گزشتہ روز دھوپ بڑی اچھی نکلی ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے یہ یوم کشمیر بھی تھا۔ عوام کے لئے پارکوں ‘تفریح گاہوں اور دوستوں رشتہ داروں کے پاس جانے کا اس سے بہتر موقع اور کیا تھا۔ جنہوں نے کشمیر کاز کے لئے جلسے جلوس نکالنے تھے‘ وہ اپنا کام کر رہے تھے۔ کرتے بھی کیوں ناں کہ بڑی بڑی لینڈ کروزریں‘ مراعات‘ چندے اور بیرونی دورے بھی تو اسی مد میں ملتے ہیں۔ سال میں ایک دن بھی دنیا کو یہ سب نہ دکھائیں تو کب دکھائیں کہ کشمیر اور کشمیروں سے ہمیں بڑی محبت ہے اور ہم کشمیر کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ کشمیر کے نعرے لگانے والوں کی حکومت میں ہی ماڈل ٹائون جیسے سانحے برپا ہوتے ہیں‘ حاملہ خواتین کو منہ میں گولیاں ماری جاتی ہیں اور کشمیریوں کی طرح یہاں بھی لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ جمعرات کی چھٹی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سرکاری اداروں کے افسران اور ملازمین نے جمعے کی چھٹی لی اور یوں چار روز کیلئے کسی کو مری کی برف باری اور پُرفضا مقامات دیکھنے کا موقع مل گیا اور کسی کو اپنے ننھیال اورددھیال جانے کا۔ رہا کشمیر کا سوال تو‘ اس کے لئے چند سیاسی اور مذہبی جماعتیں جلوس وغیرہ نکال کر میڈیا کوریج کروا لیں گی۔ رہے نام اللہ کا۔
کل جب کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے جلسوں اور ریلیوںمیں بھارت کے ریاستی مظالم کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ کشمیر ی عوام تو سڑسٹھ برس سے سات لاکھ بھارتی فوج کے ظلم و جبر کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن پاکستان جو بھارت سے آزاد بھی ہو چکا اور جہاں جمہوریت بھی لینڈ کر چکی‘ یہاں کے عوام ریاستی جبر و استحصال سے کس قدر محفوظ ہیں ۔ آج بااثراشرافیہ کے علاوہ کون یہ وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ اسے یہاں جان و مال کا وہ تحفظ حاصل ہے اور اسے وہ سب حقوق میسر ہیں جو
آزاد جمہوری معاشروں میں عوام کو حاصل ہوتے ہیں اور جن سے یورپ اور امریکہ کے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔زیادہ دور نہیں جاتے۔ آپ سولہ دسمبر کا پشاور سانحہ دیکھ لیں۔ یہ پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین واقعہ تھا لیکن نہ تو اسے پاکستانی حکمرانوں نے سنجیدگی سے لیا‘ نہ امریکہ نے اس ردعمل کا اظہار کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ کل پشاور سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ اس سانحے کے حقائق پر مبنی رپورٹ منظر عام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے قتل میں کون کون شریک تھا۔ کس کس کی نااہلی اس دلدوز سانحے کی وجہ بنی۔ ایک بات جو انہوں نے کہی‘ وہ میرے ذہن میں بھی کئی دنوں سے گھوم رہی تھی کہ ملالہ یوسف زئی اور آرمی پبلک سکول کے بچوں میں کیا فرق تھا۔ ملالہ بھی پڑھنا چاہتی تھی اور یہ بچے بھی علم کے حصول کے دوران شہید ہوئے۔ یہ بچے تو ملالہ سے ایک درجہ زیادہ رکھتے تھے کہ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی نجی ادارے میں نائن ٹو فائیو کی نوکری نہیں کرنی تھی بلکہ یہ ہماری راتوں کے سکون کے امین بننے والے تھے۔ وہ دشمن جو 65ء سے لاہور جمخانہ میں بیٹھ کر ناشتہ اور سری پائے اڑانے کا خواہشمند ہے‘ ان بچوں نے اسے ناکوں چنے چبوانے تھے۔ لیکن یہ کیا کہ ملالہ کو گولیاں لگیں تو اُسے نوبل انعام سمیت دنیا کے ہر ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے‘ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں اور ادارے اسے اپنے ہاں لیکچر دینے کے لئے بلاتے ہیں لیکن جب ویسے ہی پاکستانی بچوں کو کسی سکول میں گولیوں سے
بھونا جاتا ہے تو نہ تو حکومت ان کے لئے کسی ایوارڈ کا اعلان کرتی ہے نہ ہی ان کی اس طرح پذیرائی ہوتی ہے جس کی ان بچوں کے والدین اور قوم کو توقع تھی۔ قوم پوچھتی ہے کیا یہ بچے نشان حیدر سے کم کے مستحق تھے ؟اور وہ پرنسپل اور اساتذہ بھی جنہوں نے اپنے بچوں کو چھوڑ کر بھاگنے کی بجائے پہلی گولی اپنے سینے پر کھانا فخر سمجھا؟ اس سلسلے میں محترم نذیر ناجی کی تجویز بہترین تھی کہ سکول میں بچوں کی ایک یادگار تعمیر کی جائے۔ انہوں نے عمران خان کو یہ نیکی کمانے کا مشورہ دیا تھا۔ اسی طرح کالم نگار افضل رحمان کی تجویز بھی دل کو لگی تھی کہ جن والدین نے یہ ناقابل برداشت دُکھ دیکھا ہے‘ ان والدین کو حکومت سرکاری خرچے پر ایک ہی جہاز میں عمرے کے لئے بھیجے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ انسان کتنا ہی پریشان ہو‘ اسے کتنی ہی بڑی چوٹ کیوں نہ لگی ہو‘ بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں حاضری سے اُس کی پریشانی اور تکلیف بھی کم ہوتی ہے ۔خانہ کعبہ کی چادر مبارک اور روضہ رسول ﷺ کی جالیوں سے لپٹنے کے بعد انسان کو دنیا کا کون سا دُکھ اور کون سی تکلیف یاد رہ جاتی ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینے اور مقامات مبارکہ کی زیارت سے بہتر انسان کے لئے کون سا مرہم ہو سکتا ہے جو کسی بوجھل دل کو ہلکا کر دے‘ کسی کے زخموں کو مندمل کرے اور طبیعت کی بے چینی اور اضطراب کو دُور کردے۔ یہ شاندار تجویز تھی۔ ممکن ہے بہت سے والدین خود عمرے پر جانا افورڈ کرتے ہوںلیکن اس عمل کا مقصد یہ ہوتا کہ حکومت اور پوری قوم ان کے دُکھ میں برابر کی شریک ہے اور ان کا غم بانٹنا چاہتی ہے۔ بات پیسوں کی نہیں بلکہ جذبے اور انسانیت سے ہمدردی کی ہے۔ ایسے تمام والدین اکٹھے جاتے تو اس طرح انہیں ایک دوسرے کا دلاسا بھی ہوتا کہ سبھی کو ایک جیسی تکلیف پہنچی تھی اور سبھی کے پیارے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے تھے۔اس سے وہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو ہمت اور حوصلہ دینے کا باعث بنتے۔ سانحے میں کل ڈیڑھ سو بچے اور اساتذہ شہید ہوئے تھے۔ اگر ہر بچے کے والدین اور ساتھ دو بچوں کو اوسطاً عمرے پر لے جایا جائے تو یہ کل چھ سو افراد بنتے ہیں۔ اگر ایک شخص کے عمرے پر ایک لاکھ خرچ آتا ہو تو چھ سو افراد کیلئے چوبیس کروڑ روپے درکار ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مرکزی یا صوبائی حکومت یہ افورڈ نہ کر سکتی ہو۔ چلیں انہیں چھوڑیں‘ ملک ریاض ‘ اوورسیز پاکستانی اور دیگر بڑے دل والوں سے تو ایسی اُمید لگائی جا سکتی ہے جن کا ماضی بھی ان کی نیکیوں کی گواہی دیتا ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران ہمارے معاشیات کے پروفیسر بتایا کرتے کہ پاکستان اور جدید ممالک کے درمیان پچاس سال کی دُوری ہے۔ جہاں وہ آج ہیں ‘ ہم پچاس برس بعد پہنچیں گے۔ اس بات کو بیس برس گزر گئے۔ آج یہ فاصلہ دو سو برس یا اس سے بھی زیادہ طویل نظر آتا ہے۔ ویسے بھی جس ملک میں ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹروں نے دہشت گردی کی نرسریوں کی خود آبیاری کی ہو‘ وہاں یہ فاصلے بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ اس بے بسی کا اندازہ اس خبر سے بھی ہوا کہ چین میں علی بابا نامی کمپنی نے ایسے کورئیر ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے جو صارفین کو انٹرنیٹ پر خریدی گئی اشیا اڑتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔اس سلسلے میں ادرک والی چائے پہنچانے کا آغاز شروع کر دیا گیا ہے جس کی چین میں بہت مانگ ہے۔ تین سو چالیس گرام وزنی چائے کا باکس ایک چھوٹا سا ڈرون اڑتے ہوئے صارف کے گھر کے دروازے تک منٹوں میں پہنچا دیتا ہے۔چند ماہ بعد دیگر اشیا بھی آرڈر پر اسی طرح منگوائی جا سکیں گی۔ مقصد ظاہر ہے وقت اور پٹرول کی بچت ہے کہ ڈرون کو نہ سپیڈ بریکر کی پروا نہ ٹریفک سگنل کی۔ فی الحال یہ سروس تین شہروں بیجنگ‘ شنگھائی اور گوینگ ہومیں شروع کی گئی ہے جو چند ہی برسوں میں پورے چین میں پھیل جائے گی۔ کمپنی نے پچھلے ایک برس میں میں پچیس بلین ڈالر کا منافع کمایا ہے۔ ڈرونز کورئیر سروس اپنانے کے بعد یہ منافع کئی گنا بڑھ جائے گا۔ہم پاکستانیوں کے لئے اس طرح کی خبریں کتنی عجیب لگتی ہیں کہ جہاں ہر چیز سکیورٹی میں ہی ناپی اور تولی جاتی ہے۔ جب دہشت گردی کے حالات نہ تھے تب بھی ہمارے حکمرانوں ‘ معیشت دانوں نے کون سا تیر مار لیا تھا۔ تب ہم جنہیں جہادی بنا کر بیرون ملک برآمد کر رہے تھے‘یہی لوگ واپس آ کر ہم پر حملہ آور ہو گئے۔ ہمارے ہی چلائے ہوئے میزائلوں کا رُخ واپس ہماری طرف مڑ گیا اور ہم جان بچانے کیلئے آگے آگے بھاگ رہے ہیں ۔ دوسری طرف چین جیسا ملک ہے‘ جہاں ڈرونز گھروں سے شاپنگ کا آرڈر دینے والوں کو چیزیں یوں پہنچارہے ہیں جیسے سامنے الف لیلیٰ کی کوئی داستان چل رہی ہو!