کچھ اسلامی نظریاتی کونسل کے دفاع میں

مجھے اندازہ ہے کہ آج نہایت مشکل مقدمہ ہاتھ میں لیا ہے، جسے ثابت کرنا تو دور کی بات، لوگوں کو اسے سننے پر آمادہ کرنا بھی آسان نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ہمارے ہاں تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ میڈیا میں ہمیشہ اسلامی نظریاتی کونسل کا مذاق اڑایا جاتا اور اس کے ارکان پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔
اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ پہلا سبب اس کے ارکان ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ قوانین کو اسلامی بنانے کے حوالے سے رہنمائی اور سفارشات دے اور پہلے سے موجود غیر اسلامی قوانین کی نشاندہی کرے۔ یہ انتہائی اہم ذمہ داری ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے نامور اور قابل احترام ترین علمائے کرام کو اس اہم فورم میں جگہ دی جائے۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا رہا۔ ایسے لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں جن کی سفارش سیاستدانوں نے کی یا اکثر حکومتوں کے پیش نظر یہ رہا کہ ایسے کمزور لوگ لائے جائیں، جو کوئی مسئلہ پیدا نہ کریں اور لو پروفائل رہ کر اپنی مدت گزار دیں۔ ایسے لوگ بھی ممبر بنتے رہے، جو اپنی سنگل کالم، ڈبل کالم خبر چھپوانے کے لئے اخبارات کے چکر لگایا کرتے اور انہیں اتنی جگہ بھی نہ مل پاتی۔ ظاہر ہے جب ارکان کونسل کا معیار اتنا نیچے آ جائے گا تو کونسل کے حوالے سے احترام میں بھی اسی درجہ کمی واقع ہوگی۔
اسلامی نظریاتی کونسل پر تنقید کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کی بیشتر تجاویز اور سفارشات روایتی دینی فکر کے تابع رہی ہیں۔ کئی بار یہ محسوس ہوا کہ اس کے ارکان عصری تقاضوں سے ناواقف ہیں یا کہیں علم ہے بھی تو جدید ڈکشن موجود نہیں۔ آج جب میڈیا فعال اور بریکنگ نیوزکی بیماری (سنڈروم) کا شکار ہے، بات نہایت سلیقے سے اور نپے تلے الفاظ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی زبان ذرا پھسلی، ایک آدھ غیر محتاط جملہ نکلا اور لوگ اسے لے اڑے۔ بعد میں خواہ جس قدر وضاحتیں کی جائیں، وہ بے کار ہیں۔ کسی نے پورے توازن، احتیاط اورعلمی شائستگی کے ساتھ جامع رائے دینے کی مثال ملاحظہ کرنا ہو تو وہ جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی کی ممتاز قادری کے حوالے سے گفتگو کا ویڈیو کلپ دیکھ لے۔ سوشل میڈیا پر یہ وائرل رہا اور مفتی صاحب کے مخالفین نے بھی ان کے دلکش اسلوب اور نپے تلے انداز کو سراہا۔
اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی ہیں۔ وہ رکن قومی اسمبلی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے مرکزی رہنما ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ انہوں نے مولانا شیرانی کو دانستہ مین سٹریم پالیٹکس سے ہٹا کر کونسل کے گورکھ دھندے میں الجھایا تاکہ وہ انہیں پارٹی میں ٹف ٹائم نہ دے سکیں۔ مولانا محمد خان شیرانی چہرے مہرے سے سخت گیر روایتی عالم دین لگتے ہیں۔ میڈیا سے وہ فاصلے پر رہتے ہیں، بلوچستان سے تعلق رکھنے کے باعث لاہور، کراچی کے اخبار نویسوں کے ساتھ ان کا میل ملاپ بھی نہایت کم ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی سفارش سے چیئرمین بننا بھی ان کے خلاف گیا۔ مولانا شیرانی سے ملنے جلنے والے بعض کالم نگار البتہ ان کی تعریف کرتے رہے، جسے پڑھ کر میرے جیسے لوگ ناک بھوں ہی چڑھاتے تھے۔ برادرم خورشید احمد ندیم نے بھی ایک دو بار ان کا اچھے لفظوں میں تذکرہ کیا، تو پہلی بار سنجیدگی سے یہ سوچا کہ ممکن ہے دور سے دیکھنے کے باعث ہم غلط فہمی کا شکار ہیں۔ دو تین ہفتے پہلے روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں مولانا شیرانی کا انٹرویو شائع ہوا تو پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی فکر نہایت پختہ اور کئی حوالوں سے متوازن ہے۔
تین دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کے حوالے سے بعض تجاویز کا جائزہ لیا اور ان پر غور کا تین روزہ سیشن منعقد کیا، جس کے بعد ان کی حتمی سفارشات حکومت کو بھیجی جائیں گی۔ یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف تجاویز دے سکتی ہے، اس سے زیادہ اس کا آئینی اور قانونی اختیار نہیں۔ ایسی تجاویز کے پلندوں کے ڈھیر حکومت کے پاس پڑے ہیں، جن میں سے بیشتر کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا۔ اس کے باوجود ان سفارشات میں سے کسی میں اتنا ''پوٹینشل‘‘ ہو کہ وہ میڈیا پر دو تین دن زوردار پروگرام کرا سکے یا اس کے ذریعے مذہبی حلقوں کا تمسخر اڑایا جا سکے، پنجابی سلینگ میں ''توا لگانا‘‘سمجھ لیں، ایسے تمام نکات کو اہتمام کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے، یار لوگ طنزیہ کالم لکھنے کا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔ مزے کی بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے دوسرے سیشن کے دوران جن چند نکات کی سفارش کرنے پر غور ہوا، ان میں بعض ایسے ہیں جن کی حمایت کی جرأت ماضی میں کسی عالم دین، مذہبی حلقے یا مذہبی جماعت نے نہیں کی۔ ہمارے لبرل، سیکولر حلقے پچھلے کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ مذہبی حلقے ان پر بات کیوں نہیں کرتے؟ اب جب اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم اور آئینی ادارے نے، جس کا سربراہ ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا روایتی عالم دین ہے، وہ باتیں کیں تو میڈیا نے انہیں یکسر نظرانداز کر دیا۔
چند ایک نکات بطور مثال پیش کرتا ہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں، کاروکاری یا اس طرز کے الزامات کے تحت کسی عورت کو ختم کیا جائے تو اسے قتل ہی تصور کیا جائے۔ ونی یا صلح کے لئے لڑکی کی زبردستی شادی قابل تعزیر (سزا) جرم ہو گا۔ کسی عورت کا مذہب زبردستی تبدیل کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو تین سال سزا دی جائے۔ یاد رہے کہ ہماری بیشتر این جی اوز اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ چند برسوں سے یہ الزام لگا رہی ہیں کہ سندھ میں ہندو خواتین کو زبردستی مسلمان بنایا جا رہا ہے۔ نظریاتی کونسل کے نزدیک ایسے مجرموں کو باقاعدہ سزا دی جانی چاہیے۔ عورت کی قرآن پاک سے شادی جرم ہے، سزا دس سال ہو گی۔ یہ بھی ایسا جرم ہے جس کا ارتکاب اندرون سند ھ ہو رہا ہے۔ ہمارے اکثر سیکولر لکھاری یہ طعنہ دیتے تھے کہ مولوی حضرات اس پر کیوں نہیں بولتے۔ لیجئے، اسلامی نظریاتی کونسل نے مولوی طبقہ کی نمائندگی کر دی ہے، اب اسے
قانون بنانے میں ہر ایک اپنا حصہ ڈالے۔ تین طلاقیں بیک وقت دینا قابل تعزیر ہوگا۔ یہ تجویز اگر حتمی سفارشات میں آتی ہے تو اپنی نوعیت کی انقلابی تجویز ہوگی۔ جہیزکے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہوگی۔ عورت سے زبردستی مشقت لینے پر مکمل پابندی ہوگی۔ بھٹہ مزدور خواتین کے پس منظر میں یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ ایک اور بہت اہم تجویز ہے کہ تیزاب گردی یا کسی حادثے میں کسی خاتون کی موت کی مکمل تحقیقات ہوںگی۔ عاقلہ، بالغہ عورت اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ قانوناً تو اس پر کوئی پابندی نہیں، اعلیٰ عدالتیں کئی فیصلے دے چکی ہیں، مگر دینی حلقے یا نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی جانب سے یہ بات کہنا بہت اہم ہے اور اس کا ایک خاص نفسیاتی تاثر بنے گا۔ شوہر اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر نس بندی (اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم) نہیں کر سکتا۔ ہمارے جاگیردار طبقے کے عیاش عناصر میں یہ عام رواج ہے کہ دوسری، تیسری، چوتھی شادی کر لی اور نس بندی کرا لی کہ وہاں سے اولاد پیدا نہ ہو تاکہ پہلی خاندانی بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد اعتراض نہ کرے اور جائیداد وغیرہ کا جھگڑا نہ بنے۔ اہل علم اسے عورت کا جذباتی استحصال قرار دیتے ہیںکہ ماں بننا ہر خاتون کا حق ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسئلے پر اپنی واضح رائے دے دی ہے۔ 
دو تجاویز ایسی ہیں، جن پر زیادہ اعتراض کیا گیا، ایک خواتین پر ہلکا تشدد کرنے کی اجازت والا معاملہ، دوسرا مرد مریضوں کے خواتین نرسوں سے علاج پر پابندی کی تجویز۔ ایک دو اور نکات بھی ہیں، جو ہمارے سیکولر دوستوں کو ''کانٹوں‘‘ کے طرح کھٹکتے رہیں گے، مگر یہ علیحدہ سے تفصیلی مباحث ہیں، ان کے لئے ایک اور کالم درکار ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں