طیب اردوان پر تنقید کیوں؟

ترکی کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ طیب اردوان کے حامی اپنے ممدوح لیڈر کے جارحانہ اقدامات کے حق میں نت نئے دلائل لا رہے ہیں۔ ایسی ایسی توجیہ اور توضیح پیش کی جا رہی ہے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ صریحاً ظلم اور ناانصافی کی کس طرح حمایت کی جا سکتی ہے۔ اصل میں ہمارے ہاں توازن اور اعتدال کے ساتھ رائے دینے کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے۔ لوگ ہر حوالے سے انتہائی پوزیشن اختیار کرتے اور ہر معاملے کو حق و باطل کی جنگ بنا دیتے ہیں۔ اتنی قطعیت کے ساتھ بات کرنا اور یوں تیقن کے ساتھ حمایت فرمانا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا۔ جو بات جتنی درست ہے، اتنی کی جائے۔ 
پاکستان میں طیب اردوان کے پُرجوش حامیوں میں جماعت اسلامی کے وابستگان کی خاصی بڑی تعداد شامل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو کام طیب اردوان ترکی میں کر رہا ہے، کم و بیش وہی چیزیں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد اتنی ہی عجلت سے کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والوں، حتیٰ کہ سید مودودی کی تحریریں پڑھنے والوں کو مختلف اداروں سے نکالا جا رہا ہے۔ جماعت کی پوری قیادت کو پینتالیس سال پرانے ناکردہ جرم پر یا تو پھانسی دے دی گئی یا وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے یہ سب اقدامات صریحاً ظلم، ناانصافی اور سفاکی کے ساتھ پرلے درجے کی عاقبت نااندیشی اور نادانی ہے۔ اس پر ہمدردگان جماعت دنیا بھر میں شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور سے بنگلہ دیشی حکومت کے اس ظلم و جبر کے خلاف متعدد پروگرام، سیمینار، ریلیاں ہو چکی ہیں۔ ہمارے اسلامسٹ حلقے خاص طور سے پرو جماعت لکھنے والے بڑے زور شور سے اس ظلم کو نمایاں کرتے، اس پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ ترکی میں مگر جب بنگلہ دیشی ماڈل کو دہرایا جا رہا ہے تو وہاں پر تنقید کیوں نہیں؟ ظلم تو ظلم ہے، چاہے مولانا مودودی کے چاہنے والوں پر ہو، مصر میں سید قطب اور حسن البنا شہید کے ماننے والوں پر یا سید فتح اللہ گولن کی فکر سے متاثرہ لوگوں پر۔ مصر میں سیسی کی غاصب حکومت مصر میں انتہا پسندی ختم کرنے کے نام پر اخوان المسلمون کے بے گناہ کارکنوں کو شدید ترین جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے، جو صریحاً غلط اور ظلم ہے۔
اسی طرح جناب طیب اردوان نے ناکام فوجی بغاوت کو بہانہ بناتے ہوئے ترکی میں فتح اللہ گولن کی فکر یا کتابوں کو پسند کرنے والے اسلام پسند حلقے کے خلاف بدترین کریک ڈائون کیا ہے۔ فوج کے چند دستوں نے بغاوت کی، باغیوں کے خلا ف کارروائی کرنا، فوج کے اندر آپریشن کلین اپ کرنے کی حد تک بات سمجھ آتی ہے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوا ہے کہ بغاوت کی فوجیوں نے، پولیس یا کیا قصور ہے، وہ تو ترکی کے جمہوری نظام کی محافظ اور وفادار رہی، عدلیہ کا تو دور دور تک اس سے تعلق نہیں، اس کے تین ہزار کے قریب جج کیوں نکال دیے گئے؟ اسی طرح محکمہ تعلیم کے خلاف کریک ڈائون تو ہر لحاظ سے غیر منطقی، ناانصافی اور ظلم ہے۔ پندرہ ہزار کے قریب ٹیچروں کو نشانہ بنایا، بے شمار یونیورسٹی کے پروفیسر اور اعلیٰ ترین تعلیمی منصب پر فائز درجنوں ڈین نکال دیے گئے۔ مختلف سرکاری محکموں سے اب تک ساٹھ‘ ستر ہزار کے قریب لوگ نکالے یا ملازمتوں سے معطل کئے جا چکے ہیں۔ یہ سب کچھ بغاوت کے بعد اگلے ایک آدھ دن میں ہوا۔ اتنے کم وقت میں انٹیلی جنس اطلاعات بھی اکٹھی نہیں کی جا سکتی ہیں۔
جماعت کے وابستگان کے حوالے سے مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی میں ہمیشہ جماعت اسلامی جناب نجم الدین اربکان کی حمایتی رہی۔ حتیٰ کہ جب طیب اردوان اپنے استاد اور فکری گرو اربکان کو چھوڑ کر اپنی پارٹی بنا کر اقتدار میں آ گئے اور کئی برسوں کی محنت کے بعد انہوں نے ترکی میں معاشی اعتبار سے انقلاب برپا کر دیا تھا، تب بھی جناب نجم الدین اربکان اپنے سابق شاگرد اور ساتھی طیب اردوان کے مخالف اور سخت ناقد تھے۔ اس وقت اربکان صاحب کی شخصیت کی وجہ سے جماعت اسلامی پاکستان کے احباب نجم الدین اربکان کے موقف اور نقطہ نظر کی حمایت کرتے اور ان کی پارٹی کے سالانہ اجلاسوں کے لئے پاکستان سے جماعت کے باقاعدہ وفود جا کر شریک ہوتے۔ قاضی حسین احمد نے ایک آدھ کالم میں طیب اردوان پر اشارتاً تنقید بھی کی۔ اربکان صاحب کی آج سے سات آٹھ سال پہلے کی ایک ویڈیو ہے جس میں انہوں نے طیب اردوان پر سخت تنقید کی اور ان تمام باتوں کی پیش گوئی کی جو آج ترک مرد آہن میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں‘ 2013ء کے ترکی کے انتخابات کے بعد جو زیادہ واضح ہو چکی ہیں۔ میرے خیال میں اس دیوانہ وار محبت کی ایک ہی وجہ ہے کہ اسلامسٹ حلقوں کو دنیا بھر میں تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناکامی کی کئی تکلیف دہ مثالیں سامنے ہیں، اگر ترکی کی بغاوت کامیاب ہو جاتی تو ممکن ہے ایک اور دلدوز داستان سامنے آتی اور اسلامسٹ حلقوں کے لئے پُرامن سیاسی جدوجہد کے حق میں دلائل دینا مشکل ہو جاتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طیب اردوان نے ایک ماڈرن سیاسی نظام پیش کیا۔ پاکستان میں اسلامک فرنٹ کا جو تجربہ بری طرح ناکام ہوا، ترکی میں اردوان نے کم و بیش اس طرح کے تجربے کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کرا دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طیب اردوان نے ترکی میں ڈلیور بھی کیا۔ ترکی میں معاشی انقلاب برپا ہوا، عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے وہ نکل آیا اور عام آدمی کی زندگی زیادہ آسان اور خوشگوار ہو گئی۔ ان ساری کاوشوں کے ثمرات بھی طیب اردوان اور ان کی پارٹی کو ملے۔ پچھلے سولہ برسوں سے وہ مسلسل اقتدار میں ہے۔ طیب اردوان ترکی کے مرد آہن سمجھے جاتے ہیں۔ ایک شعلہ بیان خطیب ہونے کی وجہ سے انہیں ہجوم کی نفسیات سے بھرپور آگہی ہے۔ اپنے حلقہ اثر کو انہوں نے پوری طرح ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں لوگ بھٹو صاحب کی مثال سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ بھٹو پاکستان کی جدید تاریخ کے سب سے مقبول، موثر اور طلسماتی ہالہ رکھنے والی شخصیت تھے۔ ایک بڑا حلقہ ان کا شدید مخالف اور نام تک سننے کا روادار نہیں تھا۔ بھٹو صاحب کے ووٹر مگر ان پر جان چھڑکتے اور اپنا سب کچھ فدا کرنے کو تیار رہتے تھے۔ بھٹو صاحب میں ایک خاص طرح کا طنطنہ، رعونت اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ ان کے مخالف انہیں میگلومینیا (خبط عظمت) کا شکار کہتے تھے۔ اپوزیشن، میڈیا یا تنقید کے لئے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان کے دور میں الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز قریشی، شامی صاحب، محمد صلاح الدین جیسے رائٹسٹ اور حسین نقی جیسے لیفٹسٹ بھی جیلوں میں رہے۔ میاں طفیل محمد جیسے بزرگ لیڈروں سے لے کر ملک قاسم تک ایک طویل فہرست اپوزیشن لیڈروں کی ہے جو سرکاری تشدد کا نشانہ بنے۔ خود پیپلز پارٹی کے جے اے رحیم، مختار رانا وغیرہ باقاعدہ جبر کا نشانہ بنے۔ معراج محمد خان سے ڈاکٹر مبشر تک کتنے ہی مخلص، دیانت دار لیفٹ کے لوگ پارٹی سے نکال باہر کئے گئے۔ یہ سب کچھ مگر پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنوں کو دیکھنے کے باوجود نظر نہیں آتا تھا۔ وہ بدستور بھٹو کے نعرے لگاتے اور ان کی مالا جپتے رہے۔ میرے سسر افضل مسعود ایڈووکیٹ (مرحوم) ان دنوں پیپلز پارٹی بہاولپور ڈویژن کے صدر تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ بھٹو کی ایک تھپکی، ایک شاباش ہم پر وجد طاری کر دیتی تھی۔
ترکی میں یہ مناظر دہرائے جا رہے ہیں۔ طیب اردوان کے چاہنے والے ان کی تقریروں پر مست ہو کر دھمال ڈال رہے ہیں۔ ہم جیسے ایک سائیڈ میں کھڑے تماشا دیکھتے یہی سوچ رہے ہیں کہ قدرت طیب اردوان کو بھٹو جیسے انجام سے دوچار نہ کرے۔ میاں طفیل محمد نے ایک بار انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے بھٹو دور میں حرم پاک میں بھٹو کی ہدایت کی دعا کی تھی کہ اس جیسے ذہین شخص کی صلاحیتیں پاکستان کے لئے کام آ سکیں۔ یہی دعا اس اخبار نویس کی طیب اردوان کے لئے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں