حکومت کی سٹریٹیجی صاف نظر آ رہی ہے۔ یہ عمران خان کو تھکانا چاہتی ہے۔ عمران خان کو کمیشن اور دیگر اداروں میں اپنا مسئلہ لے جانے کا اسی لئے کہتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں نہ ان کیسوں کا فیصلہ ہوا ہے نہ ہو گا۔ یہ قانونی باریکیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح ہر جگہ سے صاف بچا لے گی‘یہ سٹے آرڈر کے پیچھے چھپ جائے گی یا پھر تاریخ پہ تاریخ ملنے سے معاملہ سرد خانے میں چلا جائے گا، یہاں تک کہ اگلا الیکشن آ جائے گا۔ اسی لئے حکمران اور حلیف جماعتوں کو اگرخطرہ ہے تو تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست ‘ دھرنوں اور جلسوں سے ،جہاں عمران خان کروڑوں لوگوں کو یہ شعور دے رہا ہے کہ کس طرح دو جماعتوں نے انہیں برسوں سے غلام بنایا اور ان کے حقوق غصب کئے۔ جب عمران خان اس ملک کے اداروں کی کارکردگی پر تنقید کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں‘ یا ر اچھا بھلا تو چل رہا ہے‘ آہستہ آہستہ سسٹم ٹھیک ہو ہی جائے گا۔ میں پوچھتا ہوں کیا ٹھیک چل رہا ہے۔ مجھے دو تین اداروں کے سوا کوئی ادارہ بتا دیں‘ جو انسانوں کی طرح کام کر رہا ہو اور جو دو تین ادارے درست کام کر رہے ہیں وہ بھی صدر پرویز مشرف اور چودھری پرویز الٰہی کے دور میں بنے۔ موجودہ حکومت نے انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی کامیابی اور عوامی دبائو پر ایسا نہ ہو سکا۔ آپ صرف بچوں کے ہسپتالوں کی بات ہی کر لیں۔ لاہور میں بچوں کیلئے صرف ایک چلڈرن ہسپتال ہے ۔ پورے پنجاب سے مائیں بچے گود میں اٹھا کر یہاں سستے اور معیاری علاج کیلئے آتی ہیں لیکن یہاں آ کر پتہ چلتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مشین خراب ہے یا پھر ڈاکٹر موجود نہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں ہمیں اللہ نے صحت مند بچے عطا کئے لیکن ذرا
اُن سے پوچھیں جن کے بچوں کے دل میں پیدائشی سوراخ ہوتا ہے اور جن کی جان فوری آپریشن سے ہی بچ سکتی ہے۔ میں نے ایسے والدین کو اپنی زمینیں‘ اپنا گھر اپنے بچوں کے علاج کیلئے بیچتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں ہوتا‘ ان کیلئے چلڈرن ہسپتال ہی واحد راستہ ہے جہاں یہ آپریشن نوے ہزار روپے میں ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک بچے کو سات سات‘ آٹھ آٹھ سال بعد کی تاریخ ملتی ہے ۔ اتنی دیر میں بچے کے ناخن اور جسم نیلا‘ وزن کم اور قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے اور بچہ آپریشن کی تاریخ کا انتظار کرتے کرتے والدین کی بانہوں میں موت کی نیند سو جاتا ہے اور آپ اس انصاف کی بات کرتے ہیں‘ جو قسمت اور پیسے والوں کو ہی ملتا ہے۔ میں نے چند ماہ قبل اپنے کالم میں ٹرانسفارمر پھٹنے کا واقعہ لکھا تھا جس میں ایک صحافی طارق عبداللہ کی اہلیہ ٹرانسفارمر سے گرنے والے گرم تیل اور آگ سے جھلس کر جاں بحق ہو گئی تھیں جبکہ طارق عبداللہ کئی ماہ تک میو ہسپتال کے برن یونٹ میں زیرعلاج رہے۔ اس ایشو پر برادرم انیق ناجی نے ٹی وی پروگرام بھی کیا ‘اس پروگرام میں میرے علاوہ نون لیگ کی اہم سیاسی شخصیت بھی موجود تھی لیکن ان کے علم میں لانے کے باوجود صحافی کو انصاف نہ مل سکا۔ لاہور میں برن یونٹ صرف میو ہسپتال میں ہے۔ یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ اگر جنوبی پنجاب میں چولہا پھٹنے کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو مریض آٹھ دس گھنٹے میں لاہور پہنچے گا اور وہاں بیڈز کی
قلت کے باعث وارڈ کی راہداری میں زمین پر پڑا موت سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گا۔ طارق عبداللہ کی بیوی کی قاتل وہ کمپنی ہے جس نے ملک بھر میں غیر معیاری ٹرانسفارمر لگائے ہوئے ہیں لیکن اسے پکڑنے والا کوئی نہیں۔ اپنی مرحومہ بیوی اور اپنے لئے انصاف ڈھونڈنے طارق عبداللہ عمران خان کی طرح جہاں بھی گیا‘ طاقتور نظام کی اونچی فصیل آڑے آگئی ۔ سوال یہ ہے کیا ان حالات سے آج کروڑوں عوام نہیں گزر رہے لیکن جب عمران خان جیسا کوئی کھڑا ہو کر کلمۂ حق بلند کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ سسٹم جیسا بھی ہے چل تو رہا ہے ‘ اسے چلنے دیں کبھی نہ کبھی ٹھیک ہو جائے گا۔ سسٹم دیکھنا ہے تو یہ مثال دیکھیں ۔چند ماہ قبل جاپان میں ایک مرغابی کی گردن میں غلطی سے ایک بچے کا کھلونا تیر پیوست ہو گیا۔ اس مرغابی کو پکڑ کر ہسپتال لے جانے کیلئے دو ہیلی کاپٹر اور چار موٹر بوٹس کئی گھنٹے جدوجہد کرتی رہیں۔ پورے جاپان نے یہ منظر ٹی وی پر لائیو دیکھا۔ کسی طرح اسے پکڑ کر ہسپتال لے جایا گیا اور ٹھیک ہونے پر ایک تقریب میں کھلی فضا میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ ہوتے ہیں جمہوری اور انسانی معاشرے اور ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ لاہور میں ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگی تو سات گھنٹے تک لوگ جل جل کر آٹھویں منزل سے چھلانگیں لگاتے رہے لیکن ایٹم بم کے حامل ملک کے پاس ایک بڑی سیڑھی والی کرین اور سپرنگ والا بڑا میٹریس تک نہ تھا کہ جس سے یہ لوگ بچ جاتے۔ جو لوگ کھڑکی میں پھنسے تھے‘ وہ ساری زندگی حکمرانوں کو ٹیکس دیتے رہے لیکن اب جب ان کی جان پر برا وقت آیا‘ ان کے پاس دو ہی راستے بچے تھے۔ وہ جل کے مر جاتے یا گر کر۔یہ دونوں راستے انہی حکمرانوں نے ان کیلئے چھوڑے تھے جن کو عوام تین تین مرتبہ منتخب کر چکے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں حالات خودبخود بہتر ہو جائیں گے وہ سرگودھا میں درجنوں بچوں کی ہلاکتوں کو دیکھ لیں جو انکوبیٹر نہ ہونے پر جاںبحق ہو چکے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں اوورسیز پاکستانیوں اور اشرافیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ خود ان بچوں کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں ۔ اس پر ایک دردمند قاری سیف احمد نے چین سے دو انکوبیٹر منگوا نے کا آرڈر کر دیا ہے‘ جو چند دنوں میں سرگودھا کے سرکاری ہسپتال پہنچ جائیں گے۔قرآن کریم میں ہے کہ جس شخص نے کسی ایک انسان کی جان بچائی‘ گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ سیف صاحب کی اس کاوش سے اگر دو بچوں کی جان بھی بچ گئی تو یہ قدم ان کیلئے بڑے اجر کا باعث ہو گا جس کی ہر صاحب ثروت پاکستانی کو تقلید کرنی چاہیے۔ذرا سوچیں اس سے اُس ماں کو کتنی خوشی ملے گی ‘ جو نو ماہ یہ بوجھ پیٹ میں اٹھائے پھرتی رہے اور جب اس کے گھر کوئی خوشی آئے توچند روز بعد ہی اس کے ہاتھوں سے نکل کر اس وجہ سے قبر کی مٹی تلے جا سوئے کہ ہسپتال میں چند لاکھ کا انکوبیٹر نہیں تھا۔
30نومبر کا دن آ گیا‘ آج کیا ہو گا‘ یہ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جنہوں نے انتخابات میں لوگوں کا مینڈیٹ چوری کیا ، جو دھاندلی کی تحقیقات کرانے کی بجائے سٹے آرڈروں کے پیچھے چھپ گئے‘ جو ہسپتالوں میں نومولودوں کو انکوبیٹرز اور آکسیجن تک مہیا نہ کر سکے اور جو اپنے نظام کو شاندار کہتے نہیں تھکتے اور جن کا یہ ''شاندار‘‘ نظام طارق عبداللہ جیسے صحافیوں تک کو انصاف نہ دلا سکا۔جو لوگ کہتے ہیں عمران خان دھرنے دے کر غلط کر رہا ہے‘ وہ کوئی بہتر راستہ کیوں تجویز نہیں کر دیتے۔ دراصل لوگوں کو پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی نوراکشتی دیکھنے کی اتنی زیادہ عادت پڑ چکی ہے کہ یہ ہر کسی لیڈر کو انہی کی قطار میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ جنگ اگر جیتی جائے گی تو سڑکوں پر ہی جیتی جائے گی۔ احتجاج کے ذریعے پیدا ہونے والا دبائو ہی ہے جس نے مخالف گیارہ جماعتوں کو اکٹھا کر دیا۔ یہ جلسوں کا نتیجہ ہی ہے کہ جنہوں نے حکمرانوں کو کام پر لگا دیا ۔ یہ دھرنوں کا کمال ہی ہے جس نے بڑے تو بڑے‘ بچوں تک کو ان کے حقوق سے آگاہ کر دیا‘ انہیں شعور دلا دیا۔ جو سمجھتے ہیں حکومت عمران خان کو تھکا تھکا کر ہرانا چاہتی ہے‘ انہیں کوئی سمجھائے‘ عمران خان ایک فائٹر کھلاڑی ہے ‘ کسی سیاسی خاندان کا وارث نہیں جو اقتدار کے لالچ میں اصولوں کو لات مار دے۔ یہ سب مل جائیں تب بھی عمران خان کو تھکا نہیں سکتے اور عمران تھک بھی گیا تو ہار نہیں مان سکتا۔وہ آخری سانس ‘ خون کے آخری قطرے تک لڑے گا‘ اس نظام کے خلاف‘ اس ظلم کے خلاف جو روزانہ آپ اور میرے جیسے لوگوں پر ڈھایا جاتا ہے ۔ کوئی اس ظلم‘ اس جبرکے خلاف نکلے گا‘ تو وہ عمران خان پر نہیں‘ اپنے اور اپنے بچوں پر ہی احسان کرے گا۔