کیا حکمران ناقابل تسخیر ہوچکے ؟

پچھلے چند دنوں سے مسلم لیگ ن کے حامی حلقے یہ بات شدومد سے دہراتے نظر آ رہے ہیں کہ اب میاں نواز شریف کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔ جس روز نئے چیف نے اپنی ٹیم کا اعلان کیا ، اس روز سوشل میڈیا پر دلچسپ سماں تھا۔ تحریک انصاف کے حامیوں میں صف ماتم بچھی ،مورال انتہائی نچلی سطح کو چھو رہا اور ان کی پوسٹوں میں حزن وملال کے رنگ گھلے تھے۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے متوالوں کی باچھیں کھلی پڑی تھیں، مسکراہٹیں ان کے چہروں اور پوسٹوں سے عیاں اور خود اعتمادی چھلک رہی تھی۔ اگلے روز ایک صحافی دوست نے میسیج بھیجا ،'' پی ٹی آئی کے دوستوں کو کہہ دیں کہ وہ اگلے انتخاب میں عبرت ناک شکست کے لئے تیار ہوجائیں ، میاں صاحب کے لئے 2023ء تک حکمران رہنے کا راستہ ہموار ہوگیا اور اب سب ملک کو تیزی سے ترقی کے منازل طے کرتادیکھے گا۔‘‘ کیا وا قعی ایسا ہی ہے اور جیسا کہ مسلم لیگی حلقے سوچ رہے ہیں، میاں نواز شریف ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں، کارکنوںاور ووٹرز کی رائے اس سے مختلف ہوسکتی ہے، انہیں اس کا پورا حق حاصل ہے، سیاست چلتی ہی خوش گمانی اور پرامیدی پر ہے۔یہ بات البتہ انہیں بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو دو تین ایسے بڑے ایڈوانٹیج حاصل ہوچکے ہیں ،جن کے بعد تحریک انصاف کو میدان مارنے کے لئے معمول سے ہٹ کر کچھ غیرمعمولی کر دکھانا پڑے گا۔ کسی نے لکھا، نون لیگ کی عمر پوری ہوچکی۔جو دلائل انہوں نے دئیے، ان میں وزن ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس کی جگہ کون لے گا؟ جب تک دوسری کوئی جماعت بھرپورتیاری کے ساتھ متبادل کے طور پر نہیں ابھرتی، تب تک اپنی کمزوریوں اورخامیوں کے باوجود حکمران جماعت کو ہٹانا آسان نہیں۔ بھارت میں کانگریس اپنی تمام تر نالائقیوں کے باوجود اقتدار پر قابض رہی ، جب تک بی جے پی متبادل کے طور پر نہیں ابھری۔ پہلے واجپائی جیسے تجربہ کارسیاستدان کی زیرقیادت، مختلف علاقوں میں اچھے جوڑتوڑ اور مقامی سطح کے اتحاد بنا کر کانگریس کو شکست دی۔ اس بار نریندر مودی کی طاقتورشخصیت، کارپوریٹ ورلڈ کی بھرپور سپورٹ ، عوام کی نظریں چندھیا دینے والے پرکشش اقتصادی ایجنڈے کے بل بوتے پر بی جے پی نے میدان مار لیا۔ مودی کا جادو کارگرنہیں ہو پارہا، بڑے کرنسی نوٹوں کواچانک ختم کر کے انہوں نے جوا کھیلا، وہ ان کے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کی داخلی کمزوریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ قومی سطح پر بی جے پی کا متبادل نہیں بن پارہی۔ووٹر کے سامنے متبادل آنا ضروری ہے، تب ہی وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرتا ہے۔ متبادل سیاسی قوت کمزور ، ناقابل اعتماد اور منتشر خیالی سے دوچار ہو، تب معجزے رونما نہیں ہوسکتے۔
تین چار پہلو ایسے ہیں، جن میں میاں صاحب کو اپنے حریف پر برتری حاصل ہے۔ مسلم لیگ ن نے پچھلے انتخابات میں دو تین وعدوں پر خاص طور سے زور دیا تھا۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے،معاشی ترقی اور بڑے ترقیاتی منصوبے ۔ مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے زیادہ توجہ بجلی کے منصوبوں پر دی۔ ان سے کئی غلطیاں ہوئیں، نندی پور پراجیکٹ ایک بلنڈر ثابت ہوا،چولستان کا سولر منصوبہ اپنے نتائج میں توقعات سے بہت کم تر نکلا، نیلم جیلم پراجیکٹ جلدی مکمل نہ ہوسکا، کوئلے کے منصوبوں میں کئی مسائل در آئے۔ ان سب کے باوجود اگر انتخابات 2018ء میں ہوئے تو کئی ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوچکی ہوگی اور امکانات ہیں کہ الیکشن والے سال کا موسم گرما لوڈ شیڈنگ کے اعتبارسے بہت بہتر ہو۔ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ اس وقت لاہور میں اورنج ٹرین دوڑتی نظر آئے گی، ملتان کا میٹرو بس پراجیکٹ مکمل ہوجائے گا اور کئی اور بڑے منصوبے بھی تکمیل کے مراحل طے کر لیں گے۔ ماہرین مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہیں کہ ان کی ترجیحات درست نہیں اور وہ سوشل سیکٹرجیسے صحت، تعلیم، صاف پانی وغیرہ پر زیادہ خرچ نہیں کر رہے ۔ عام ووٹر ان باتوں کو زیادہ نہیں سمجھتا، بڑے منصوبے اس پر اثرانداز ہوجاتے ہیں۔ خاص کر سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی اور خیبر پختون خوا میں غیرمعمولی تبدیلی نہ آنے سے پنجاب حکومت کی خرابیوں پر پردہ پڑجاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ چلو دوسروں سے تو بہترہے ۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اہم جوہری تبدیلیاں لا کرجوابی پرکشش ماڈل سامنے لا سکتی تھی۔ وجوہات جو بھی ہوں، یہ بہرحال حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ایسا نہیں کر پائی۔ کچھ چیزیں بہتر ہوئی ہیں، مگر ایسا نہیں کہ خیبر پختون خوا کو مثالی صوبہ کے طورپر پیش کیا جا سکے۔۔
میاں نواز شریف کو ایک اور بڑا ایڈوانٹیج اپنے اتحادیوں کی صورت میں حاصل ہے۔ تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور ان کی حلیف جماعتوں کو سٹیٹس کو کی علمبردار کہتی ہے ۔ یہ تنقید درست بھی ہوتو بہرحال حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو کے پی کے اور بلوچستان میں اہم قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی ملی عوامی پارٹی، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی ، کے پی کے میں اے این پی اورپھر جمعیت علمائے اسلام ف کی صورت میں میاں صاحب کو اہم اتحادی حاصل ہیں۔اگلا الیکشن نواز شریف اور اینٹی نواز شریف ووٹ پر لڑا جائے گا۔الیکشن جیتنے کا آسان نسخہ تحریک انصاف کے لئے یہی ہے کہ وہ اینٹی نواز شریف ووٹ اکٹھے کر لے، مگر اس کے لئے یہ ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کی مجبوری یہ ہے کہ چونکہ اسے پورے سسٹم سے بیزاری ظاہرکرنا اور سٹیٹس کو کو نشانہ بنانا ہے، اس لئے وہ پیپلزپارٹی سمیت تمام روایتی جماعتوں پر ضرب لگانے کے لئے مجبور ہے۔ جس کانتیجہ سیاسی علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی فطری اتحادی جماعت اسلامی تک سے کوئی ملک گیر اتحاد بنانے کا نہیں سوچ رہی۔ 
میاں نواز شریف کو تیسرا ایڈوانٹیج یہ حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان سے باہر کے سٹیک ہولڈرز کے لئے بھی اپنی افادیت ثابت کر دی ہے۔ سی پیک کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام آباد میں بڑے میاں صاحب کی موجودگی ہر ایک کے لئے قابل اطمینان ہے۔ چینیوں کے لئے وہ قابل قبول ہیں کہ بلوچستان اور کے پی کے میں قوم پرستوں کے ساتھ معاملہ وہ آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا'' تمغہ ‘‘بھی حاصل کر چکے ہیں، بلوچستان میں جس کی خاص اہمیت ہے۔ ادھر عسکری تنظیموں، کالعدم جماعتوں کے حوالے سے میاں نواز شریف کا موقف زیادہ سخت ہے ۔ اپنے پرانے اتحادیوں کو وہ خیر باد کہہ چکے ہیں۔ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو وہ اعلانیہ بوجھ قرار دے چکے ہیں۔امریکی اور یورپی قوتوں کے لئے میاں صاحب زیادہ قابل بھروسہ ہیں ،جو عسکریت پسندی، طالبانائزیشن کے خلاف اور بھارت کے ساتھ خوشگوار تجارتی تعلقات قائم کرنے کا حامی ہے۔ عمران خان بدقسمتی سے اپنے آپ کو ان تمام ایشو ز پر سنجیدہ لیڈر ثابت نہیں کر سکے۔فطری طور پر امریکیوں سے چینی اور ترکوں سے ہمارے دیگر اہم اتحادیوں سمیت کوئی بھی عمران کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنانا چاہے گا۔ مسلم لیگ ن کے حامی میڈیا نے بڑی عمدگی سے عمران خان کاایک نہایت متلون مزاج، یوٹرن کنگ اور غیر سنجیدہ سیاستدان کا امیج بنا دیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ خان نے بھی اس امیج کو بدلنے کی کوئی زحمت نہیں کی۔
ایسا ہرگز نہیں کہ میاں صاحب سیاسی اعتبار سے ناقابل تسخیر ہیں۔ پاناما ایشو سے وہ ابھی باہر نہیں نکلے۔ ان کی اخلاقی ساکھ اس معاملے میں تباہ ہوگئی ۔ قطری شہزادے کے خط سے ہر حلقے میں شریف خاندان کی بھد اڑی۔ ڈیمیج کنٹرول کی کوششیں ابھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اس کے باوجود انہیں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل ہے۔ سیاست میں معجزے برپا نہیں ہوتے، تخلیق کئے جاتے ہیں۔ عمران خان بھی ایسا کر سکتے ہیں، اس کے لئے مگر غیرمعمولی محنت، نئی حکمت عملی اور دانشمندانہ اپروچ اپنانا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں