میں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم ‘ ہر نوجوان قرض چاہتا ہے ‘کا اختتام اس جملے پر کیا تھا کہ حکومت اگر قرضہ سکیم کو کامیاب کرنا چاہتی ہے تو اسے سود کو ختم کرنا ہو گا اور اس سکیم کا سربراہ ایسے شخص کو بنانا ہو گا جسے بلاسود قرضہ سکیم چلانے کا تجربہ بھی ہو اور اہلیت بھی۔ میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ گزشتہ ایک عشرے سے مائیکرو فنانس سکیم ''اخوت‘‘ بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب یہ خبر سنی کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کو قرض حسنہ سکیم کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا ہے تو اطمینان ہوا کہ حکومت نے کسی شعبے کی سربراہی تو کسی موزوں شخصیت کو سونپی اور اس سکیم کا کم از کم وہ حال نہیں ہو گا جو حکومتی سکیموں کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت کے طور پر ایک کامیاب ماڈل پیش کر چکے ہیں اور اگر حکومت نے انہیں کھل کر کام کرنے کی آزادی دی تو وہ اس سکیم کو بھی پار لگا دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ قرضے جن لوگوں کو ملیں گے وہ ان سے فائدہ کیسے اٹھائیں گے۔ کسی نوجوان کو دس ہزار یا دس لاکھ روپے پکڑا کر یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کامیابی سے کوئی کاروبار بھی کر لے گا۔ ان باتوں کا علم ضروری ہے جن کی لا علمی سے انسان ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔یہ ناکامی کا خوف ہی ہے جو انسان کو کسی بھی کام سے روکتا ہے اور جب تک یہ خوف موجود رہتا ہے ‘ کوئی بھی قدم اٹھانا ممکن نہیں رہتا۔
انسان ناکام کیوں ہوتا ہے ‘ اس کی سات بڑی وجوہ ہیں‘ ایک‘
لوگوں کی بڑی تعداد اس وجہ سے بھی ناکام رہتی ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جو کام وہ کرنے جا رہے ہیں اس کا مقصد کیا ہے اور وہ اسے کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ کسی انسان نے کراچی جانا ہو تو وہ اسلام آباد کی طرف چل پڑے‘ وہاں پہنچ کر پشاور کی طرف رخ کر لے اور یوں گھومتے ہوئے خود ہی لاپتہ ہو جائے۔ کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے پہلے یہ سوچئے کہ اس کی حتمی شکل کیا ہو گی اور آپ اسے کس حد تک دیکھنا چاہیں گے۔ اس سلسلے میں آپ مارکیٹ میں پہلے سے موجود کسی بزنس ماڈل کو بھی آئیڈیل کے طور پر اپنا سکتے ہیں‘ دو‘ لوگ جو جانتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو نہیں جانتے‘ وہ اندھا دھند کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ کئی کام پہلی مرتبہ کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا وہ آنکھیں بند کر کے کام کرتے جاتے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے سر کا درد فلاں گولی کھانے سے ٹھیک ہو جائے گا لیکن آپ یہ گولی اس لئے نہ کھائیں کہ پتہ نہیں اس کا فائدہ ہو گا بھی یا نہیں۔شش و پنج یا گومگو کی کیفیت میں رہ کر کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ تین‘ اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ کام کرنے جا رہے ہیں ‘ وہ
کاروبار کے لیے موزوں ہیں بھی یا نہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے کہ فلاں میرا پرانا دوست ہے یا ہمسایہ ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی متعلقہ شعبے میں ایکسپرٹیز کیا ہیں۔ایسے ہی سٹاف اور پارٹنرز کی وجہ سے کاروبار ناکام ہو جاتا ہے۔چار‘ یہ غلطی تقریباً ہر دوسرا شخص دہراتا ہے کہ وہ مزید سیکھنے اور متعلقہ شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ آج کل کی مارکیٹ پہلے جیسی نہیں رہی ۔ یہ روز بروز تبدیل ہو رہی ہے۔ خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے تعلیمی کورسز اور ورکشاپس بے حد ضروری ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو لوگ ڈیزائننگ کرتے تھے اور کمپیوٹر آ نے کے بعد اس کے کورسز کئے تو انہیں بہترین ملازمت ملی اور وہ کاروبار میں بھی کامیاب رہے‘ لیکن جن لوگوں نے اسے سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ وہ ناکام رہے‘ انہیں پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ بہت سے ایسے لوگوں کے لیے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ پانچ‘ بہت سے لوگ کاپی کیٹ ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اندھا دھند کاپی کرتے ہیں۔ اس طرح اگر دوسرے نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی نقصان اٹھانے لگتے ہیں۔ یہ چیز عام ہے کہ فلاں ڈاکٹر بن گیا تو میں بھی بن جائوںگا‘ فلاں نے فلاں بزنس کیا وہ کامیاب ہو گیا‘ میں بھی وہ کاروبار کروں گا تو میں بھی کامیاب ہو جائوں گا‘ یہ اپروچ بہت زیادہ کامیاب نہیں۔ چھ‘ یہ خطرہ مول لینے سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ جتنا زیادہ کسی چیز میں رِ سک ہو گا اتنا ہی فائدے کا امکان ہو گا۔ ہر شخص غیر معمولی فائدہ چاہتا ہے لیکن غیر معمولی رِ سک لینے کو تیار نہیں۔ آپ جتنے بھی کامیاب لوگوں کو پڑھیں گے یا کامیاب ایجادات کو پرکھیں گے‘ آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر کامیاب انسان اور ایجاد کے پیچھے غیر معمولی رِ سک چھپا ہو گا اور اگر ان لوگوں نے خطرہ مول نہ لیا ہوتا تو آج ہم جتنی بھی جدید ٹیکنالوجی دیکھ رہے ہیں‘ یہ میسر نہ ہوتی۔ ناکامی کی ساتویں بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ بہت جلد ہمت ہارجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب انسان کسی سفر پر نکلتا ہے اور اگر شروع میں ہی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو کیا سارا سفر منسوخ کر دیا جائے۔مکڑی کی مثال ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں لیکن آج کے دور میں بھی ایسی زندہ مثالیں موجود ہیں کہ کئی لوگ سینکڑوں نہیں ہزاروں مرتبہ ناکام ہوئے‘ کے ایف سی کے ڈیوڈ سینڈر نے آٹھ ہزار مرتبہ چکن کی ریسی پی دکانوں میں جا کر پیش کی لیکن کسی کو پسند نہ آئی تاہم اس نے ہمت نہیں ہاری ‘ وہ ہر اگلی کوشش اس امید پر کرتا رہا کہ اس مرتبہ وہ ضرور کامیاب ہو گا اور اس کی یہی مستقل مزاجی اس کے کام آ گئی۔
حکمرانوں کی ذمہ داری صرف قرضوں کی فراہمی تک ختم نہیں ہوتی ‘ انہیں نوجوانوں کو امید بھی دلانی ہو گی اور روڈ میپ بھی دکھانا ہو گا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ آج وہ دور نہیں‘ جب گھر میں ایک کماتا تھا‘ اور دس بیٹھ کر کھاتے تھے۔ اب ہر شخص کو کام کرنا پڑے گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی ضروری رہنمائی کی جائے‘ ان کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے ‘ میڈیا میں اشتہارات کے ذریعے انہیں گائیڈ کیا جائے‘ سیمینارز کرائے جائیں اور انہیں باور کرایا جائے کہ کام کرو چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی ہو۔ سب سے اہم یہ کہ قرعہ اندازی کے ذریعے قرضے دینے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا کیونکہ کاروبار ہر نوجوان کا حق ہے اور یہ حق کسی ڈبے میں موجود پرچیوں کو نہیں دیا جا سکتا‘ کامیابی اور کاروبار کا تعلق کوشش اور محنت سے تو ہو سکتا ہے لیکن اسے طوطے کی فال کی نذر کرنا درست نہیں۔