کچھ عرصہ قبل ایک یورپی ملک کے ایک اخبار نے اپنی اشاعت بڑھانے کے لئے ایک ڈرامہ کیا۔ اس نے جرائم پیشہ افراد سے رابطہ کیا‘ انہیں معقول رقم دی اور ان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ فلاںجنگل سے گزرنے والے چند سیاحوں کو قتل کریں گے۔ طے یہ پایا کہ جب یہ سیاح قتل کئے جائیں گے تو وہاں اُسی اخبار کا ایک فوٹوگرافر بھی ساتھ ہو گا جو یہ ایکسکلوسو تصاویر فوری طور پر اپنے اخبارکو بھجوا دے گا۔ واردات کے لئے رات گہری ہونے کا انتظار کیا گیا تاکہ کوئی اور اخبار یا میڈیا اس کی کوریج نہ کر پائے۔ جرائم پیشہ افراد نے جس کام کی سپاری لی تھی‘ وہ کام نہایت ایمانداری سے مکمل کیا۔ انہوں نے چار سیاحوں کو قتل کر دیااور ان کی خوفناک تصاویر فوٹوگرافر نے فوری طور پر اپنے اخبار کو اشاعت کے لئے دے دیں۔ اگلے روز اس اخبار کے صفحہ اول پر مقتول سیاحوں کی تصاویر کے ساتھ خصوصی رپورٹ شائع ہوئی۔ اس سے نہ صرف ہر طرف سنسنی پھیل گئی بلکہ اخبار کی ریکارڈ ستاسٹھ لاکھ کاپیاں بھی فروخت ہوئیں اور یوں اخبار کے مالک کا مقصد بھی پورا ہو گیا۔ قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جرائم پیشہ افراد نے اخبار مالک سے مزید رقم کا مطالبہ کیا۔انکار پر انہوں نے سازش کی اصل تفصیلات تمام میڈیا کو بھجوا دیں جس کے بعد اخبار کا مالک چار افراد کے بہیمانہ قتل پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔
گزشتہ دنوں ایک یا دوچینلز( دنیا نہیں) نے یہ ایکسکلوسو خبر چلائی کہ کراچی میں ابراہیم حیدری کے علاقے میں کتے کا گوشت فروخت کرنے والے گروہ کا انکشاف ہوا ہے۔ خبر پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا۔تاہم تفتیش کے دوران کہانی کچھ اور نکلی۔ معلوم یہ ہوا کہ پلان ایک نجی چینل نے خود ہی بنایا تھا اور اس کے لئے دو نشیئوں کی مدد حاصل کی گئی۔ ان دونوں کو ایک نجی ٹی وی کی گاڑی میں بٹھا کر سمندر کے کنارے لے جایا گیا اور انہیں زبردستی کتے کا گوشت کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ خبر کا مقصد سنسنی پھیلانا اور زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنا تھا۔ تفتیش کے دوران جب نشیئوں کی مرمت کی گئی تو ان کا نشہ اُترنے لگا اور انہوں نے سچ اُگل دیا۔ میڈیا کا واقعات اور انہیں پروموٹ کرنے کے حوالے سے کیا رویہ ہے اس کی مزید وضاحت گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی دو ویڈیوز سے بھی ہوتی ہے ۔ ایک ویڈیو انگلش گانے کی ہے جسے دو اَن پڑھ عام سی لڑکیاں سڑک پر کھڑے ہو کر گا رہی ہیں۔ اگر آواز بند کر کے آپ یہ ویڈیو دیکھیں تو ایسے محسوس ہو گا جیسے یہ کوئی پنجابی گیت گا رہی ہوں۔ ان کا حلیہ خود ان کی داستان بیان کر رہا تھا۔ شاہدرہ کے علاقے کی ان دو لڑکیوں نے ایک انگلش سنگر جسٹن بے بی کا گانا اسی کے لہجے میں گایا جسے کسی نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا۔گانا گانے والی لڑکیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیلی اور پھر ملک کے ٹی وی چینلز میں ان لڑکیوں کا انٹرویو کرنے اور انہیں اپنے پروگرامز میں مدعو کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی ۔ پہلی ویڈیو میں ان لڑکیوں کو دوپٹہ اوڑھے عام میلے کپڑوں میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ٹی وی چینلز نے میک اپ کے زور پر ان کو ایک نئے روپ میں دکھایا۔ ایسی ہزاروں ویڈیوز روزانہ سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں ۔ لوگ اپنا چھپا ٹیلنٹ یا اپنے دوستوں اور بچوں کے کارنامے سوشل میڈیا کی زینت بناتے رہتے ہیں۔ مقصد ہوتا ہے کہ دوست احباب سے تعریف کے چند کمنٹس اور لائیکس وصول کئے جائیں۔ انہی دنوں ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر آئی۔ یہ ویڈیو ایک پاکستانی ہونہار لڑکی کے ورلڈ ریکارڈ سے متعلق تھی جس نے صرف اکتالیس دن کے اندر قرآن پاک یاد کرکے سب کو حیران کر دیا۔ سیدہ طحٰہ راولپنڈی کے ایک عالم دین مولانا سید طیب الرحمن زیدی کی صاحبزادی ہیں۔ یہ ایف ایس سی کی طالبہ ہیں۔ یہ ڈاکٹر اور اسلامی سکالر بننا چاہتی ہیں۔ ایک دن دل میں قرآن حفظ کرنے کی اُمنگ پیدا ہوئی تو اللہ کا نام لے کر شروع کر دیا۔ خیال تھا کہ چار مہینے میں مکمل کر لیں گی لیکن اپنی فوٹو گرافک میموری کی بدولت صرف اکتالیس دنوں میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔ اس سے قبل یہ ورلڈ ریکارڈ نوے دنوں کا تھا جسے سیدہ طحہٰ نے عبور کر لیا۔ آپ فیس بک پر اس بچی کی تلاوت سنیں
گے تو آپ کا دل ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بچی کے اتنے اہم کارنامے کو وہ اہمیت نہ ملی جو ایک اسلامی ملک میں ملنی چاہیے تھی۔ اگرچہ میں نہیں سمجھتا کہ قرآن پڑھنے اور اسے یاد کرنے کا ثواب اور اس کی جزا جو اللہ انسان کو عطا کرتا ہے‘ اس کا صلہ معاشرے سے بھی وصول کرنے کی امید لگانی چاہیے لیکن بہر حال ایک اسلامی معاشرے کے کچھ فرائض تو بنتے ہیں ۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ راہ چلتی لڑکیوں کو جنہوںنے دو جماعتیں بھی پاس نہیں کیں‘ جنہیں اپنے گائے گئے انگلش گانے کے کسی لفظ کا مطلب بھی نہیں آتا‘ انہیں ہر دوسرا چینل صبح اور شام کے پروگراموں میں بلائے‘ ان کے اس ''شاندار‘‘ کارنامے پر ان کی تعریف کرے‘ ان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور ان سے ان کا پسندیدہ کھانا‘ پسندیدہ رنگ‘ سونے جاگنے کے اوقات اور آئندہ زندگی کی پلاننگ تک کی روداد نشر کر ڈالے لیکن دوسری طرف ایک معروف عالم دین کی صاحبزادی ہوں جو اس کتاب کو صرف اکتالیس دنوں میں اپنے سینے میں محفوظ کر لیں جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑپر نازل کر دیتے تو پہاڑ خدا کے خوف سے پھٹ جاتا اور یہ سب جاننے کے باوجود ایسی کاوش اور ایسی کامیابی کو ہم وہ اہمیت ہی نہ دیںجو اسے ملنی چاہیے تو ہم کیسی حکومت‘ کیسی سیاست اور کیسی صحافت کر رہے ہیں اور ہم کہاں کے مسلمان ہیں‘ اس کا جواب ہمیں خود ہی سوچ لینا چاہیے۔
پس تحریر: ضلع کرک سے ایک قاری عزیز الرحمن نے اہم مسئلہ اٹھایا ہے۔ پچاس سال قبل خیبر پختون خوا میں بالخصوص صوبے کے جنوبی حصے میں خواتین کی تعلیم کا کوئی کلچر نہ تھا۔ آج یہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے اور خواتین کی بڑی تعداد تعلیم کی طرف مائل ہو چکی ہے۔ ماسٹرز حتیٰ کہ پی ایچ ڈی خواتین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ تاہم فاٹا کے علاقے میں مقیم خواتین کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ چند خوش قسمت خواتین جوایڈہاک بنیادوں پر لیکچرر بھرتی ہوتی ہیں‘فاٹا سیکرٹریٹ میں ان خواتین لیکچررزکی شکایات سننے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ ابھی تک یہ سیکرٹریٹ گھوسٹ افسران کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جن تک رسائی انسانوں کو کم از کم حاصل نہیں۔ فاٹا سیکرٹریٹ کے سیکرٹری اور ڈائریکٹرز کے بارے میں شکایات آئی ہیں کہ وہ امیدواروں کے ساتھ مناسب طریقے سے پیش نہیں آتے جس سے ایسی ذہین خواتین حوصلہ شکنی محسوس کرتی ہیں۔ضروری ہے کہ جو خواتین ایڈہاک بنیادوں پر کام کر رہی ہیں‘ ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے انہیں مستقل کیا جائے۔ عزیز الرحمن کا کہنا ہے کہ میں عمران خان تک ان کی آواز پہنچنانے کا بہترین ذریعہ ہوں۔ یہ ان کا خیال ہو گا۔ میں البتہ یہ مسئلہ ان کے محکمے کے صوبائی وزیرتعلیم محمد عاطف کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ مجھے اور پوری قوم کو اس وقت کا شدت سے انتظار ہے جب کوئی مسئلہ میڈیا میں اٹھائے بغیر ہی ایک نظام کے تحت حل ہو جائے اور کسی سفارش ‘ کسی میڈیا اور کسی احتجاج کی ضرورت ہی نہ رہے ۔خان صاحب یقینا صوبے میں تبدیلی لانے کے لئے پلان ڈی پر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں تعلیم کو اولین ترجیح دینی چاہیے اور اس میں بھی خواتین کو سب سے زیادہ۔