"ACH" (space) message & send to 7575

یہ لینے دینے کی بات کہاں سے آ گئی!

ایک بادشاہ کے دربار میں ایک شخص آیا۔ وہ گانا سنا نا چاہتا تھا۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ وہ گانے لگا۔ بادشاہ کو اس کا گانا اتنا زیادہ پسند آیا کہ خوش ہو کر اُس کے لئے پانچ سو اشرفیوں کا اعلان کر دیا۔ یہ سن کر وہ شخص اور زیادہ جوش سے گانے لگا۔ اس پر بادشاہ اور زیادہ خوش ہوا اور اس کے لئے ہیروں کے ہار کا اعلان کر دیا۔ اس شخص کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ گاتا رہا ۔ بادشاہ اور خوش ہوا اور اسے دس ایکڑ زمین دینے کا اعلان کر دیا۔ وہ شخص اور زیادہ جذبے سے گانے لگا۔ بادشاہ اور خوش ہوا اور اس کے لئے دس کلو سونے اور پچاس کلو چاندی کا اعلان کیا۔ گانا ختم ہوا تو وہ شخص محل سے سیدھا گھرآیا اور خوشی خوشی اپنی بیوی کو بتانے لگا کہ بھاگ بھری! آج تو قسمت ہی بدل گئی۔ آج میں بادشاہ کے دربار میں گیا۔ بادشاہ نے میرا گانا سنا اور خوش ہو کر میرے لئے ہیرے‘سونے‘ چاندی‘ اشرفیوں اور دس ایکڑ زمین کا اعلان کیا۔ لاجونتی! اب تو ہمارے دن ہی پھر جائیں گے۔ کئی دن گزر گئے ‘بادشاہ کا کوئی بندہ ان کے گھر آیا اور نہ ہی اعلان کردہ انعامات ملے تو وہ شخص بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا اور بولا۔ حضور !آپ نے اُس دن میرا گانا سنا‘ آپ کو میرا گانا پسند بھی آیا اور خوش ہو کر آپ نے بھرے دربار میں میرے لئے ہیرے‘ سونے‘ چاندی‘ اشرفیوں اور ایکٹروں زمین کا اعلان بھی کیا لیکن آج اتنے دن گزر گئے‘ مجھے ان میں سے ایک چیز بھی نہیں ملی۔ بادشاد نے اس کی بات سنی تو زور کا قہقہہ لگایا اور بولا۔ یہ لینے دینے کی بات کہاں سے آ گئی۔ اس دن تم نے ہمیں گانا سنایا۔ تمہارا گانا ہمارے کانوں کو اچھا لگا اور ہم خوش ہوگئے۔ اس خوشی میں ہم نے تمہارے لئے انعامات کا اعلان کیا ۔یہ اعلان تمہارے کانوں کو اچھے لگے اور تم خوش ہوگئے‘ یوںہم دونوں نے ایک دوسرے کے کانوں کو خوش کیا۔ ارے بابا! یہ لینے دینے کی بات چھوڑو اور جائو اپنا کام کرو۔ 
سندھ کے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ صوبہ پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے۔ شاید پیپلزپارٹی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ بالخصوص اندرون سندھ لوگ کس حال میں ہیں‘ اس کی فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سید قائم علی شاہ ''صدیوں‘‘ سے صوبے کے وزیراعلیٰ چلے آ رہے ہیں۔ وہ غالباً سندھ کو بھی صدیوں پرانے حالات واپس لوٹانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے تھر میں فاقوں سے ہلاکتیں ہوں یا بیماریوں سے‘ یہ ان کا درد ِسر نہیں۔ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مواقع کیا خاک انہوں نے بڑھانے ہیں۔ کوشش ان کی یہ ہے کہ ان چیزوں کو ویسے ہی ناپید کر دیا جائے۔ شبیر احمد صاحب جیکب آباد میں ضلع تھل ‘یو سی لوگی تلکا کے ایک گائوں خدا بخش نورانی کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں‘ ماضی میں یہاں کے سکول سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم نہ سہی لیکن ضروری تعلیم حاصل کر کے سرکاری و نجی اداروں میں روزگار حاصل کرتے تھے۔ آج حالت یہ ہے کہ اس گائوں اور اس کے آس پاس کے دیہات کے تمام سکولوں کو تالا لگ چکا ہے۔ سکولوں کی عمارتیں یا تو کھنڈروں میں بدل چکیں یا پھر مویشیوں کے زیراستعمال ہیں۔ میں شبیر صاحب کو کیا جواب دوں
کہ جس سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات کا کئی ہفتوں سے شور پڑا تھا‘ جہاں بڑے بڑے تیس مار خان اکٹھے ہو کر آپ کے اور میرے بچوں کے لئے آئین اور قانون بناتے ہیں‘ آئین کا ایسا ہی آرٹیکل 25(A) واضح کرتا ہے کہ ریاست پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔سوال یہ ہے کہ جن سینیٹرز کی کروڑوں روپوں کی بولی لگی ہو‘ وہ منتخب ہو کر عوام کے مفاد کے لئے قانون سازی کریں گے یا اپنا خرچہ پورا کرنے کے بعد اُن کے لئے جنہوں نے انہیں منتخب کرایا اور ان کی بولی لگائی۔ رضا ربانی کے چیئرمین سینیٹ بننے پر لوگ بڑے خوش ہیں کہ بڑا صاف آدمی ہے۔ میں پوچھتا ہوں ہم اس وقت بھی خوش ہوئے تھے جب افتخار چودھری نے پرویز مشرف کے سامنے ناں کی۔ لیکن اس سارے ڈرامے سے نکلا کیا؟ ہمیں شخصیتوں کے سحر میں مبتلا کر دیا گیا اور نظام ویسے ہی گلتا سڑتا رہا۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ کیسی سیاست ہے کہ جو پیپلزپارٹی جلسے کرنے کے لئے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ڈھو کر لاتی ہے اور جو عوام میں مقبولیت اور ساکھ کے لحاظ سے آخری نمبر پر ہے‘ وہ سینیٹ کے انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں لے جاتی ہے اور جب یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے اپنے لیڈروں کو تیسری بار وزیراعظم بنوانے کے لئے آئینی ترامیم تو کرا لیتے ہیں لیکن عوام کے حقوق کے لئے کوئی آئین سازی نہیں ہوتی۔
سندھ کی طرح پنجاب کے عوام بھی اپنے حکمرانوں کو ووٹ دیتے اور گانے سناتے سناتے تھک گئے ہیں۔ بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے آپ خود دیکھ لیجئے۔ گزشتہ دنوں صوبہ بھر میں پرائمری اور مڈل کے امتحانات منعقد ہوئے۔ یہ امتحانات طلبہ کو ساری عمر نہیں بھولیں گے کیونکہ ایک ایک پیپر کے لئے چھوٹے چھوٹے بچے مسلسل چھ چھ روز تک امتحان دینے اپنے سنٹرز پہنچتے رہے لیکن وہاں جا کر معلوم ہوتا کہ پیپر چھپ کر نہیں پہنچے لہٰذا قلم دوات اُٹھائو اور گھر جائو۔ ہر سال پیپرز کی پرنٹنگ کے لئے ٹھیکے مختلف پرنٹنگ کمپنیوں کو دئیے جاتے ہیں تاکہ کسی ایک پر بوجھ نہ پڑے اور تمام کام بروقت مکمل ہو جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ متعلقہ شہروں میں موجود پرنٹنگ پریس سے انہی شہروں میں پرچے پہنچانا آسان او ر وقت کی بچت بھی ہوتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ چونکہ وزیرتعلیم رانا مشہود تھے‘ اس لئے ایک نئی سائنس لڑائی گئی اور صرف ایک مخصوص پرنٹر کونوازنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی بھی دو وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ حکومت مختلف شہروں کے سینکڑوں پرنٹرز کی پہلے ہی نادہندہ تھی۔ یہ لوگ محکمہ ایجوکیشن کے چکر لگا لگا کر تھک چکے تھے۔ کئی ایک تو مالی مسائل کا شکار ہو کر کاروبار ہی بند کر بیٹھے تھے اور اب فاقوں پر تھے لیکن صوبائی حکومت نے گزشتہ سال کے پرچوں کی پرنٹنگ کے پیسے انہیں نہ دئیے اور نئی پرنٹنگ کا حکم جاری کر دیا۔ ان لوگوںنے اپنے بقایا جات کی شرط رکھ دی جس پر حکومت نے ایک پسندیدہ پرنٹر کو صوبہ بھر کے پرچے چھاپنے کا ٹاسک دے دیا۔ اتنی جلدی اتنا بڑا ٹاسک مکمل کرنا ایک پرنٹر کے لئے ممکن نہ تھا چنانچہ پرچوں کی پرنٹنگ وقت پر مکمل نہ ہو سکی اور بچے امتحانی سنٹرز میں جا کر ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ کہیں پرچے پہنچے‘ کہیں نہیں اور کہیں اسلامیات کی جگہ سائنس کا پرچہ پہنچ گیا۔ جس کا سکول اقبال ٹائون میں اور سنٹر گلشن راوی میں تھا ‘ اس بچے کی فیملیاں کئی کئی روز پرچہ کینسل ہونے سے کس اذیت سے گزری ہوں گی‘ یہ وہی جانتے ہیں۔ 
ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ جمہوریت میں یہی ہوتا ہے۔ عوام ووٹ دیتے ہیںاور سیاستدان حکمران بنتے ہیں۔ عوام ووٹ کا حساب مانگتے ہیں تو راجے مہاراجے ہمیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی تاریخیں دے دیتے ہیں‘ مہنگائی بیروزگاری ختم کرنے‘ ہمارے شہروں دیہات کو پیرس بنانے اور ہمارے بچوں کی تقدیریں بدلنے کے اعلانات کرتے ہیں اور جب یہ سب نہیں ہوتا اور ہم جیسے اُن سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ بھی نہیں ملا تو جمہوریت کے یہ سارے چیمپئن قہقہے لگاتے ہوئے ہمیں سمجھاتے ہیں کہ سائیں! یہ لینے دینے کی بات درمیان میں کہاں سے آ گئی ‘ تم نے ہمارے کان کو خوش کیا ‘ ہم نے تمہارے کان کو خوش کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں