اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان واقعتاً وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو پھر انہیں بھی نریندر مودی کے نقش قدم پر چلنا ہو گا‘ اس کا یہ مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ انہیں بھی مودی کی طرح دو ہزار افراد کا قتل عام کرنا ہو گا بلکہ جس طرح مودی نے گجرات کو کامیابی سے ہمکنار کیا‘ وہی کامیابی عمران خان صوبہ خیبر پی کے کا نقشہ بدل کر حاصل کر سکتے ہیں۔ گجرات ماڈل ایک جیتی جاگتی کہانی ہے۔ اس میں جذبات ہیں نہ نعرے‘ صرف صنعت و حرفت اور ترقی کا جادو دکھائی دیتا ہے۔ مودی نے گجرات میں حکومت شروع کرتے ہی مقاصد متعین کئے اور انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا۔ زراعت ‘ صنعت اور سروسز۔ زراعت کسی بھی صوبے کی ترقی کا اہم ترین جزو مانا جاتا ہے۔ گجرات کو زرعی صوبہ بنانے کے لیے تین کام کئے گئے۔ ایک ‘ کپاس کی پیداوار کے لئے جدید ٹیکنالوجی اپنائی گئی‘ دوسرا ‘آب پاشی کا نظام بہتر کیا گیا اور تیسرا‘ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے ڈیم بنائے گئے۔زیادہ سے زیادہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے سکیم متعارف کرائی گئی اور اس کے لیے پانچ لاکھ ہیکٹرز رقبہ مختص کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں گندم کی پیداوار سو فیصد جبکہ کپاس کی پیداوار دو سو فیصد تک بڑھ گئی، یوں گجرات خوراک میں خود کفیل ہو گیا ۔صنعتوں کی آب یاری مودی کا دوسرا خواب تھا لیکن صنعتیں بجلی سے چلتی تھیں اور گجرات میں بجلی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس شعبے پر اتنی محنت کی گئی کہ 2003ء میں جو صوبہ نو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا تھا‘ اسے 2013ء کے آخر میں
23ہزار میگا واٹ تک پہنچا دیا گیا‘ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز 35فیصد سے 15فیصد تک لائے گئے اور یوں گجرات بجلی کے معاملے میں بھی خودکفیل ہو گیا۔ بجلی آئی تو سرمایہ داروں کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔جو لوگ اپنا پیسہ دبئی ‘ ملائشیا اور بنکاک لے جا رہے تھے‘ گجرات بھاگے آئے ۔ مودی کے پہلے دور اقتدار میں کروڑوں ڈالر کے ساٹھ بڑے منصوبوں کا آغاز ہوا جس کے بعد ترقی کی ایک سمت متعین ہو گئی۔ مودی نے دیہات کو بھی شہروں جیسی اہمیت دی اور ہر گائوں تک بجلی پہنچا دی۔ کاشتکاری کے لئے بجلی کے نرخ بہت کم رکھے گئے جس کا فائدہ کسان کو ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ مودی کو دیہی علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ ہوئے۔ مودی کا تیسرا زور سروسز کی بہتری اور معیار پر تھا۔ اس مقصد کے لیے گجرات میں کل چالیس شپنگ پورٹس قائم کی گئیں جو پورے ملک کی کارگو نقل و حرکت کا بیس فیصد کام انجام دے رہی ہیں۔ تعلیم کو بھی برابر اہمیت ملی۔ نصاب کو جدید تقاضوں کے تحت اپ گریڈ کیا گیا۔ فرسودہ ‘غیر ضروری مواد نکالا گیا او ر اس کی جگہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لے لی۔مودی کی کامیابی کا ایک اہم فیکٹر یہ تھا کہ اس نے کانگریس کی طرح لوگوں کو بھکاری بنانے والی سکیمیں جاری نہ کیں۔ لوگوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے یا چند کلو
آٹا دینے سے بہتر یہ سمجھا گیا کہ لوگوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ یہ سب اپنے ہاتھوں سے کما سکیں۔ نہ صرف بنیادی ضروریات پوری کر سکیں بلکہ اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق بہترین لائف سٹائل بھی اپنا سکیں۔ مودی کی ان کاوشوں سے گجرات کا نقشہ بدل گیا جس کی آج پوری دنیا میں مثالیں دی جا رہی ہیں۔
ایک داغ بہر حال مودی کے چہرے پر موجود ہے اور وہ ہے گجرات سانحہ۔ یہ داغ اس وقت تک رہے گا جب تک اس کے ذمہ داروں کو سزا نہیں مل جاتی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں مسلمانوں پر اگر ظلم ہوا تو اس کی جسٹی فیکیشن تو یہ نظر آتی ہے کہ مودی انتہا پسند ہندو تھا لیکن سچ سچ بتلائیں کہ جو کچھ ہم اپنے ملک میں اپنے مسلمانوںکے ساتھ کرتے ہیں‘ کیا اس کا
ذمہ دار بھی مودی ہے؟ آج اس ملک میں غریب کی بچی کے ساتھ زیادتی ہو جائے‘ کوئی اس کا پرچہ تک نہیں کاٹتا جب تک وہ خود کو جلا کر راکھ نہ کر لے‘ آج بھی آپ بجلی یا فون کا بل ٹھیک کرانے جائیں‘ آپ کو فرد کی ضرورت پڑجائے‘ آپ کی جوتیاں گھس جائیں گی لیکن سفارش کے بغیر کام نہیں ہو گا‘ تعلیم کی حالت یہ ہو چکی کہ سرکاری سکولوں میں صرف نوکروں اور ڈرائیوروں کے بچے داخل ہوتے ہیں یا پھر گدھے اور خچر ‘ گوالے بڑی بے فکری سے دودھ میں گندا پانی‘ سرف‘ بلیچنگ پائوڈر ‘ اور پسی ہوئی ہڈیوں کا سفوف ڈال رہے ہیں لیکن ملک کا کوئی چیف جسٹس‘ کوئی وزیراعظم اس پر نوٹس نہیں لیتا‘ آج صرف پانچ فیصد لوگ پینے کا صاف پانی خرید سکتے ہیں اور باقی اپنے پیٹ میں زہر اتار رہے ہیں‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور بازاروں میں لاکھوں مردہ اور بیمار جانوروں کا گوشت روزانہ کھلایا جا رہا ہے لیکن کسی کو پروا نہیں‘ ادویات کتنی خالص ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ چند سال قبل جو شخص دو تین روز اینٹی بائیو ٹک کھا کر ٹھیک ہو جاتا تھا اب پانچ سات دن بھی کھا لے تو بیماری قائم رہتی ہے‘ یہ تو چند مسائل ہیں‘ کیا 66برس گزرنے کے بعد بھی ان میں سے کوئی ایک مسئلہ حل ہوا؟ نہیں‘ تو پھر سوال وہی ہے کہ ہمیں مودی ہی ظالم کیوں نظر آتا ہے‘ کیا ایسا ہم اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے نہیں کرتے‘ کیا مذہبی جماعتوں نے اس ملک میں مہنگائی پر کبھی
احتجاج کیا ہے‘ کیا ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈے‘ فرقے اور مفاد کے تحت نہیں چل رہا اور اگر ہم خود وہی کام کر رہے ہیں‘ ہم خود بھی مظالم ڈھا رہے ہیں تو کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی یا ان کے غم میں رونے کا حق ہمیںکیسے حاصل ہو جاتا ہے۔ مودی نے اگر دو ہزار مسلمانوں کو قتل کروایا تو یہاں روزانہ اٹھارہ کروڑ عوام قسطوں کی موت مر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس الیکشن میں اگر کوئی گھر سے ووٹ ڈالنے نکلا تو صرف اس لئے کہ اسے عمران کی شکل میں ایک امید دکھائی دے رہی تھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک سال بعد ہی عمران خان تھک گئے ہیں۔ انہیں دھاندلی پر احتجاج سے زیادہ صوبے کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینی چاہیے ۔ اب یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ انہیں مشکل ترین صوبہ ملا ہے تو کیا سوئٹزر لینڈ کی حکومت انہیں دے دی جائے۔ لوگ باتیں نہیں عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ کب تک وہ باتوں سے لوگوں کا پیٹ بھر تے رہیں گے۔ یہی کام تو دوسرے لیڈر بھی کر رہے ہیں تو پھر ان میں اور اُن میں فرق کیا رہ گیا۔ فرق صرف اسی صورت پیدا ہو گا جب وہ خیبر پی کے میں پانچ سال ڈٹ کر حکومت کریں ‘ اسے ایک آئیڈیل صوبہ بنائیں‘ اس کے عوام کو خوشحال کریں‘ یہاں سرمایہ کاروں کو لائیں‘ تعلیم‘صحت اور روزگار عام کریںا ور اس کے بعد دیکھیں ‘اقتدار خود ان کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑا ہو گا۔