سلوپوائزن

کبھی وقت ملے، اپنی زندگی کا تجزیہ کرنے کا وقت ملے تو احساس ہوتا ہے کہ قدرت کس قدر مہربان رہی ہے۔ ایک چھوٹے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے لاہور جیسے بڑ ے شہر میں قدم رکھا تو کتنی فراخ دلی اور محبت کے ساتھ زندگی نے بانہیں وا کیں اور وقت کے تھپیڑوں سے بچایا۔ کٹھن وقت کم آئے، ان میں بھی سانس لینے، سروائیو کر نے کی گنجائش باقی رہی۔ قدرت کی اتنی نوازشیں کہ گننا ممکن نہیں۔ ان سب نعمتوںکا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ قدرت سے کوئی شکوہ نہیں، مگر بہرحال حقیقت ہے کہ شاعری میرے حصے کا گلاب نہیں۔ اس کے رنگوں کی تحسین تو کر سکتا ہوں، یہ کبھی مجھ پر اتری نہیں۔ ان بد ذوق لوگوں میں سے ہوں، جن پر سُر اور لَے مہربان نہیں ہوئی۔ لڑکپن میں کبھی گانے کی کوشش کی، فوراً احساس ہوا کہ ہماری گائیگی لوگوں کو موسیقی سے نفرت تو دلا سکتی ہے، اس کا اور کوئی مصرف نہیں۔ اسی طرح شعر کہنے کی کوشش کی تو جلد اندازہ ہوگیا کہ انگریزی محاورے کے مطابق یہ چائے کا کپ میرا نہیں۔ نثر ہی میں پناہ لی، رب تعالیٰ نے ذریعہ رزق بھی اسی کو بنا دیا۔ لکھنے لکھانے کے عمل میں کچھ عرصے کے بعد احساس ہوا کہ خیال زیادہ طاقتور چیز ہے۔ لفظ خوبصورت ہیں، مسحور کر دینے والی بلاخیز قوت ان میں پوشید ہ ہے، مگر یہ جلد اپنا رنگ روپ کھو بیٹھتے ہیں، دیرپا چیز خیال ہے۔ الفاظ خیالات کے ابلاغ کا ایک ذریعہ ہی رہیں، اس پر حاکم نہ بن جائیں۔ مباحث میں استدلال کو اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور جزئیات کے ساتھ واضح کرنے کا کام لفظوںنے کرنا ہوتا ہے، مگر انہیں یہ کام خود کو نمایاں کئے بغیر کرنا چاہیے۔ اگلے روز معروف سینئر شاعرہ زہرہ نگاہ کی کہی ہوئی ایک خوبصورت بات پڑھی۔ زہرہ آپا کہتی ہیں: موسیقی کے بعض بڑے گویے جیسے فیاض خان صاحب جب مرثیہ پڑھتے تو راگوں کو کسی قدر بگاڑ دیتے کہ راگ کہیں مرثیے پرحاوی نہ ہو جائیں، توجہ راگوں کی خوبصورتی کے بجائے کلام کی طرف جائے۔ 
بات شاعری کی ہو رہی تھی، نثر والا جملہ معترضہ بیچ میں آ گیا۔ شاعروں کو ایک بڑا ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ایک یا دو مصرعے جو سحر پھونک سکتے ہیں، نثر کو اس کے لئے کہیں زیادہ محنت اور جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ویک اینڈ پر ایک نظم کے حصار میں رہا۔ دو دن پہلے کسی نے فیس بک پر پابلو نرودا کی ایک نظم شئیر کی، تب سے اس کے فسوں میں گرفتار ہوں۔ چلی کے پابلو نرودا نے اپنے جادو آفرین کلام کے لئے اپنی مادری زبان ہسپانوی میں کلام کیا۔ جو نظم پڑھی وہ انگریزی میں تھی، ترجمہ در ترجمہ ہونے کے باوجود کلام میں سادگی، معنویت اور گہرائی تھی، جس نے دل کو چھو لیا، گویا ایک شاک سے دوچار کیا۔ نرودا کی یہ نظم You start dying slowly معلوم نہیں کب شائع ہوئی، 1973ء میں یہ شاعر بے بدل دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ یہ آج کی دنیا اور ہمارا لائف سٹائل ہے جس میں نرودا کی اس نظم کی معنویت اور اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انگریزی میں موجود اصل نظم بہت زیادہ طاقتور ہے، اس کا ترجمہ در ترجمہ ویسا موثر نہیں رہا، مگر اس کے طاقتور خیال سے آپ لطف اندوز ہوسکیںگے۔اس کا آزاد سا نثری ترجمہ دنیا میگزین کے سینئر ساتھی عبدالحفیظ ظفر نے کیا ہے: 
'' تم آہستہ آہستہ مر رہے ہو، تم آہستہ آہستہ مر رہے ہو، اگر تم مطالعہ نہیں کرتے، اگر تم زندگی کی آوازوں کو نہیں سنتے اور اگر تم اپنے آپ کی تحسین نہیں کرتے تو(اس کا لامحالہ مفہوم یہ ہے) تم آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اتر رہے ہو۔ 
جب تم اپنی عزت نفس کو قتل کرتے ہو، جب تم دوسروں کو اپنی مدد نہیں کرنے دیتے تو تم آہستہ آہستہ موت کی طرف جا رہے ہو۔ جب تم اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہو اور روزانہ ایک جیسے راستوں پر چلتے ہو، اگر تم اپنا معمول نہیں توڑتے، اگر تم اپنی حیات کو مختلف رنگوں سے آراستہ نہیں کرتے، اگر تم ان لوگوں سے نہیں بولتے جنہیں نہیں جانتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ تم آہستہ آہستہ موت کی بانہوں میں جا رہے ہو۔
جب تم جذبوں کو محسوس کرنے سے گریز کرتے ہو، ان کے تکلیف دہ پہلوئوں سے بھی اجتناب کرتے ہو، وہ پہلو جن سے تمہاری آنکھیں نمناک ہو کر چمکنے لگتی ہیں اور تمہارا دل تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے، تو بس سمجھ لو کہ تم آہستہ آہستہ موت کے دروازے کو دستک دے رہے ہو۔ 
جب تم اپنے پیشے اور اپنی محبت سے مطمئن نہیں ہو اور اس کے باوجود اپنی زندگی کا چلن تبدیل نہیں کرتے، جب تم اس چیز کا خطرہ مول نہیں لیتے جو بے یقینی کے لئے محفوظ خیال کی جاتی ہے، جب تم ایک خواب کے پیچھے نہیں جاتے، جب تم عمر بھر کم از کم ایک دفعہ اپنے آپ کو بھاگ جانے کی اجازت نہیں دیتے، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ تم آہستگی سے موت کا ذائقہ چکھنے جا رہے ہو‘‘۔
نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ آپ یہ نظم پڑھ چکے ہیں، تو اسے ایک بار پھر پڑھیے، کچھ وقت ہو تو انٹرنیٹ سے اس کا انگریزی متن نکال کر پڑھ لیں۔ اگر ممکن ہو تو چند منٹوں کے لئے اپنی مصروفیت کو سائیڈ پر رکھ دیں۔ موبائل فون بند یا اسے خاموشی 
اوڑھا دیں، آنکھیں بند کر چند لمحوں کے لئے اپنی زندگی کا تصورکریں ۔ سوچیں کہ پچھلے چھ ماہ یا ایک سال کے دوران کتنی بار ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی معمول کی مصروفیات، مکینیکل انداز میں نمٹاتے صبح شام کے کاموں کے تیزی سے گھومتے دائرے کو توڑنے کی کوشش کی ہے؟ اپنے دل کی آواز سنی، اس پر کان دھرے ہیں؟مطالعہ کے لئے وقت نکالا ہے؟ اپنے کسی دوست کے مجبور کرنے پر کتاب میلے سے جو کتاب خریدی تھی، اسے اٹھا کر دوبارہ دیکھا؟ اپنے آپ کی تحسین کے لئے کبھی چند منٹ صرف کئے؟ کہیں سفرکیا یا کم از کم اس کا ارادہ ہی باندھا؟ اپنی عادتوں کی غلامی صرف ایک دن کے لئے ترک کی؟ روز انڈہ بریڈ کھاتے یا پراٹھا چنے کے ساتھ ناشتہ کرتے کرتے صرف ایک دن کے لئے کوئی نیا تجربہ کیا؟ ایک جیسے سیٹ پیٹرن پر، ایک جیسے طے شدہ راستوں پر چلتے چلتے کبھی کچھ مختلف کرنے کا من چاہا؟ اپنی زندگی میں کبھی نئے خوبصورت رنگ شامل کئے؟ یا ایسا کرنے کا سوچا؟
چلیں اتنا ہی بتا دیں کہ اپنے ملبوسات میں بھی وہ رنگ استعمال کئے جنہیں پہننے کا جی چاہا ہے، مگر لوگوں کی وجہ سے نہیں پہنتے؟ گھر سے نکلتے، راہ چلتے، سفر کرتے، دفتر میں آنے جانے والے، محلے میں رہنے والے ان لوگوں سے کبھی کلام کیا جن کے ساتھ تعارف نہیں۔ چلیں یہ ہی سوچیں کہ پچھلے ایک ماہ میں کتنے نئے لوگوں سے تعارف ہوا؟ جن کے ساتھ کوئی کاروباری ناتا یا مفاد کا رشتہ وابستہ نہیں، ان نئے لوگوں سے سلام دعا کا رشتہ قائم ہوا یا اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی؟
جذبات، لطیف خیالات، احساسات کبھی آپ پر غلبہ پاتے ہیں؟ کبھی کوئی فلم دیکھتے ہوئے آپ کی آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں؟ اپنی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے کی آپ اجازت دے دیتے ہیں؟ یہ سوچیں کہ آخری مرتبہ آپ کب روئے تھے؟ کسی بڑے ذاتی صدمے، کسی عزیزکی جدائی کے علاوہ کبھی آپ کی آنکھیں آنسوئوں سے آشنا ہوئی تھیں؟ کبھی ایسا ہوا کہ کسی لمحے آپ پر جذبات کو وفور ہو اور دل تیزی سے دھڑکنے لگ جائے؟ آپ نے اپنے دل کو بیماری کے علاوہ بھی تیز دھڑکنے کی اجازت دے رکھی ہے؟ کبھی احساس ہوا کہ برسوں سے جو آپ کا پروفیشن ہے، وہ آپ کو پسند نہیں؟ اپنے پیشے کو ترک کر کے کوئی اور ذریعہ روزگار بنانا چاہتے ہیں؟ اسے اپنانے کا کبھی سوچا؟ اس کے لئے رسک لینے کا سوچا؟ آخری بار آپ نے خواب کب دیکھا؟ اپنے خواب کی عملی تعبیر پانے کے لئے کھڑے ہونے کا سوچا؟ زندگی بھر میں کم از کم ایک بار سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جانے، اپنی مرضی کی زندگی جینے، تمام طے شدہ پیمانے بدل دینے، لکیریں عبور کرنے کا سوچا؟
سوال آپ کے سامنے ہیں، جواب آپ کے اپنے ہیں۔ ان کا تجزیہ بھی آپ نے کرنا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس پرچے میں سو فیصد نمبر لئے جائیں، پاس ہونے کے لئے کتنے نمبروں کی ضرورت پڑے گی، وہ بھی آپ خود ہی طے کر لیں۔ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پابلونرودا کی اس نظم کی طرح آپ بھی آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، موت کی وادی میں جانے کا سفر شروع ہے، معلوم ہوئے بغیر موت آپ پر دھیرے دھیرے اتر رہی ہے۔ آپ سلو پوائزن کا شکار تو نہیں ہوگئے؟ زندگی کے روز و شب جن میں آپ مطمئن وآسودہ ہیں، کیا یہ مردہ آدمی کے روز وشب تو نہیں۔ 
اس کالم نگارنے یہ سب صرف اسی خواہش کے تحت لکھا۔ جواب میں بھی کھوج رہا ہوں، جواب آپ بھی ڈھونڈیئے۔ جواب مل جائے تو پھر زندگی کے پرچے کو نئے انداز سے حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں