیں بچتا۔ ہماری چالیس فیصد بھیڑیں بچ گئی ہیں، ہم نئے سرے سے اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔ ایسا قسمت میں لکھا ہوا تھا، ہو گیا۔ اب افسوس کرنے سے وہ واپس تو نہیں آ سکتا، اللہ پر بھروسہ رکھنے سے البتہ زندگی کا نیا باب شروع ہو سکتا ہے، امید کرنا چاہیے کہ وہ خوشگوار اور خوبصورت ہو گا۔‘‘
بوڈلے اس بات پر بھی حیران تھا کہ یہ قبائلی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بوڈلے کے مطابق، ''خدا ان کی زندگیوں کا لازمی حصہ ہے۔ وہ اسے اپنے خیمہ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ زندگی کے ہر معاملہ میں خدا سے رہنمائی مانگتے اور اسی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا، سفر، کاروبار، شادی، پیدائش، موت، محبت... غرض ہر معاملے میں خدا کی طرف دیکھتے، اس کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ خدا ایک طرح سے ان کا قریبی ترین دوست اور ہر وقت کا ساتھی تھا۔ خدا سے تعلق کی یہ نوعیت ان لوگوں (اہل مغرب)کے لئے اندازہ کرنا مشکل ہے جو صرف ایک خاص رسمی عبادت کے ذریعے ہی کچھ وقت کے لئے خدا سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں‘‘۔
اسی مکتوب یا لکھے ہوئے کا ذکر پائیلو کوئلو نے اپنے شہرہ آفاق ناول ''الکیمسٹ‘‘ میں کیا ہے۔ الکیمسٹ کا مرکزی کردار ایک گڈریا لڑکا ہے، جو اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اہرام مصر تک گیا۔ صحرا کے سفر میں اسے قبائلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔ صحرا کے خطروں کا جو مقابلہ کرتے اور اپنی کٹھن زندگیوں میں صرف اللہ پر انحصار، اس کی مرضی پر بھروسہ اور اس کی رحمت ہی سے امید لگائے رہتے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتے تھے، جو کچھ ان سے ہو سکتا، اپنی پوری کوشش اس میں صرف کرتے اور پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیتے۔ قسمت کے نادیدہ قلم سے لکھے فیصلوں کو کھلے دل سے قبول کر لیتے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہی ایمان اور یہی عقید ہ ہے۔ اشفاق احمد نے جسے ایک فقرے میں یوں سمویا کہ اللہ کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لینا ہی ایمان ہے۔ قسمت کے لکھے ہوئے فیصلوں کو خوش دلی سے تسلیم کر لینا ہی انسان کو وہ قوت عطا کرتا ہے، جس سے اس کی زندگی کی کشتی وقت کے سمندر میں سفر طے کر پاتی ہے۔ رب ذوالجلال کی ہستی کے حوالے سے تشکیک کے شکار لوگ البتہ تمام زندگی اذیت اور کرب میں گزارتے ہیں۔ ان دیکھے کا خوف ان کے رگ و پے میں سما جاتا ہے، جس پر قابو پانے کی خواہشات انہیں ممنوعات کی طرف لے جاتی اور کبھی بھری دنیا میں تماشا بنا ڈالتی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ ''مکتوب‘‘ کاجادوئی لفظ ہے، جس کی قوت، تاثیر اور برکات کو سمجھنا ہی اس طلسم کدے کی کلید ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں