چودھری محمد سرور جب گورنر پنجاب بنے تو میں نے پہلی ملاقات میں انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ واقعی گورنر بننا چاہتے ہیں تو گورنری چاہے نہ چھوڑیں‘ لیکن گورنر ہائوس ضرور چھوڑ دیں۔ میری اس رائے پر وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگے ۔میں نے کہا‘ آپ نہ تو کسی پارٹی کے جیالے ہیں نہ ہی کوئی لینڈ لارڈ ‘ آپ ایک سیلف میڈ آدمی ہیں جوبرطانیہ جیسے ملک میں سیلز مین کے طور پر کام شروع کر کے برطانیہ کی بڑی کیش اینڈ کیری کا مالک بن گیا اور پھر برطانیہ کا پہلا مسلمان ممبر پارلیمنٹ بھی بنا اور اب اگر آپ اپنے ملک میںایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہوئے ہیں اورپنجاب کے گورنر بنے ہیں تو لوگ آپ کو آپ کے ماضی سے ملا کر دیکھیں گے اور اسی کی روشنی میں آپ سے توقعات بھی رکھیں گے۔ میں نے انہیں یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ کیا آپ کا ضمیر آپ کو اس بات کی اجازت دے گا کہ آپ ایک ایسے عہدے سے چمٹے رہیں جس میں نہ تو آپ کو کام کرنے کی کوئی سپیس ملے اور نہ ہی آپ کے کسی مشورے کو صوبائی حکومت قبول کرنے کو تیار ہو۔ رہی بات رہائش اور پروٹوکول کی‘ تو آپ برطانوی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے طرز زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں اور آپ کیا پورا ملک اور پوری دنیا جانتی ہے کہ برطانیہ میں عوام کے ٹیکسوں پر اس قسم کی عیاشی کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا جس طرح کی عیاشی بلکہ بدمعاشی عوام کے پیسوں پر ہمارے ہاں کی جاتی ہے۔ میں نے انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ چھ سو کنال پر ایک شخص کی رہائش ایک ایسے ملک میں مذاق سے کم نہیں جہاں ہزاروں لوگ کوڑے کے ڈھیر پر سوتے ہوںاورجہاں رہائش تو دور کی بات‘ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک نصیب نہ ہو۔ برطانوی وزیراعظم کی ٹین ڈائوننگ والی رہائشگاہ اندر سے جتنی مرضی جدید ہے لیکن اس کا محل وقوع لاہور کے گورنر ہائوس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ گورنر ہائوس کے عین سامنے جی او
آر کا علاقہ ہے جہاں پنجاب کی اصل حکمران بیوروکریسی آباد ہے۔ یہ دو دو چار چار کنال پر مشتمل بنگلے ہیں۔ جی او آر کے ارگرد بارہ فٹ اونچی فصیل قائم ہے اور اس کے دو داخلی راستوں پر پولیس کی چوکی بھی قائم ہے۔اس علاقے میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ یہ علاقہ شہر کے وسط میں بھی ہے ‘ محفوظ بھی اور پرسکون بھی۔ گورنر صاحب سے عرض کیا کہ اگر وہ چاہیں تو یہاں ایک بنگلہ الاٹ کرا کے اپنی رہائش یہاں منتقل کر لیں ۔ رہا گورنر ہائوس تو اسے بہت سے منصوبوں کیلئے استعمال کیا جا سکتاہے۔ سب جانتے ہیں کہ گورنر محمد سرور نے پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ یورپ کے دورے پر گئے تھے اور انہوں نے یورپی یونین اور کاروباری برادری سے ملاقاتیں کر کے پاکستان کے لئے نئے کاروباری راستے کھولنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اگر گورنر صاحب چاہیں تو حکومت کو اعتماد میں لے کر گورنر ہائوس کی زمین کو مختلف پراجیکٹس میں استعمال میں لانے کا پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اس زمین کو چار حصوں تعلیم‘ صحت‘ تفریح ‘ اور بزنس ویلی میں تقسیم کیا جائے تو یہاں عالمی معیار کی یونیورسٹی‘ ہسپتال‘ بچوں اور نوجوانوں کیلئے ڈزنی لینڈ کی طرز پر تفریح گاہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کاروبار کیلئے سیلیکون ویلی بن سکتی تھی۔ گورنر سرور نے اس تجویز کی داددی اور وعدہ کیا کہ وہ اس پراجیکٹ کو ضرور اپنے حکمرانوں کے سامنے رکھیں گے۔ ایسی تجاویز میرے علاوہ ان کے کئی ہمدردوں اور پرانے دوستوں نے بھی دیں لیکن جیسے ہی ہم گورنر ہائوس سے نکلے‘ خوشامدیوں کے ایک گروہ نے گورنر صاحب کو اپنے حصار میں لے لیا اور انہیں باور کرانے کی کوششوں میں لگ گئے کہ آپ ان کے مشوروں پر کان نہ دھریں۔یہ آپ کے عہدے اور آپ کی ترقی سے جلتے ہیں اور آپ کو غلط مشوروں میں اُلجھانا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب سے اس کے بعد ایک آدھ رابطہ ہوا لیکن وہ باتیں چند ماہ میں سچ ثابت ہونے لگیں جنہیں وہ معمولی سمجھ کر نظر انداز کررہے تھے۔ تین ماہ بعد انہوں نے بیان دیا کہ بطور گورنر انہیں جو پروٹوکول مل رہا ہے ‘ اس سے وہ سخت کوفت میں مبتلا ہیں اور تمام تر کوششوں کے باوجود ان کا گورنر ہائوس میں دل نہیں لگ رہا۔ اللہ جانے وہ کوششیں کیا تھیں لیکن مجھے یاد آ رہا ہے کہ لندن کے دو کمروں کے فلیٹ میں جب دس برس قبل ان سے ملاقات ہوئی تو وہ اور ان کی اہلیہ چائے اور بسکٹ کی ایک ایک ٹرے خود پکڑ کر میز تک لائے۔وہاںنہ کوئی ملازم تھا نہ کسی کو کام کرنے میں کوئی عار تھی۔ لندن کی سیر کے دوران بھی نہ کوئی پروٹوکول والا ان کی گاڑی کے آگے تھا‘ نہ پیچھے۔ ہم آرام سے پورا شہر پھرتے رہے‘ اشاروں پر رُکے اور عام شہریوں کی طرح واپس آ گئے۔ سوال یہ ہے کہ آزاد فضائوں میں اڑنے والے پنچھی کو اگر چھ سو کنال کے پنجرے میں
قید کر لیا جائے تب بھی وہ خود کو قیدی ہی محسوس نہیں کرے گا؟ اگر یہ بات ہم کہہ رہے تھے تو پھر گورنر صاحب کو یہ سمجھنے میں سترہ ماہ کیوں لگے۔ ابھی انہوں نے گورنر کے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا تھا تب بھی ان سے گفتگو میں یہی بات ہوتی رہی کہ انہیں نمائشی عہدہ قبول کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں جس کے کوئی اختیارات ہی نہیں ۔ سوائے اس کے کہ کسی سکول کے مینابازار کا افتتاح کر دیا‘ کسی کتاب کی تقریب ِرونمائی کے مہمان خصوصی بن گئے یا پھر روزانہ کسی سے ملاقات کر کے ایک آدھا سرکاری بیان داغ دیا۔ جہاں تک جی ایس پی پلس سٹیٹس کی بات ہے‘ یہ کام گورنر صاحب نے اپنے ذاتی تعلقات اور تجربے کو استعمال کرتے ہوئے کیا۔ اگر وہ وزیر اقتصادیات ہوتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد ملک کو پہنچا چکے ہوتے لیکن افسوس کہ نون لیگ نے انہیں ایک ایسے عہدے پر فائز کیا جس میں وہ کچھ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک ایسے شخص کو معلوم نہ تھا جو 1997ء سے 2010ء تک برطانوی ایوان میں مسلمانوں کی آواز بنا رہا‘ جو بوسنیا‘ عراق‘ کشمیر اور افغانستان پر امریکی مظالم اور امریکی پالیسی کا سخت ناقد تھا اور جس نے برطانیہ میں جس کاروبار کو ہاتھ ڈالا‘ وہ بام عروج پر پہنچ گیا۔ کیا اتنا وسیع علم اور تجربہ رکھنے والی شخصیت اس نون لیگ کی کارکردگی سے ناواقف تھی جس کے لیڈر گزشتہ تیس برس سے اقتدار کے لوشے لوٹتے آ رہے ہیں اور اس دوران ملک اور عوام غریب اور ان کے اپنے اثاثوں میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو رہا تھا۔ جو بات بچہ بچہ جانتا ہے ‘آخر اُسے سمجھنے میں گورنر صاحب کو سترہ ماہ کیوں لگے؟ کیا وہ واقعی بے قصور ہیں یا بات کچھ اور ہے؟ عمرے پر جانے سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا فون آیا تو میں نے پہلا سوال ان سے یہی پوچھا تھا کہ دھرنے کے دوران چودھری سرور کے استعفیٰ اور تحریک انصاف میں شمولیت کی افواہیں کتنی درست تھیں تو خان صاحب نے کہا‘ آپ ایک دو ہفتے اور انتظار کر لیں‘ کچھ سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ گورنر سرور کے ایک قریبی دوست ‘ جن کا نیویارک میں ایک ریسٹورنٹ بھی ہے ‘ انہوں نے بھی دس روز قبل مجھے گورنر صاحب کے استعفیٰ کی پیش گوئی کر دی تھی تاہم وہ تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں‘ اس کا جواب ابھی باقی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گورنر صاحب نے ان سترہ ماہ میں جس طرح اپنا امیج برقرار رکھا اور نون لیگ کو چھوڑنے پر جس طرح ان کی پذیرائی ہوئی‘ یہ اس لئے کیا گیاتاکہ ان کا ایک سیاسی کردار تعمیر کیا جا سکے جس سے وہ کسی ممکنہ قومی حکومت میں ایک اہم عہدے پر فائز ہو سکیں اور عوام انہیں قبول بھی کر لیں۔
سرور صاحب کوئی بھی فیصلہ کریں‘ یہ اُن کی مرضی ہے لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ پاکستان اور اس کے عوام کے لئے جس درد اور کرب کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں کیا اور جس دُکھ کو بنیاد بنا کر انہوں نے اس عہدے کو لات ماری‘ اسی درد اور کرب کا اظہار عمران خان بھی گزشتہ اٹھارہ برس سے کر رہے ہیں۔ دونوں طویل عرصہ بیرون ملک رہے‘ نام‘پیسہ‘شہرت اور عزت کمائی اور دونوں ہی جدید ممالک کی طرز پر اس ملک کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان بھی ایک نیا پاکستان چاہتے ہیں اور چودھری محمد سرور بھی پرانے پاکستان میں خوش نہیں ہیں تو پھر اس نئے پاکستان کیلئے دونوں مل کر ایک اور ایک گیارہ کیوں نہیں ہو جاتے؟
آخر میں ایک لطیفہ: ممنوعہ مواد پر مشتمل کتابوں کیلئے چھاپے مارنے والے چند پولیس اہلکاروں کے ہاتھ ایک کتاب لگی جس کے مصنف مولانا شبلی نعمانی تھے۔ کانسٹیبل حضرات کو اس کتاب میں گڑبڑ لگی تو سارے اُردو بازار میں پھرتے رہے کہ مولانا شبلی کا ایڈریس معلوم کر سکیں تاکہ انہیں گرفتار کیا جا ئے۔