حقیقی تصوف

ہمارے ہاں جن چند چیزوں کے بارے میں بدترین قسم کے مغالطے پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک تصوف بھی ہے۔ مغالطے بھی اس قدر شدید کہ پاکستان سے باہر مقیم ایک معروف مجدد عالم دین نے تصوف کو متوازی دین قرار دے ڈالا۔ بظاہر یہ ایک بے ضرر سا جملہ ہے کہ تصوف دین (یعنی اسلام) کے متوازی سکول آف تھاٹ ہے۔ اس کا مطلب مگر یہ ہے کہ اہل تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیںاور وہ عملاً اسلام کے مقابلے میںکھڑے ہیں۔ یہ ایک ایسی خوفناک تکفیر ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ بیک جنبش زبان اتنے بڑے سکول آف تھاٹ کو دین سے نکال باہر کرنے کی جسارت، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ وابستہ ہیں اور ماضی میں امت کے بہترین دماغ اور غیر معمولی تقوے اورکردار والی شخصیات جس کے ساتھ جڑے رہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی معصومیت اور سادگی سے کیا جاتا ہے۔ تصوف کو متوازی دین کہنے والے بھی ایک لحاظ سے تکفیری ہی ہیں، مگر اپنے جدید علم کلام، معتدل وضع قطع اور بظاہر سادہ بے ضرر جملوںکی ڈھال بنائے وہ شدت پسندی کے الزام سے بچ نکلتے ہیں۔
تصوف کو سمجھنا قطعی طور پر مشکل کام نہیں۔ زمانہ قدیم میںبعض صوفیا نے دانستہ مشکل، ادق اور مبہم اسلوب اختیار کیا، زمانے کے جبر یا معاصر علما کے حسد اور تنقید سے بچنے کے لئے شاید ایسا کیا گیا۔ آج ایسا نہیں ہے، تصوف کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ عہد جدیدکے صوفیا کرام نے بات الجھانے کے بجائے نسبتاً کھول کر بیان کی۔
ڈکشن جدید استعمال کی اور پڑھے لکھے ذہنوںکو بات سلیقے سے سمجھائی۔ واصف علی واصف سے پروفیسر احمد رفیق اختر تک اور پھر لا ہور کے صوفی بزرگ سید سرفراز اے شاہ صاحب نے تو کمال کر دیا۔ سرفراز شاہ صاحب کی تصوف پر پچھلے چند برسوں میں پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں (کہے فقیر، فقر رنگ، فقیر نگری، لوح فقیر اور ارژنگ فقیر۔) اس اخبارنویس کی طالب علمانہ رائے کے مطابق تصوف کی جدید تاریخ میں ان سے بہتر کتابیںنہیں لکھی گئیں۔ طرز تحریر انتہائی سہل، رواں اور دلچسپ جبکہ ایسے ایسے نکتے باتوں باتوں میں شاہ صاحب نے بیان کر دیے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ میری درخواست ہے کہ تصوف سے دلچسپی رکھنے والے تو ان کتابوں کو ضرور پڑھیں۔ لاہور ہی کے ایک پبلشر نے یہ پانچوں کتابیں شائع کی ہیں۔ تصوف کو ناپسند کرنے والے یا اس کے خلاف چارج شیٹ مرتب کرنے کے خواہش مند بھی علمی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار انہیں پڑھ ضرور لیں، پھر جی چاہے اور ذہنی تعصبات تحلیل نہ ہو سکیں تو ضرور تنقیدکا شوق پورا کریں۔
تصوف کو رد کرنے کے لئے جن دو باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، انہیں سمجھنا قطعی طور پر دشوار نہیں۔ یہ کہ تصوف دوسرے مذاہب میں بھی ہے، یہ یونانی فلسفے کا حصہ ہے، صوفیا نے یونانی فلسفیانہ روایت کو استعمال کیا، بعض صوفیا جیسے شیخ محی الدین ابن عربی اور بعض دوسروں کے کچھ اقوال اور واقعات کا سہارا لے کر تصوف اور صوفیوں کو مرزا غلام احمد قادیانی جیسے جھوٹے اور جعلی نبوت کا دعوے کرنے والے سے تشبیہ دینا... یہ سب مغالطے ہی ہیں، جن کا ایک حلقہ شعوری یا لاشعوری طور پر اسیر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تصوف سے مراد اسلامی تصوف اور صوفیا کی علمی روایت ہی ہے۔ جب ہم تصوف کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مسلمان صوفی ہی آتے ہیں۔خاص کر پاکستانی تناظر اور اردو زبان کی علمی روایت میں کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہندو صوفی یا عیسائی اور یہودی صوفی۔ ہاںروحانیت کی اصطلاح غیر مسلم مذاہب کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ تبتی لاما، ہندو جوگی، یہودی ربی، عیسائی راہب وغیرہ۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہی ہے کہ تصوف یونانی فلسفے سے مستعار لی گئی فکر ہے۔ تصوف کے ابتدائی بزرگوں میں خواجہ حسن بصریؒ کانام آتا ہے۔ اس زمانے میں کون سا یونانی فلسفہ ترجمہ ہوچکا تھا یا پھر حضرت کس قسم کے یونانی فلسفے کا درس دیتے تھے؟ معتزلہ کے ابتدائی لوگ واصل بن عطا وغیرہ شیخ حسن بصری کے شاگرد ہی تھے، مگر ان کے سوالات دوسرے تھے اور حضرت بصری اور ان کے شاگردوں کا رویہ ان مباحث سے دور رہنے اور مریدوں کی اخلاقی تربیت پرفوکس رکھنے کا تھا۔ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہی ہے۔ بعد میں البتہ یہ ہوا کہ بعض ایسے عالی دماغ بھی تصوف کی طرف متوجہ ہوئے، جن کی دوسرے علوم کی طرح فلسفے پر بھی دسترس تھی، ان مشائخ کے کلام میں فلسفیانہ جھلک بھی آ گئی۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ تصوف کوئی فرقہ یا مسلک نہیں ہے، جس میں داخل ہونے کے لئے اس مسلک کے بانیوں یا بڑے علما پریقین لانا، ان کے اقوال کو من و عن ماننا اور اندھی تقلیدضروری ہو۔ تصوف میں قطعی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ بزرگوں کا احترام یقیناً ملحوظ رکھاجاتا ہے، صوفی توادب اور احترام کا یہ رویہ ہر ایک کے لئے رکھتے ہیں۔ شیخ اکبر(محی الدین ابن عربی)کا سب احترام کرتے ہیں، مگر ان کے اقوال یا آرا کو ماننا چنداں ضروری نہیں۔ ویسے گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تحریف کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی دوسروں کو اس جانب متوجہ یا مدعو کیا۔ بعض نے تو لکھنے کے بجائے ایک محدود حلقے میں اپنے مشاہدات بیان کئے، اس ہدایت کے ساتھ کہ انہیں نقل نہ کیا جائے، شیخ شرف الدین یحیٰ منیری نے اپنے ایک مرید کوجس کا دور دراز کے علاقے میں تبادلہ کر دیا گیا تھا، اسے خطوط لکھے، یہ کہہ کر کہ خط ضائع کر دیے جائیں۔ بعد میں ایسا نہ ہوسکا اور آج راہ سلوک کے مسافروں کو مکتوبات صدی اور مکتوبات دو صدی جیسی شاہکار کتب میسر ہوئیں۔ بات پھر وہی کہ تصوف اپنی حقیقت میں ایک طرح کا پری نرسری سکول ہے، جس کا مقصد طالب علم کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ شریعت کی راہ پر 
بخوبی چل سکے، اس کے اندر احسان کی کیفیت پیدا ہوسکے۔ جس مرد جری کو اس کی ضرورت نہیں، وہ اپنے اندر پہلے ہی سے وہ خوبیاں رکھتا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ تصوف ہر ایک کے لئے لازم ہے بھی نہیں، صوفیوںنے کبھی اس کا دعویٰ نہیں کیا۔ جسے ضرورت ہو، اس کی تربیت کے لئے البتہ وہ دستیاب رہے۔
اوپر لاہور کے صاحب عرفان صوفی بزرگ سرفراز شاہ صاحب کا تذکرہ آیا۔ خاکسار کوشاہ صاحب کی محفلوں میں شرکت کی سعادت حاصل رہی، ان کے بہت سے لیکچرز براہ راست سنے۔ ہم نے شاہ صاحب سے تصوف کی یہی تعریف سمجھی اور سیکھی کہ صوفی دوسروں کے لئے سراپا خیر رہتا ہے، اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرتا اور دوسروںکے ذمے اپنے حقوق میں اصرار نہیں کرتا۔ خود ڈیڑھ دو سو فیصد تک جا کر ذمہ داریاںپوری کرنا اور دوسروں کو رعایت دینا جس کا اصول ہو۔ ایثار اور قربانی جس کا شیوہ اور سنت محمدیﷺجس کے نزدیک رول ماڈل ہے۔ اگلے روز حضرت یعقوب علی شاہ وارثی، صابری، چشتی کے عرس مبارک میں سرفراز شاہ صاحب کی گفتگو سنی۔ انہوں نے دو نکتے بیان کئے۔ ایک تو یہ کہ کسی کا عرس منانے کا اصل طریقہ اس کی شخصی خوبیوں کو کاپی کرنا اور اپنے اندر وہی خصوصیات پیداکرنے کی کوشش کرنا ہے ۔ دوسرا یہ کہ حقیقی صوفی یا درویش کی پہچان یہ ہے کہ وہ وعظ نہیں کرتا، نصیحتوں کے بجائے عمل کر کے دکھاتا ہے۔کسی کو غیبت سے منع کرنے کی تقریر کے بجائے وہ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتا، اس کا اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ سرفراز شاہ صاحب کی طبیعت آ ج کل ٹھیک نہیں، دل کے عارضے نے ان کی توانائیاں نچوڑ لی ہیں۔ تین سال قبل اٹیک میں ان کے دل کا تہتر فیصد حصہ ڈیڈ ہوگیا تھا۔ باقی ماندہ سے وہ اپنی بے پناہ مصروفیات نبھا رہے ہیں، جس میں ہفتے کے تین دن چھ سات گھنٹے تک دعا کے لئے بیٹھنا بھی شامل ہے۔ یعقوب علی شاہ صاحب ان کے مرشد تھے، اس لئے شدید حبس کے باوجود میانی صاحب میں غازی علم الدین شہید کے مزار کے قریب واقع یعقوب شاہ صاحب کے مزا ر پر عرس کی تقریب میں وہ شامل ہوئے۔ یعقوب علی شاہ صاحب 1986ء میں فوت ہوئے ۔ جن لوگوں نے اس مرد درویش کو دیکھا، وہ ان کی خودداری، درویشی اور شان بے نیازی کے عجیب قصے سناتے ہیں۔ آخری عمر تک یعقوب شاہ صاحب اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرکے کماتے رہے،کبھی شربت بنا کر ٹھیلا لگاتے رہے، کبھی کچھ اور، مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، نذرانہ لیا نہ ہی کسی کو دینے کی جرأت ہوتی۔ الٹا ملنے آنے والوں کو ہاتھ سے بنی مزیدار چائے پلا کر بھیجتے۔ یہ حقیقی صوفی کی شان ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کو دیتا ہے، ان سے لیتا نہیں۔ محنت میں عظمت کا وہ درس نہیں دیتا، عملی طور پر ثابت کر دکھاتا ہے۔ اللہ کے توکل کے واقعات سنانے کے بجائے توکل کی عملی تفسیر پیش کرتا ہے۔ تصوف کا سکول آف تھاٹ دراصل ایسے ہی حقیقی صوفیوں کی وجہ سے چلا اور انشااللہ جاری رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں