وزیرمملکت عابد شیر علی کے اس بیان پر کوئی ہنسے یا روئے کہ پاکستان ٹیم فائنل میں پہنچی تو پورا ماہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ اس بیان کے اگلے روز پاکستان بھارت سے میچ ہار گیا۔ وزیر موصوف کے اس بیان کے بعد میں سمجھ گیا کہ اتنا اہم میچ ہارنا قوم کیلئے اچھا شگون نہیں‘ میچ ہارنے سے بجلی کی قومی پیداوار میں یقینا تین ہزار میگا واٹ بجلی مزید کم ہو جائے گی اور لوڈشیڈنگ تین گھنٹے مزید بڑھ جائے گی۔
کیا ہمارے سیاستدان قوم کو اتنا ہی بدھو اور بیوقوف سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں جب چاہیں‘ جیسے چاہیں پاگل بناتے رہیں گے؟ کوئی ان سے پوچھے کہ بجلی اور کرکٹ کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ اگر چوکوں چھکوں اور میچوں کی ہار جیت سے بجلی میں کمی بیشی ہوسکتی ہے تو پھر ڈیم‘ آئی پی پیز ‘ کوئلے‘ ہوا اور شمسی توانائی کے سارے پراجیکٹ بند کر دیں ۔پھر واپڈا‘ این ٹی ڈی سی اور ضلعی الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کو تالا لگا دیں تاکہ ان پر اٹھنے والے کروڑوں اربوں کے اخراجات بچائے جا سکیں۔ اس کی بجائے کرکٹ کی چند اکیڈمیاں بنا کر ہر نوجوان کے ہاتھ میں بلا اور گیند پکڑا دیں اور زیادہ سے زیادہ ٹیمیں بنا کر دن رات ٹورنامنٹ کرائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ میچ جیت کر زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا اور لوڈشیڈنگ کم کی جا سکے۔ یعنی حالت یہ ہو چکی کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے میں ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے عوام کے ساتھ اب سیدھا سیدھا مذاق شروع ہو گیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے اور مذاق بھی ان کروڑوں عوام کا اڑایا جا رہا ہے جن کی دیہاڑیاں اور بچوں کا رزق لوڈشیڈنگ کا اژدھا ہڑپ کئے بیٹھا ہے۔
حکومت تو حکومت‘ ہم نے تو کرکٹ کے کھیل کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی اسے مذہب سے جوڑتا ہے تو کوئی ستاروں کا حال دیکھ کر میچ سے پہلے ہی جیت کا اعلان کر دیتا ہے۔ بندہ پوچھے‘ اگر ہماری قوم دُعائیں کر رہی ہے تو کیا دوسری قوم بددعائیں دے کر اپنی ٹیم کو میدان میں بھیجتی ہے؟ عمران خان کہہ کہہ کر تھک گئے کہ کلب کرکٹ کا رواج ڈالو اور پہلے ٹیم بنا ئو پھر میچ بھی کھیل لینا۔ ویسے یہاں ٹیم کا انتخاب ہوتا کیسے ہے کہ پی سی بی کا جو بھی چیئرمین آیا‘ سب کا اپنا اپنا کپتان‘ اپنے اپنے کھلاڑی اور اپنی اپنی پسند تھی۔ اگلا چیئرمین آیا تو اس نے پوری ٹیم ہی بدل کر رکھ دی۔ وجہ پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ فلاں پلیئر فلاں چیئرمین یا سیلیکٹر کے زیادہ قریب ہے۔ ہر پلیئر کی خواہش ہے کہ طاقتور لابی کا حصہ بنے نہ کہ اپنا کھیل بہتر کرے تو پھر رونے کا کیا فائدہ۔ پھر ہارنا ہی تھا۔ ساری کی ساری سلیکشن ہی سیاسی نکلی۔ گزشتہ دور میں پیپلزپارٹی کی ایک اہم شخصیت کے گھر ڈنر تھا۔ یہ شخصیت وزیراعظم گیلانی کے لاہور میں کاروباری معاملات کو دیکھتی تھی۔ وہاں ڈرائنگ رُوم سے ان تین کھلاڑیوں میں سے ایک کو نکلتے دیکھا جس پر میچ فکسنگ پر پابندی لگی تھی۔ حیرانی اس پر ہوئی کہ وہ کھلاڑی ڈنر میں شریک نہیں ہوا بلکہ خاموشی سے نکل گیا۔ ظاہر ہے آمد کا مقصد سیاسی سپورٹ کا حصول تھا۔ پاک بھارت میچ میں ایسا لگا کہ ٹیم بغیر کپتان کے کھیل رہی ہے۔ ہر کوئی اپنے تئیں زور لگاتا
دکھائی دیا۔ یہی حال وزارت بجلی و پانی اور دوسرے محکموں کا ہے۔ مجھے تو خواجہ آصف کے بیان ‘کہ اب پانی کا بحران آنے والا ہے‘ سے زیادہ عوام کے ردعمل پر حیرانی ہوتی ہے کہ کس بے فکری سے عوام سب کچھ چپ چاپ سن رہے ہیں۔ جس وزیر کی ذمہ داری بجلی پیدا کرنا ہے‘ وہ آئے روز عوام کو لوڈشیڈنگ کے اوقات اور اسے ختم کرنے کی تاریخیں دیتا رہتا ہے اور اب یہ ''انکشاف ‘‘سنا کر احسان کیا جا رہا ہے کہ پانی کا شدید بحران آنے والے ہے۔ یعنی ڈیم اور ریزروائر بنانے ‘بارش کا پانی اکٹھا کرنے اور بھارت کی طرح آبی بحران پر قابو پانے کے اقدامات کی بجائے عوام کو ڈراوے دئیے جا رہے ہیںکہ جیسے خبردار کرنا ہی ان کا کام ہے۔ بہت اچھے۔ یعنی عوام تیار رہیں اور حکمران موج مستیاں کرتے رہیں‘ بس سال دو سال بعد ایک میٹروبس منصوبہ بنائیں اور یوںظاہر کریں کہ ہم نے ہر مسئلے پر قابو پا لیا ہے۔
اس ردی قسم کی سیاست پر تو اب تبصرہ کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ یہ سیاست اب معدوم ہو چکی۔ کوئی اُمید کسی کو ہے تو تحریک انصاف سے ‘وہ بھی تب اگر وہ واقعی ڈلیور کرنے پر آمادہ ہو۔ اب جبکہ چودھری محمد سرور اس کا حصہ بن چکے ہیں‘لوگوں کی توقعات کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔چودھری سرور کے اس عمل کو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا کہ انہوں نے پارٹی میں کوئی بڑا عہدہ لینے کا لالچ نہیں کیا جو ہمارے ہاں سیاستدانوں کا عمومی وتیرہ ہوتا ہے۔وہ چاہتے تو مرضی کا عہدہ قبول کرتے اور جاوید ہاشمی کی طرح ''آئی کون ‘‘بن کر بیٹھ جاتے۔ کرتے کراتے کچھ ناں‘ بس پارٹی میٹنگز میں شرکت کرتے اور اخباری بیانات کا پیٹ بھرتے رہتے۔ پارٹی کو آرگنائز کرنے کا جو بیڑہ انہوں نے اُٹھایا ہے‘ اس سے اہم کام کوئی نہیں ہے۔ یہاں عمران خان کے اس اعتراف پر بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے کہا کہ پارٹی آرگنائز کرنے کی صلاحیت مجھ میں نہیں اور اس کمی کو چودھری سرور پورا کریں گے جو اس کام میں سپیشلائزیشن رکھتے ہیں۔ چودھری سرور بھی ایسے ہی سادے اور کھرے انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیڈو کابینہ کی تجویز بھی خان صاحب نے فوراً مان لی۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ چودھری صاحب بنیادی طور پر بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کے نمائندہ ہیں۔ اگر اگلے انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل جاتا ہے تو پھر یہ تحریک انصاف کیلئے نیک شگون ہو گا۔ خان صاحب کو دھاندلی کے ایشوز اٹھانے سے زیادہ اس شق کو آئندہ انتخابی اصلاحات میں لازمی شامل کرانے پر زور دینا ہو گا ۔اوورسیز پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ وہ کچھ بھی نہ بھیجیں تب بھی ان کا وطن پر اتنا ہی حق ہے جتنا ملک میں مقیم پاکستانی کا۔ یہ لوگ اپنی خوشی سے ملک چھوڑ کر نہیں گئے۔ جو خوشی سے گیا‘ اسے بھی آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا۔ یہ سب اپنے وطن کو جدید اور پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک پر کوئی آفت آ جائے تو یہ سب سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔ انہیں ووٹ کا حق دلانے کا فریضہ چودھری سرور نے انجام دے دیا تو اس کے اثرات صرف تحریک انصاف کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے خوش آئند ہوں گے۔ یہ کام جی ایس پی پلس سٹیٹس سے کہیں زیادہ مفید ہو گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا تو اس بیمار معاشرے میں نئی جان پڑ جائے گی۔وگرنہ ایسے ہی حکمرانوں کے گھسے پٹے جملے سنائی دیتے رہیں گے کہ میچ جیتو‘ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی!
پس تحریر: چیف ٹریفک آفیسر لاہور طیب حفیظ چیمہ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ ٹریفک پولیس کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے ایک سکیم شروع کر رہے ہیں جن میں چھوٹے ملازمین کو راشن کی تقسیم کی جائے گی تاکہ ان کے گھریلو حالات میں بہتری لائی جا سکے۔ گزشتہ روز ایک تقریب میں انہوں نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور ایک سادہ سی تقریب میں ٹریفک پولیس لائن ٹھوکر نیاز بیگ کے درجہ چہارم کے ملازمین میں راشن تقسیم کیا۔ یہ بظاہر ایک چھوٹی سی خبر تھی لیکن یہ ملازمین جس قدر سخت ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور جتنی قلیل تنخواہ میں گزارا کرتے ہیں‘ اس میں یہ اقدام بہت بڑی نیکی دکھائی دی۔ اس سلسلے کو دیگر محکموںتک بڑھانا چاہیے تاکہ اہلکار گھریلو مسائل کے دبائو اور فکر سے آزاد ہو کر ڈیوٹی انجام دے سکیں۔