گلو بٹ کو ہلال ِپاکستان کیوں ملنا چاہیے ‘ یہ جاننے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے۔الحمد کالونی سمن آباد میں گزشتہ برس دو خواتین اور ایک مرد ہمسائے کے مکان میں داخل ہوئے‘ گھر میں موجود خاتون پر بہیمانہ تشدد کیا اور قیمتی اشیاء لوٹ کر لے گئے۔ متاثرہ خاتون کئی روز جناح ہسپتال داخل رہی۔ اس دوران خاتون کے شوہر نے اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی لیکن مقدمہ درج نہ ہوا۔ اُلٹا‘ پولیس نے مدعی میاں بیوی کو تھانے میں بلا کر خوار کرنا شروع کر دیا۔ یہ پروفیسر کی شریف فیملی تھی جس نے تھانہ اندر سے تو دور کی بات‘ باہر سے بھی نہ دیکھا ہو گا لیکن ایک سال تک متاثرہ فیملی کو تھانے میں بلا کر گھنٹوں ذلیل کیا جاتا رہا۔ جس روز سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا‘ اسی شام مجھے اس فیملی کے ایک عزیز کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے مجھے مذکورہ تفصیلات بتائیں اور کہا کہ ماڈل ٹائون میں آج پولیس کی دہشت گردی دیکھ کر انہیں بہت خوف محسوس ہو رہا ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ پولیس جس طرح بپھری ہوئی ہے کہیں وہ ان پر بھی تشدد نہ کر دے‘ اس لئے یہ معاملہ جلد حل کروا دیں۔ میں نے اپنے سورسز سے اعلیٰ پولیس افسران کو تلاش کیا لیکن اس روز کے واقعے کی وجہ سے کوئی بھی نہ مل پایا۔ بالآخر میں نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کا نمبر حاصل کیا‘ اسے فون کیا اور کہا کہ یہ شریف لوگ ہیں‘ ان سے تمہیں مال وغیرہ نہیں ملے گا‘ مقدمہ تم درج کرو گے نہیں لہٰذا انہیں یہاں سے جانے دو‘ میں اس فیملی کو مخالفین سے صلح پر قائل کر لوں گا‘ یہ کل آ کر اپنی درخواست واپس لے لیں گے۔میں نے متاثرہ فیملی کو فون کیا اور انہیں بھی اس پر قائل کر لیا اور یوں یہ معاملہ ختم ہو گیا۔
جب سے سانحہ ماڈل ٹائون رونما ہوا ہے‘ ہر کوئی پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے لیکن حکومت کی کوئی نہیں سن رہا۔ سب سے زیادہ تنقید گلو بٹ پر ہو رہی ہے اور اس بے چارے پر طرح طرح کے الزام لگائے جا رہے ہیں۔ وہ ن لیگ کا کارکن ہے‘ وہ فلیٹوں سے بھتہ لیتا ہے ‘وہ تھانہ فیصل ٹائون کا مخبر ہے‘ وہ پولیس کی معیت میں آیا ‘ اس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا اور اس ڈنڈے سے وہ گاڑیاں توڑتا رہا‘ یہ سب سراسر بہتان اور الزام تراشی ہے۔ ہمیں اعلیٰ پولیس افسران کے اس بیان کو سچ مان لینا چاہیے کہ پولیس اس کی رکھوالی نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی پولیس کو علم تھا وہ گاڑیاں توڑ رہا ہے کیونکہ اس وقت دراصل گلو نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی‘ جس کی وجہ سے وہ پولیس کو نظر نہیں آرہا تھا۔ اسی طرح ہمیں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے اس بیان کو بھی سچ مان لینا چاہیے کہ وہ اس سارے واقعے سے لا علم تھے اور اس کی تفصیل ان کے مشیر وغیرہ بتلا دیں گے کہ وہ اس روز یقینا بند کمرے میں چھوٹے شہروں اور دیہات میں میٹرو بس اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہے تھے اور یہ اس سے کہیں زیادہ اہم کام تھے بجائے اس کہ ‘ کہ آٹھ دس لاشیں گرنے پر متوجہ ہوا جاتا‘ اسی طرح ہمیں خواجہ سعد رفیق کے اس بیان پربھی یقین کر لینا چاہیے کہ کراچی کی جماعت کو اپنے صوبے پر توجہ دینی چاہیے
اور یہ کہ خواجہ سعد رفیق کے والد بھی چونکہ اسی طرح کے احتجاجی جلسے میں شہید ہوئے تھے لہٰذا اگر انہوں نے مخالفین کو معاف کر دیا ہے اور ان کی جماعت علی بابا چالیس چوروں کے ساتھ مفاہمت کر چکی ہے تو پھر عوامی تحریک کو بھی پیچھے ہٹ جانا چاہیے‘ اسی طرح ہمیں رانا ثنا اللہ کی بات پر بھی یقین کرنا چاہیے کہ ماڈل ٹائون میں نجی رکاوٹیں برداشت نہیں کی جائیں گی کیونکہ ماڈل ٹائون میں شریف بردران کے گھر اور شہر کے دیگر 57مقامات پر جو سڑکیں وغیرہ بند کی گئی ہیں وہ نجی نہیں بلکہ سرکاری رکاوٹیں ہیں اور سرکاری رکاوٹیں نہ صرف عوام کے مفاد کے لئے ہوتی ہیں بلکہ عوام کو ان سے اپنا سر بھی ٹکرا کر پھوڑ لینا چاہیے جو عوام کے لئے بڑی سعادت کی بات ہو گی اور ہمیں یہ سب بلاچوں چراں اس لئے تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ ہم لاکھ کہتے رہیں کہ یہ بڑا ظلم تھا‘ یہ سانحہ جلیانوالہ باغ جیسا ایکشن تھا‘ ہم لاکھ دہائیاں دیتے رہیں کہ دیکھو پولیس نے خود چار برس قبل یہ کہہ کر رکاوٹیں لگوائی تھیں کہ طاہر القادری کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے اور وہ ان کی حفاظت نہیں کر سکتی لہٰذا یہ ایکشن غلط ہوا‘ ہم لاکھ سوال اٹھاتے رہیں کہ اسی پچاسی سال کے بوڑھے جو شدید گرمی میں ہانپ اور کانپ رہے تھے انہوں نے پولیس پر گولی نہیں چلائی لیکن انہیں کیوں لہولہان کیا گیا‘ ہم لاکھ وہ فوٹیج دکھاتے اور تصاویر چھاپتے رہیں جن میں چار پولیس ''جوان‘‘ ایک باپردہ خاتون کو بالوں‘ چہرے اور نقاب سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے‘ اسے تھپڑ مار رہے تھے‘ ہم لاکھ شور مچائیں کہ دیکھو مرنے والی ایک خاتون حاملہ تھی اور پولیس نے اس کے جبڑوں کا نشانہ لے کر اسے اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کو قتل کر دیا‘ ہم لاکھ گزارش کریں کہ اس کے پیٹ میں موجود بچہ نہتا تھا‘ اس کے پاس اسلحہ تھا نہ پتھر‘ ہم لاکھ کہتے رہیں کہ پولیس کا یہ ایکشن آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا‘ ہم لاکھ الزام لگائیں کہ پولیس جس دلیری سے نہتے شہریوں پر ٹوٹ رہی تھی کاش وہ طالبان سے بھی اس بہادری سے لڑ سکتی‘ ہم اس طرح کی لاکھ وضاحتیں ‘ صفائیاں اور دلیلیں دیتے رہیں لیکن ہونا تو وہی ہے جو ہوتا آیا ہے‘ مرنے والے نہ شاہی خاندان کے بچے تھے نہ پولیس والوں کے رشتہ دار‘ یہ جماعت اسلامی کے کارکن تھے نہ کسی این جی او کے ورکر اور ہم جتنی مرضی تنقید کر لیں کہ جو نام نہاد مذہبی لیڈر اپنے خطبوں میں چیچنیا اور بوسنیا تک کے مسلمانوں کے دُکھڑے بیان کرتے ہیں‘ انہیں بھی چند میل کے فاصلے پر تپتی زمین پر گری آٹھ لاشیں نظر نہ آئیں اور نہ ہی وہ غم زدہ خاندانوں سے تعزیت کے لئے پہنچے نہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تویہ سب کون سنے گااور کون اس پر ایکشن لے گا۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ گلو بٹ اتنا ذمہ دار نہیں جتنا درجنوںپولیس اہلکار ا‘ایس پی ماڈل ٹائون اور حکومتی شخصیات جن کی آشیر باد پر وہ وہاں آیا۔اگر پولیس والوں کو نہیں پکڑنا تو پھر گلو بٹ کو بھی چھوڑ دیں اور اسے کسی اعزاز سے نواز دیں اور اگر سانحہ کے اصل قاتلوں کو پکڑنا ہے تو صرف ایک کام کر لیں۔ آپ اس روز دوپہر کی آئی جی اور ایس پی آپریشنز کی فون کالوں کا ریکارڈ نکلوا لیں جو لمحہ بہ لمحہ اُوپر سے ہدایات لے رہے تھے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن یہ سب کرے گا کون اور کیوں؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔پولیس کی درندگی کا نہ یہ پہلا واقعہ تھا نہ آخری تو پھر حیرت کیسی‘چنانچہ ایک ایسے ملک میں جہاں درندگی کا قانون چلتا ہو اور جہاں حاملہ عورتیں اور ان کے پیٹوں میں موجود بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دئیے جاتے ہوںوہاں گلو بٹ جیسے لوگوں کوہلال پاکستان تو مل سکتا ہے‘ وہ آئی جی پنجاب‘ وزیراور وزیراعلیٰ تو بن سکتے ہیں‘وہ ڈنڈوں سے ہماری گاڑیاں اور ہمارے سر تو پھوڑ سکتے ہیں لیکن وہاں تنزیلہ اور شازیہ جیسے شہیدوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔
پس تحریر:اتوار کی صبح مجھے میرے ایک مہربان نے بتایا تھاکہ اگلے دس بارہ روز میں ملک میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ یہ چہروں کی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے اور سسٹم کی بھی۔ اس کے تین گھنٹے بعد آئی ایس پی آر کی طرح سے ضربِ عضب کا اعلان ہوا۔ ایک روز بعد سانحہ ماڈل ٹائون ہوا اور اس سے اگلے روز ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی پر لاہور میں فائرنگ کر دی گئی۔ سات آٹھ روز باقی ہیں۔ خدا خیر کرے۔