ذرا لاہور پولیس کا ایکشن پلان ملاحظہ کریں۔
گزشتہ روز علی الصبح پولیس نے لارنس روڈ کو دونوں اطراف سے بند کر دیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ بچے سکولوں اور لوگ کام کاج سے لیٹ ہو گئے۔ ایمبولنسیں ٹریفک میں پھنس گئیں لیکن پولیس والوں کو رحم نہ آیا۔ لارنس روڈ پر جن لوگوں کی رہائش تھی انہیں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ صرف پیدل جانے کی اجازت تھی۔سگریٹ کا دھواں اڑاتے،پولیس اہلکار لوگوں سے بدتمیزی کرتے تلاشی لیتے رہے۔ کہا گیا کہ امتحانی مرکز میں سب انسپکٹرز کے عہدے کیلئے امتحان ہو رہا ہے اس لئے سکیورٹی سخت کی گئی ہے۔امتحان دینے والے امیدوار وںکی سکیورٹی کے لئے غیر اعلانیہ طور پر سڑک صبح سے شام تک بند رہی اور بظاہر وہاں چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہ تھی ۔ تاہم پولیس کے حفاظتی انتظامات کا پول وہاں موجود واک تھرو گیٹ نے کھول دیا جسے بیٹری یا بجلی سے منسلک تک نہیں کیا گیا تھا۔ واک تھرو گیٹ سے گزریں تو یہ لوہے کی کسی چیز پر سائرن یا بیپ دیتا ہے لیکن یہ کیسا گیٹ تھا جس میں سے گزرنے والے ہر شخص پر یہ خاموش ہی رہتا تھا۔پولیس اہلکار چاق و چوبند رہنے کی بجائے موبائل پر گپیں لگانے اور سگریٹ کے دھوئیں اڑانے میں مگن رہے ۔سڑک بند کرنے سے سارا لوڈ مال روڈ ‘جیل روڈ اور ملحقہ سڑکوں پر آ گیا جس سے گھنٹوں ٹریفک جام رہی۔ سکولوں کی چھٹی کے وقت تو منظر اور بھی خوفناک ہو گیا۔ ٹریفک میں خوار لوگ پوچھتے رہے کہ اس سڑک کو مکمل بند کرنے کی بجائے ایک سائیڈ بند کر دی جاتی اور ایک طرف ٹریفک چلتی رہتی تو کون سا عذاب نازل ہو جاتا۔پولیس کے
امتحانات شہر کے بیچوں بیچ لینے کا کیا تُک تھا ۔رائے ونڈ میں اتنی جگہ خالی پڑی ہے۔ ویسے بھی ان امیدواروں نے پولیس میں بھرتی ہو کر حکمران خاندان کی حفاظت ہی کرنی ہے تو پھر رائے ونڈ کے محلات میں ہی ان کے امتحان لے لئے جاتے۔ جو لوگ اتنی سخت سکیورٹی میں امتحان دے رہے تھے‘ ذرا ان کی حالت کا بھی سوچئے کہ جب ان کی حفاظت اس طرح کی ہو کہ ہر طرف کرفیو نافذ کر دیا جائے تو وہ سب انسپکٹر بن کر عوام کی کیا خاک حفاظت کریں گے۔ ویسے بھی کون نہیں جانتا کہ ایسے امتحانات میں پاس اُسی نے ہونا ہے جس کے پاس ایم پی اے ‘ایم این اے یا کسی وزیر کی چٹ ہو گی تو پھر اس سارے ڈرامے کا فائدہ؟سڑکیں بند کرنا کوئی پولیس اور حکمرانوں سے سیکھے۔ مسلم ٹائون تھانے کے باہر سڑک بھی دونوں اطراف سے کئی سالوں سے ہے۔ اسی طرح حکمران خاندان کی ماڈل ٹائون کی رہائش گاہ کے پیچھے جو سڑک ہے وہ بھی عرصے سے آمدورفت کیلئے بند ہے۔ اس کے مقابلے میں منہاج القرآن مرکز پر پولیس کی کئی پلٹنیں حملہ آور ہو گئیں کہ وہاں رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ شادمان میں آئی جی جیل خانہ جات نے اپنے گھر کو آنے والی سڑک کو دونوں طرف سے بند کر رکھا ہے۔خود محفوظ ہو گئے لیکن اس کے سامنے جو تعلیمی ادارہ ہے اس کی انہیںکوئی پروا ہے نہ پولیس کو۔ میں نے ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف سے ذاتی طور پر درخواست کی تھی کہ وہ سکیورٹی کو یقینی بنائیں اور تہہ در تہہ سکیورٹی نظام متعارف کرائیں۔سکیورٹی کا دنیا بھر کا اصول ہے کہ یہ تہوں میں لگائی جاتی ہے تاکہ دہشت گرد ایک حد پار کر لیں تو دوسری میں پکڑے جائیں۔ انہوں نے ایس ایچ او شادمان کی ڈیوٹی بھی لگائی لیکن انہوں نے اس معاملے میں تجاویز کو خاطر میں لانا مناسب نہیں سمجھا‘یا بھول گئے۔
کل ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ پشاور سکول پر حملے کی ایک رپورٹ کے حوالے سے دہشت گردوں کی کارروائی کی تفصیلات بتا رہے تھے کہ کون کون سے گروپ اس حملے میں شامل تھے ‘ کس نے انہیں وسائل مہیا کئے‘ کس نے پناہ دی اور کون انہیں سکول تک لایا ۔ میں جب یہ بریفنگ سن رہا تھا تو مجھے گزشتہ روز لاہور پولیس کا یہ ایکشن پلان یاد آ گیا جو اس نے اپنے سب انسپکٹروں کے تحفظ کے لئے بنایا تھا۔ اگر پولیس کا سکیورٹی پلان یہ تھا کہ وہ سرکاری گاڑیوں کو دیکھتے ہی سلیوٹ مارنے لگے‘ ان کے لئے رکاوٹیں ہٹائے اور انہیں حساس مقامات کی طرف آنکھیں بند
کر کے جانے دے‘ چاہے ان کے بھیس میں دہشت گرد ہی ہوں تو ایسی سکیورٹی کا اللہ ہی حافظ ہو گا۔ مجھے وہ کارپورلز بھی یاد آ گئے جن کے ایک پاسنگ آئوٹ دستے نے گزشتہ دنوں دہشت گردی سے نمٹنے کا مظاہرہ میڈیا کو دکھایا۔ کیا تین چار سو اہلکاروں کا ایک دستہ پورے صوبے یا شہر کی حفاظت کر سکتا ہے ؟جب باقی ساری نااہل پنجاب پولیس اس طرح کے بوگس سکیورٹی پلان بنائے گی تو عوام دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی بددعائیں نہ دیں تو کیا کریں۔کیا اعلیٰ پولیس افسران یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پولیس کی یہ تربیت کی ہے کہ وہ سرکاری گاڑیوں میں موجود لوگوں کو چھوٹ دے کر کسی نئے سانحے کوبرپا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مجھے ایک ویڈیو بھی موصول ہوئی جس میں ایک ایم پی اے کی لینڈ کروزر کو چائنا چوک سے لارنس روڈ پر مڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس اور ٹریفک وارڈن یہ کہتے ہوئے بیرئیر ہٹاتے ہیں کہ راستہ کھول دو ‘ایم پی اے صاحب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایم پی اے صاحب اُدھر کیا کرنے جا رہے تھے۔ کیا ان کی رہائش اُدھر تھی یا پھر وہ سب انسپکٹروں کو نقل کا مواد فراہم کرنے گئے تھے۔ دونوں صورتوں میں عام آدمی کی طرح انہیں بھی روکا جانا چاہیے تھا ۔ دوسری طرف دوپہر کو سکول کے ان بچوں کے رکشوں کو بھی روکا گیا جو امتحانی مرکز کی ساتھ والی گلی میں رہائش پذیر تھے۔ ایک رکشے والے نے پولیس اہلکار سے درخواست کی کہ اُسے اندر جانے دیں کیونکہ بچوں کی ساری ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے۔ اس پرپولیس اہلکاروں نے رکشے والے کو تھپڑوں اور گھونسوں کا نشانہ بنایا۔دہشت گردوں کو دُور سے دیکھ کر دوڑیں لگانے والے یہ پولیس والے بہت دیر تک ایک رکشہ والے پر اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے رہے۔ موقع پر کسی نے مجھے یہ منظر دیکھ کر فون پر صورتحال بتائی تو میں نے یہ پیغام آگے ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف کو بھیج دیا۔ ان کا فون آیا تو میں نے انہیں پہلا گلہ یہی کیا کہ یہ امتحان کہیں اور نہیں لیاجا سکتا تھا تو وہ فرمانے لگے کہ اس کا فیصلہ وہ نہیں کرتے کہ امتحان کہاں ہونا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن پولیس نے جس طرح کی مس مینجمنٹ کی‘ امتحان دینے والے ہزاروں امیدواروں کی جان کو خطرے میں ڈالا اور آس پاس کے رہائشیوں کو پورا دن گھروں میں نظر بند رکھا‘ اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ وہ کہنے لگے میں آپ کو چیک کر کے بتاتا ہوں کہ کس کی غلطی ہے۔ اس کے بعد اُن کا فون نہیں آیا۔ ظاہر ہے سڑک بند کرنے کا پورا سکیورٹی پلان بنا ہو گا اور اس کے بعد ہی اس پر عمل ہوا ہو گا لیکن ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ پشاور حملہ میں طالبان ایسے ناکوں سے ہوتے ہوئے ہی سکول تک پہنچے تھے۔ ظاہر ہے انہوں نے بھی کوئی سرکاری نمبر والی گاڑی والا فارمولا چلایا ہو گا۔ کل بھی پولیس نے پوری کوشش کی کہ دہشت گردوں کو سرکاری گاڑی کی آڑ میں امتحانی سنٹر تک پہنچنے دیا جائے ۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات اسی لئے ہوئے کہ اندر سے انہیں مدد ملتی رہی یا سکیورٹی پر مامور لوگوں کی غفلت ان کے کام آئی۔ اگر گزشتہ روز خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو ساری ذمہ داری پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس پر آتی ۔پولیس کی اس دانستہ غفلت سے ایک اور سانحہ پشاور ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کیا وزیراعلیٰ شہباز شریف اس کا نوٹس لیں گے؟