دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو

کئی ماہ پہلے کی بات ہے عالمی شہرت یافتہ موٹی ویشنل سپیکر اور مائنڈ میپ تکنیک کے بانی ٹونی بوزان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹونی کے ساتھ تین چار گھنٹوں کی نشست رہی، جس کے دوران کئی کتابوںکے مطالعہ سے بھی زیادہ باتیں سیکھیں۔ ٹونی بوزان نے سکندر اعظم کا واقعہ سنایا کہ جب وہ کوئی معرکہ جیت جاتا تو تھکا ہارا اورکبھی زخمی ہونے کے باوجود اپنے شاہی خیمے میں نہ جاتا۔ سکندر عام سپاہی کا لباس پہن کر اپنے چہرے پر کچھ کالے نشان لگا لیتا تاکہ پہچانا نہ جائے اور پھر لشکر کے مختلف حصوں میں جاتا۔ عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھتا، ان کی تکلیف کو محسوس کرتا، ان کے مائنڈ سیٹ اور احساسات کا اندازہ کرتا۔ باتوں باتوں میں ان سے جنگ کا فیڈ بیک لیتا اور پھر رات گئے اپنے خیمے میں جا کرغسل کرتا، شاہی لباس پہن کر باہر آتا، سپاہیوں کو جمع کرتا، ایک چبوترے پر کھڑا ہو کر ان سے خطاب کرتا اورکہتا: ''آج ہم جنگ جیت گئے ہیں، مگر مجھے اندازہ ہے کہ لڑائی کتنی سخت رہی، تمہارے کچھ دوست کام آئے، کچھ زخمی ہوئے، تم لوگوں کا بھی لہو بہا، مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہی تھا، میرا بھی خون نکلا، میرے بھی عزیز دوست نشانہ بنے، مگر آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جنگ جیت گئے۔ اپنی غلطیوں کو ہم نہیں دہرائیںگے اور اگلی جنگ اس سے بہتر انداز میں لڑیں اور جیتیںگے‘‘۔ اس کے بعد سکندر اعلان کرتا کہ اگلے تین دن جشن کے ہیں۔کسی سپاہی پرکوئی روک ٹوک نہیں، خوب کھائوپیو، جو مرضی آئے کرو، جی بھر کر جشن منائو۔ اس انداز میں سپاہیوںکے دلوں کو چھونے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کی وجہ سے یونانی فوج سکندرکو دیوتا مانتی اور اس کے پسینے پر خون بہانے کو تیار رہتی۔
عمران خان نے بدھ کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ مجھے خیال آیا کہ کیا یوم تشکر منانے سے پہلے گزری رات عمران خان نے بھی اپنی پالیسیوں، حالیہ حکمت عملی کا تجزیہ کیا یا یہ رات بھی عام راتوں کی طرح گزرگئی؟
عمران خان کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا جائے تو بعض چیزیں اس نے حاصل کی ہیں اورکچھ نقصانات بھی ہوئے۔ سب سے اہم یہ کہ وہ ایک بار حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرا۔ اس پورے احتجاج کے دوران ملک بھر پر یہ واضح ہوگیا کہ اچھا یا برا، جذباتی یا دانشمند، کم عقل یا عقلمند کی بحث سے قطع نظر اپوزیشن لیڈر وہ اکیلا ہی ہے۔ واحد شخص ہے جو میاں نواز شریف کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا اور اپنی کمزور تنظیم کے باوجود ان پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ایک بار پھر پیچھے چلی گئی ہیں، خاص کر پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا پہنچا۔ پنجاب سے پہلے ہی فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا، اب بلاول بھٹو کو میدان میں اتارکر اور اس سے جذباتی تقاریر کروا کے کچھ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پہلے یہ کہا کہ ستائیس دسمبر سے پیپلز پارٹی لانگ مارچ شروع کرے گی، پھر جب دیکھا کہ عمران بہت آگے نکل گیا ہے اور کہیں میدان مار نہ لے تو پھرجلد بازی میں سات نومبر سے احتجاج کرنے کا اعلان ہوا، مگر اب تحریک انصاف کا احتجاج ختم کرنے سے پیپلزپارٹی کے پاس کچھ نہیں بچا۔ جماعت اسلامی کو بھی دھچکا لگا؛ حالانکہ جماعت نے اس حوالے سے کچھ بھاگ دوڑ کی تھی۔ سپریم کورٹ میں وہ سب سے پہلے گئے، سراج الحق واحد سیاسی لیڈر تھے جو یکم نومبر کو سپریم کورٹ پہنچے۔ کرپشن کے خلاف جماعت احتجاجی جلسے بھی کر رہی ہے؛ تاہم سپریم کورٹ میں بڑا فریق تحریک انصاف ہے، کریڈٹ بھی اسی کو جائے گا۔ 
عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے پروفیشنلزکو عملی سیاست میں لے آیا۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ ہر معاشرے کی کریم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، آئی ٹی پروفیشنلز، سافٹ ویئر ڈویلپرز، اداکار، فیشن ڈیزائنر، ٹیچر اور دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے لوگوں کو صرف تحریک انصاف ہی سیاست کی طرف کھینچ لائی ہے۔ پہلے یہ صرف ووٹر تھے، اب پہلی بار انہیں ماریں کھانے اور پولیس کی آنسو گیس شیلنگ کا بھی تجربہ ہوا۔
تیسری کامیابی ممکنہ پاناما کمیشن کے حوالے سے ہے۔ عمرا ن خان نے اپنے دبائوکے ذریعے تین چار وہ باتیں حکومت سے منوا لی ہیں جو اس سے پہلے نوازشریف صاحب ماننے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر میاں صاحب اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہتے تھے، اب یہ کمیشن سپریم کورٹ کی مرضی سے بنے گا۔ حکومت اس کمیشن کا دائرہ کار متعین کرنے پر بضد تھی، اب یہ دائرہ کار سپریم کورٹ طے کرے گی۔ میاں صاحب اور ان کے اتحادیوں کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ اگر کمیشن بن جائے تو اس کا فیصلہ حکومت پر بائنڈنگ نہ ہو، سپریم کورٹ نے پہلی شرط ہی یہ منوائی کہ دونوں فریق اس کا فیصلہ مانیں گے۔ پاناما لیکس والے معاملے کو سات آٹھ ماہ ہوگئے، ابھی تک میاں نواز شریف کی طرف سے اس کا کوئی باقاعدہ جواب آیا تھا اور نہ ہی وہ ٹی او آرز طے کرنے دے رہے تھے، اب حکومت یہ جواب دینے کی پابند ہے اور ٹی او آرزکے حوالے سے بھی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔
عمران نے خاصا کچھ کھویا بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بری طرح ایکسپوز ہوئیں۔ درست کہ پنجاب حکومت نے بڑی بے رحمی سے تشدد کیا اور پکڑدھکڑ کی، مگر کسی بھی احتجاجی تحریک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو انصافی کارکنوں کو تسلیم کرنی چاہیے۔ وہ کوئی ایک شہر بھی بند کرنے کی سکت اور استعداد نہیں رکھتے۔ پنجاب سے جتنے لوگ نکلنے چاہیے تھے، نہیں نکل پائے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جن لیڈروں نے اپنے شہروں سے کارکنوں کو موٹی ویٹ کر کے باہر نکالنا تھا، وہ سب تو بنی گالہ پہنچ گئے تھے۔ وقت سے پہلے ان کے جانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ اگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جلوس لے کر نہ چلتے تو تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا بھرم بھی رکھنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کی اپنی پالیسی بھی سمجھ نہ آنے والی تھی۔ انہیں اب عوامی سیاسی لیڈر بننے کے گر سیکھنے چاہئیں۔ انہیں باہر نکل کر اپنے کارکنوں کا ساتھ دینا اور پولیس کے ساتھ سینگ پھنسانے چاہئیں۔ نجانے وہ کیوں دو نومبرکے چکر میں گھر بیٹھے رہے جبکہ پورے ملک میں کارکن مار کھا رہے تھے،گرفتاریاں دے رہے تھے۔ خاص کر جب بنی گالہ کے باہر خواتین تک کو پولیس پکڑ رہی تھی، تب عمران خان کو باہر آنا چاہیے تھا۔ ان کے اس رویے سے بہت سوںکو مایوسی ہوئی۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی پہلی، دوسری صف میں خاصی صفائی کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں سے فوری طور پر جان چھڑا لینی چاہیے۔ ایسی بدنامی پر ایک کیا ایم پی اے کی کئی سیٹیں قربان کی جا سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کونئے سرے سے اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، اس پر انشاء اللہ تفصیل سے بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں