کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟

پچھلے دو تین ماہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما ، کارکن اور میڈیا میں ان کے حامی لکھاری بڑے شدومد سے عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے تشبیہ دے رہے تھے۔اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈائون کی دھمکی کے بعد زیادہ جوش وخروش سے عمران اور ٹرمپ میں مماثلت ڈھونڈی جانے لگی تھی۔ اس وقت تک ن لیگ والوں کا یہ خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضحکہ خیز شخصیت ہے اور الیکشن ڈے کے بعد وہ ناکامی کی ایک علامت بن کر سامنے آئے گا۔ ٹرمپ کی ممکنہ ناکامی کو عمران خان کے خلاف بطور حربہ استعمال کرنے کی سوچ بھی کہیں کارفرما تھی۔معلوم نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر ٹرمپ کی کامیابی سے کیا قیامت گزری ، مگراب ٹرمپ کا طعنہ دینا ختم ہوچکا ہے۔ 
عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موازنے میں ویسے حرج کوئی نہیں، اب تو خیر وہ جیتے ہوئے گھوڑے ہیں توہر کوئی ان کی مثال دینا چاہے گا۔ دو تین باتیں تو دور سے ہی مشترک نظر آ رہی ہیں۔ دونوں ہی منہ پھٹ اور تیزدھار تبصرے کرنے کے شائق ہیں۔ ٹرمپ نے بھی بہت سے ایسے تبصرے کر رکھے ہیں ،جنہیں پڑھ یا سن کر حیرت ہوتی ہے۔ادھر اردو محاورے کے مطابق خان صاحب کی زبان کے آگے بھی خندق نہیں۔ اکثر وہ بولنے کے بعد ہی اس پر غور فرماتے ہیں، پھر ان کے ساتھیوں کو تاویلیں د ے کر بات سنبھالنا پڑتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام رہا کہ وہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر خطاب نہیں کرتے۔ 
ایک آدھ اور کامن پوائنٹ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، مگر دیانت داری سے جائزہ لیں تو نومنتخب امریکی صدر اور پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میں بڑا واضح فرق موجود ہے۔ کئی اہم امور پر دونوں کی آرا ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اعلانیہ قسم کے نسل پرست ہیں، ان کی انتخابی مہم پر بھی وائٹ مین سپرمیسی (سفید فام کی بالا دستی)کے اثرات نمایاں رہے ۔عمران خان کی سیاست میں نسل پرستی یا قوم پرستی کے جذبات موجود نہیں ۔پھر ٹرمپ کی تیز زبان کا نشانہ معاشرے کے کئی طبقات بنے، تارکین وطن پر وہ گرجتے برستے رہے،اسلاموفوبیا کا شکار نظر آئے،میکسیکو سے آنے والوں پر تیر برساتے رہے، خواتین ان کے خاص کرم کا نشانہ بنیں، ٹی وی اینکرز کے حوالے سے نہایت معیوب جملے کہہ ڈالے ۔ایسی باتیں جن کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کے زبانی حملوں کا ہدف سیاسی نظام، سٹیٹس کو کی روایتی سیاست کرنے والی جماعتیں ، خاص کر حکمران جماعت اور شریف خاندان ہے۔ایک میڈیا گروپ اورالیکشن کمیشن پر بھی برستے رہے اور بلاسوچے سمجھے پینتیس پنکچر والی بات اعلانیہ کہہ ڈالی ، یہ ادراک کئے بغیر کہ اگرالزام درست ہو، تب بھی اسے ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے، بعد میں پھر معذرت کرنا پڑی۔ٹرمپ کے برعکس خواتین کے حوالے سے خان کا رویہ بہت شائستہ اور مہذب رہا۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی عامیانہ بات بھی نہیں کی۔
عمران خان کے حوالے سے ان کے مداحین اور حامی البتہ یہ دعا ضرور کر سکتے ہیں کہ جس نہج پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں کامیابی حاصل کی، اسی طرح تحریک انصاف کے قائد بھی میدان مار لیں۔ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے روایتی ماڈلز کی نفی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بے پناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنئے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز STORIES SUCCESS موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لئے ہیں۔ سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل ، دلنواز مسکراہٹ ، تجربہ کار ٹیم ، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی ، آئیڈیل لیڈی ،ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی تھی ۔نتیجہ ہر ایک کی امیدوں کے برعکس نکلا۔
ٹرمپ ایک اینٹی ہیروہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے ، جھگڑالو، تیز مزاج ، برداشت نہ کرنے والے ، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے ، ناتجربہ کار۔ جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے ، اپنے کاروباری ادارے۔ ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں، تمام ترمنفی امیج کے باوجود ہیلری کلنٹن کے سحرانگیز امیج کو پاش پاش کیا اور ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔ہنستی مسکراتی دیوی ہار گئی اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔ 
اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں،صاف لباس، تجربہ کار مشیروں ، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی ، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔ کیا ہیلری کلنٹن کی مانند ان''کامیاب سیاستدانوں‘‘کو شکست دی جا سکتی ہے؟ جواب میں ہاں کہا جا سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ کئی اگر مگر بھی ہیں۔ 
ٹرمپ نے عام امریکیوںکو اپنی طرف متوجہ کیا۔دیہات، چھوٹے شہروں، پسماندہ ریاستوں میں مقیم امریکی جوپچھلے دو تین عشروں سے ترقی کی شاہراہ پر دوسروں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بے روزگاری، غربت اور محرومی کے سائے جن پر منڈلا رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان کے لئے فراموش لوگوں ( Forgotten Peoples )کی اصطلاح استعمال کی ۔ وہ انتخابی ایجنڈا سیٹ کیا، جس نے ان کے دل جیت لئے، انہیں متحرک کیا اور الیکشن کے دن دیوانہ وار باہر نکلنے پر آمادہ کیا ۔ انہی لوگوں نے ہیلری کلنٹن سے یقینی جیت چھین لی۔ایسے فراموش لوگوں کی تعداد پاکستان میں امریکہ سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں بھی محرومی اور مسائل کی کمی نہیں۔ کراچی، لاہور، پنڈی جیسے شہروں میں بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ایسی زندگی گزار رہے ہیں،جس میں کوئی رس، ذائقہ یا خوشی نہیں۔ چھوٹے شہروں کے مسائل بے پناہ ہیں، ملک کے کئی علاقوں میں دیہات کے لوگ ایک صدی پرانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، انصاف اور امن عامہ کو وہ ترس رہے ہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے لئے اعلیٰ تعلیم، سستا علاج اور باعزت روزگار ایک خواب بن چکا ہے۔ عمران خان ان فراموش شدہ لوگوں کے دلوں کی آواز بن سکتا ہے۔ خان نے کرپشن کو بڑے زوردار طریقے سے ہدف بنایا اور اسے نیشنل ایجنڈا بنا دیا۔ الیکشن اصلاحات پر اس نے بھرپور طریقے سے بات کی۔ تعلیم، صحت، صاف پانی ، روزگار، تھانہ کچہری کے معاملات، پٹواریوں کے مظالم اور سسٹم کی بے حسی کو اب ایجنڈا بنانے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے عام پاکستانی کے مزاج ، جذبات اور خواہشات کا ادراک کرنا ہوگا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز کی سوچ ہوسکتی ہے۔ اندرون سندھ کا رہنے والا، جنوبی پنجاب کے باسی ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے حرماں نصیب لوگ ، حتیٰ کہ سنٹرل پنجاب کے عام آدمی کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان سب کو سمجھنا، انہیں بھرپور انداز میں اٹھانا اور ایک اچھا ٹھوس پلان دینے کی ضرورت ہے۔ ووٹر کو علم ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان کو جتوایا گیا تو ملک میں کیا تبدیلی آئے گی؟ اسے یقین ہوجائے کہ ایسی صورت میں نظام بدل جائے گا، تھانہ ، کچہری، پٹوار کے مظالم ختم ہوجائیں گے، انصاف ملنے لگے گا اور کاشت کار کی جھکی کمر ایک بار پھر سیدھی ہوجائے گی ... ایسی صورت میں ٹرمپ جیسا معجزہ پاکستان میں بھی تخلیق ہوسکتا ہے۔ جب عام آدمی دل وجاں سے کسی کی حمایت میں اٹھے، تب مخالف کی میڈیا مینجمنٹ، اربوں کی انتخابی مہم، سسٹم کی سپورٹ بھی کام نہیں آتی ۔تب کامیابی کی مثالیں دھندلا جاتیں اور جگمگاتے پیکر اپنے رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے یہ ایک مثبت بات تو سیکھ سکتے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں