ضائع نہ ہونے والا عمل

''کسی اور چیز کا علم نہیں، مگر یہ بات یقینی ہے کہ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، زمین اور آسمان کے درمیان یہ اس وقت تک معلق رہتی ہے، جب تک اپنے ہدف کو نہ پالے۔‘‘گھنگھریالے بالوں والے شخص نے مسکرا کر یہ بات کہی، اس کے لبوں پر مسکراہٹ مگر آنکھوں میں نمی جھانک رہی تھی۔ اس نے جھک کر سامنے رکھی میز سے اپنامگ اٹھایا ، جھاگ دار کافی کاسِپ لیا اور خاموش ہوگیا۔ میز کے گرد بیٹھے ہم تینوں دوست ساکت بیٹھے تھے۔ باہر شام کے اندھیرے گہرے ہور ہے تھے ،ہم لوگ ایک ٹرانس میںتھے ، اردگرد سے بے نیاز۔ 
یہ تین برسوں پہلے سردیوں کی ایک شام تھی۔ انگلینڈ سے ایک دوست ملنے آئے تھے، ان کے ساتھ دو اور مہمان بھی تھے۔ایک پرسکون کیفے میں کافی پینے ہم چلے گئے۔ گپ شپ ہو رہی تھی۔مکمل یاد نہیں کہ کس نے سوال پوچھا ،جس کے جواب میں گھنگھریالے والے ایک مہمان نے کہا ، میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ سناتا ہوں، جس نے میری زندگی تبدیل کر دی اور ساتھ ہی نیکی پرکبھی ختم نہ ہونے والا یقین قائم کر دیا۔ کہنے لگے:''میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ پڑھا لکھا، متوسط درجے کا خاندان ، جہاں تعلیم ، اخلاقیات اور شائستگی کے حوالے سے بچوں کو خاص تلقین کی جاتی تھی۔ والد ہ محدود وسائل کے باوجود لوگوں کی مدد کرنے کی قائل تھیں۔ انہیں پتہ چلتا محلے میں کوئی خاندان مالی مشکلات کا شکار ہے تو اپنے بساط کی حد تک ان کے کام آنے کی کوشش کرتیں۔ گھر میں کچھ اچھا پکتا تو وہاں ضرور بھجواتیں۔ اس گھر میں سلائی کرنے والی خواتین ہیں تو پھر ہمارے گھر کے تمام کپڑے ادھر ہی سلنے جاتے۔ کسی اور طریقے سے مدد ہوسکتی تو کبھی پیچھے نہ ہٹتیں۔‘‘
ویٹر نے بھاپ اڑاتی کافی کے بڑے مگ لا کر ٹیبل پر رکھ دئیے۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد مہمان نے اپنی بات جاری رکھی،'' والد درویش طبع ملازم پیشہ انسان تھے ، یہی تلقین کرتے کہ ہمیشہ زندگی میں دوسروں کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھو۔ والد مرحوم ہم بچوں کو ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے ،جن کے پاس قبیلے کا ایک شخص مدد کے لئے آیا، وہ سن کر بے اختیار رو پڑے ۔ سائل نے سوچا کہ شائد ان کے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے، جس کی ندامت سے آنسو پھوٹ پڑے۔اس نے معذرت کی اور کسی اور در جانے کا قصد کیا۔ بزرگ بولے ، میں تمہاری حاجت پوری کرنے کی قوت رکھتا ہوں او ر کروں گا۔رنج مجھے اس پر پہنچا کہ تمہیں دست طلب دراز کرنے کی ضرورت کیوں کر آئی، مجھے ازخود تمہاری ضرورت کا اندازہ کر کے مدد کرنی چاہیے تھی۔ والد صاحب کہا کرتے کہ سب سے افضل کام کسی سفید پوش کا بھرم رکھنا اور اس کی ایسے مدد کرنا ہے کہ عزت نفس مجروح ہو نہ ہی اسے کسی بوجھ کا احساس ہو۔ والدہ مرحومہ گھر آئے سائل کو کبھی خالی ہاتھ واپس نہ کرتیں۔ کچھ نہ کچھ ضرور مدد کی جاتی۔ ہمارے گھر میں ایک لکڑی کا باکس تھا، جیسے بعض مساجد میں چندہ جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اس میں والدہ ہر روزتمام گھروالوں کا
صدقہ نکال کر ڈال دیتیں، چاہے وہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔کبھی زیادہ،کبھی کم، مگر اس باکس میں روزانہ سکے اور نوٹ گرتے رہتے۔ یہ باکس صرف سائلوں کے لئے وقف تھا۔‘‘
''والدین کی تربیت تھی، عملی زندگی میں آنے کے بعد انہی اصولوں پر کاربند رہا۔ اچھی جاب مل گئی تھی، اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ ضرورت مندوں کے لئے مختص کر رکھا تھا۔ دفتر میں کسی کی مشکل کا پتہ چلتا، خاموشی سے جا کر اس کی مدد کر دیتا۔ معاملات یوں ہی چلتے رہے، شادی ہوگئی، پھر بچوں نے آ کر زندگی مزید خوبصورت بنا دی۔ انہی دنوں ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی، جس نے آگے مزید غلطیوں کو جنم دیا۔ ایک کولیگ کے کہنے پر کریڈٹ کارڈ بنا لیا۔ کارڈ ہاتھ میں آیا تو جو راشن محلے کی دکان سے لیا کرتے،ا س کی جگہ بڑے سٹورز کا انتخاب کرنے لگے۔ وہاں جاتے پانچ چیزیں لینے، پندرہ اٹھا لاتے۔کریڈٹ کارڈ کے ساتھ مسائل کی ڈور بندھی ہوتی ہے،
خاص طور سے جو آدمی زیادہ ڈسپلنڈ نہ ہو اور اپنی خریداری کو کنٹرول نہ کر پائے۔ میں ایسا ہی کرتا گیا، کچھ بڑی شاپنگ بھی ہوگئی ،کارڈ کی قسطیں نہ دی گئیں تو اگلی بار ڈبل قسط ہوجاتی۔ ایک اور کریڈٹ کارڈ لیا گیا، پھر تیسرا اور نوبت چوتھے کریڈٹ کارڈ تک آگئی ۔ حال یہ ہو گیا کہ کارڈز کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی تنخواہ کے ساٹھ ستر فیصد تک جا پہنچی۔ اگر قسطیں دے دی جائیں تو پھر گھر کیسے چلایا جائے؟ مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز،روز مرہ اخراجات...غرض ایک وقت ایسا آگیا کہ کوئی بھی بینک مجھے مزید قرضہ یا کارڈ نہیں دے رہاتھا۔یوں لگنے لگا کہ گردن کے گرد پھندا تنگ ہو رہا ہے ، اخباروں کی وہ خبریں یاد آنے لگیں جس میں کسی مقروض نے قرض خواہوں کے دبائو سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ ایک دن میں نے اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کی، میرے رب تو جانتا ہے کہ اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اپنی استطاعت کے مطابق ہر ایک کے کام آتا رہا، ہر ایک سے بھلائی کی، کبھی کسی کے خلاف سازش کی نہ منفی بات۔میرے والداور والدہ بھی تمام زندگی لوگوں کی مدد ہی کرتے رہے۔اے رحیم وکریم رب، میرے والدین اور میری وہ نیکیاں جو آپ کو پسند آئی ہوں، ان کے صدقے ہی میرا یہ بحران ختم کر۔ یہ دعا مانگ کر بڑا سکون محسوس ہوا، سو گیا۔ آدھی رات کو پانی پینے اٹھا۔ موبائل پر سعودی عرب میں مقیم ایک پرانے دوست کا میسج تھا، انہوں نے لکھا کہ میں اس وقت حرم پاک میں موجود ہوں اور آپ کے لئے بھی دعا کی ہے۔یہ ٹیکسٹ میسیج مجھے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ جوابی میسیج کیا کہ براہ مہربانی حرم میں جا کر دعا کریں کہ رب تعالیٰ میرے قرضے اتارنے کا کوئی سبب بنا دے ۔
''روٹین میں وہ میسیج بھیج کر دوبارہ سو گیا۔ صبح اسی دوست کے چھوٹے بھائی کا فون آیا۔ انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، شام کو ہم ملے۔ دوست کے بھائی نے کہا کہ بھائی جان نے آدھی رات کو مجھے جگایا اور آپ سے قرضوں کی تفصیل معلوم کرنے کا کہا ہے۔ آپ بتائیں کہ کس کا کتنا قرضہ دینا ہے۔ میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ ان کے اصرار پر انہیں اپنے کریڈٹ کارڈز کے قرضوں کا بتایا اور بعد میں وہ تفصیل لکھ کر ای میل کر دی۔ دوست کے بھائی نے مختصراً کہا کہ آپ پیسے لیں اور قرضہ اتار کر کارڈز ختم کرادیں۔ ایک ایک کر کے یہ کام کرتے جائیں اور بنک کی رسید کی کاپی مجھے بھیجتے جائیں ، یہ اس لئے کہ پیسے قرضہ اتارنے پر ہی خرچ ہوں، کہیں کسی اور جگہ نہ لگ جائیں۔قرضوں کے جس بوجھ تلے دب کر مرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، وہ ایک ہفتے میں بالکل صاف ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ میں باہر جانے کا موقعہ بن گیا اور یورپ چلا گیا۔ اب وہاں سیٹل ہوچکا ہوں۔ ایک بات ہمیشہ کے لئے سیکھ لی ہے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ ضرورت مندوں کے لئے ہمیشہ مختص کیا جاتا رہے ، یہ کام خاموشی اور سلیقے سے کیا جائے ، جیسا کہ حکم ہے کہ دائیں ہاتھ سے دو اور بائیں کو بھی خبر نہ ہو۔ جس رب کے لئے کیا جا رہا ہے، وہ جانتا ہے اور اس سے بہتر کاروباری کوئی نہیں۔ وہ اصل زر کئی گنامنافع کے ساتھ اسی دنیا میں لوٹا دیتا ہے، روز آخرت جو اجر ملے گا، اس کا تو ہمیں اندازہ بھی نہیں۔ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، زمین اور آسمان کے درمیان وہ معلق رہتی ہے، جب تک وہ بھلائی کرنے والے کو اس کا ثمر نہیں مل جاتا۔ ‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں