کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یوحنا آباد سے صرف دس میل دور مصطفی آبادمیں داعش کی وال چاکنگ ہوئی اور اگلے روز یوحنا آباد میں دو مسلمانوں کو ویسے ہی جلایا گیا جیسے داعش نے اردن کے پائلٹ کو پنجرہ میں بند کیا‘ اس پر تیل چھڑکا ‘آگ لگائی‘ ویڈیو اور تصاویر بنائیں اور پھر اس پنجرے اور لاش کی راکھ کو بلڈوزر سے بلڈوز کر دیا۔ داعش کے تمام جنگجو بھی اسی طرح تماشا دیکھتے رہے جیسے پولیس یوحنا آباد میں دو لاشوں کو گلتے سڑتے دیکھتی رہی۔ مجھے کوئی ان دونوں واقعات میں فرق بتلا دے۔ یہاں تو داعش والے بھی معصوم لگنے لگے ہیں کہ لاہور میں تو مارنے والوں نے صرف زندہ انسانوں کو جلایا ہی نہیں بلکہ انہیں سڑکوں پر گھسیٹا‘ انہیں لاتیں اور ڈنڈے مارے ‘ ان کے اعضا کو الگ الگ کیا اور آخر میں انہیں میٹروبس کے جنگلوں کی چھت پر رسی سے لٹکا دیا۔یہ سب کچھ اس سڑک پر ہوا جسے پنجاب کے حکمران ماڈل روڈ بنانے پر تلے ہیں۔ اس ماڈل روڈ کے دائیں بائیں آباد بستیوں میں کیا ہو رہا ہے‘لوگ کس حال میں ہیں‘ یہ اب زیادہ قابل غور باتیں نہیں رہیں۔
کل مجھے رہ رہ کر وہ لوگ یاد آ رہے تھے جو میٹرو منصوبے کے حق میں تاویلیں لاتے تھے۔ عوام کو کب سمجھ آئے گی کہ انہیں میٹرو منصوبے چاہئیں یا مضبوط ادارے جو ان کی حفاظت کر سکیں۔ گرجا گھروں میں دھماکے کرنے والے تو تھے ہی وحشی‘ لیکن دو انسانوں کو جلانے والے تو جانے پہچانے تھے۔ فیس بک پر سینکڑوں کے قریب ویڈیوز موجود ہیں جن میں یہ لوگ صاف پہچانے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ یہ کہہ رہے ہیں۔ اسے جلائو‘ اس نے گرجے پر پہلا فائر کیا تھا۔ اس کی باتیں سن کر لوگ اور زیادہ مشتعل ہو رہے ہیں۔پولیس کا سائبر ونگ چاہے تو چند گھنٹوں میں تمام افراد پہچانے جا سکتے ہیں۔
پنجاب پولیس کے پاس کسی مسئلے سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ متاثرہ علاقے میں کرفیو لگا دو۔ سارے راستے بند کر دو۔ اگر ایسے ہی امن قائم ہونا ہے تو پھر سارے ملک میں کرفیو لگا دیں۔ صرف پولیس اور حکمرانوں کی گاڑیاں سڑکوں پر آئیں ۔ باقی عوام کو قیدی بنا دیں۔ کل چونگی امرسدھو سے کاہنہ تک فیروز پور روڈ بند کر دی گئی۔ اگر گزشتہ روز رانا ثنا اللہ کے احتجاجیوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے تو پھر سڑک بند کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس سے قبل لارنس روڈ پر سب انسپکٹر کے لئے امیدواروں کے امتحان کے موقع پر بھی لارنس روڈ سارا دن بند رہی۔ حتیٰ کہ علاقے کے رہائشیوں کو بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اس سے قبل قربان لائن میں خودکش دھماکہ ہوا تو چھ روز کے لئے یہ سڑک بھی بند کر دی گئی۔ لوگوں کا کاروبار‘طلبا کی تعلیم سب کچھ متاثر ہوا۔ ہائیکورٹ نے نوٹس لیا تب جا کر سڑک کھلی۔ شادمان میں بھی آئی جی جیل خانہ جات نے سکول کے سامنے گھر کی
سڑک کو نو انٹری زون بنا کر بند کیا ہوا ہے۔ آنے جانے والی خواتین اساتذہ ‘والدین اور طالب علموں کے ساتھ وہاں موجود اہلکار بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ کون اس کا نوٹس لے گا؟
رانا ثنا اللہ سے دنیا نیوز کے اینکر نے کہا کہ مقتول نعیم کو ایلیٹ فورس سے ہجوم نے چھڑوایا۔ رانا صاحب نے کہا یہ غلط بیانی ہے۔ (نعیم پر ایلیٹ فورس کی گاڑی میں تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آ چکی ہے)۔ اینکر نے کہا‘ نعیم شیشے کا کام کرتا ہے۔ رانا صاحب نے کہا تو پھر وہ اس علاقے میں کیا کرنے گیا تھا جہاں دھماکہ ہوا۔ رانا صاحب کی اس بات کے بعد اب ہر پاکستانی اپنی فکر کرے۔ کہیں بھی دھماکہ ہو گیا اور اگر وہ دھماکے میں بچ گیا تو پھر اس کی خیر نہیں۔ پولیس انہیں بلوائیوں کے سپرد کر دے اور بلوائی اسے زندہ جلا دیں تو قصور جلنے والے کا ہی نکلے گا کہ وہ کیوں اس جگہ موجود تھا۔ اینکر نے کہا‘ اس کی علاقے میں شیشے کی دکان ہے۔ رانا صاحب نے کہا وہاں کوئی شیشے کی دکان ہے ہی نہیں۔ دنیا نیوز کے لیاقت انصاری نے کچھ ہی دیر بعد وہ دکان ٹی وی پر دکھلا دی جس پر نعیم کا نام اور نمبر لکھا تھا۔ میڈیا اس دکان اور اس کے گھر والوں تک نہ پہنچتا تو نعیم تو دہشت گرد ثابت ہو چکا تھا۔ پولیس کی غالباً یہ حکمت عملی تھی کہ مشکوک شخص کو بپھرے ہجوم کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود اس سے نمٹ لیں ۔ اس طرح دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کا غصہ نکل جائے گا دوسرا مشکوک شخص کو جلانے سے اس کی شناخت مشکوک ہو جائے گی اور کیس کی فائل ہی بند ہو جائے گی۔ کیمرے سے تصویریں اور ویڈیو بنانے والوں کو اب اس کا مزا چکھنا پڑے گا کیونکہ اب ان کی بنائی گئی ویڈیوز خود ان کو بے نقاب کر یں گی۔
کہا گیا کہ قانون اس خاتون ڈرائیور کے ساتھ سختی سے نمٹے گا جس نے دو لڑکوں کو کچلا۔ نمٹنا بھی چاہیے۔ کیوں اس نے ان لڑکوں کو اپنی جان اور اپنی عزت پر ہاتھ ڈالنے سے روکا اور گاڑی بھگا دی۔ اسے تو چاہیے تھا کہ فوراً گاڑی سے اترتی ‘ گاڑی میں سے پٹرول کی ایک بوتل نکالتی اور لڑکوں کے حوالے کر کے کہتی کہ آئو تم بھی آئو ‘ موم بتی والی سول سوسائٹی بھی آئے اور لگا دو مجھے آگ اور لٹکا دو میٹرو کے جنگلے پر۔ اس کے بعد اس کے لواحقین پوچھتے تو حکمران یہی کہتے کہ وہ کرنے کیا گئی تھی وہاں ۔گئی تھی تو یہی ہونا تھا۔
واقعے کے دوسرے روز میں خود حالات کا جائزہ لینے یوحنا آباد کے سامنے سے گزرا۔ اس وقت ابھی خاتون ڈرائیور والا واقعہ پیش نہیں آیاتھا۔ یوحنا آباد سٹاپ سے ذراپہلے پولیس کی بھاری نفری دیوار کے ساتھ کھڑی گپیں ہانک رہی تھی۔ دوسری طرف ہر راہ گزر اس بپھرے ہجوم کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے بھی اللہ کا نام لیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ کچھ لڑکے آہنی سلاخیں اور ڈنڈے لے کر درمیان میں آ گئے۔ دو لڑکے میرے سے اگلی گاڑی کی چھت پر چڑھ گئے اور ڈنڈے برسانے لگے۔ اس گاڑی میں بچوں والی فیملی سوار تھی۔ اچانک انہیں خود ہی رحم آ گیا۔ دو چار ڈنڈے برسانے کے بعد وہ اُتر گئے اور گاڑی کو گزرنے کا اشارہ کیا۔ اگلی گاڑی میری تھی۔ مجھے نعیم یاد آ گیا۔ گرجا گھر میں عبادت کے دوران دھماکے سے مرنے والے وہ بے قصور بھی یاد آ گئے۔ کیا اگلی باری میری تھی۔ میں ایک طرف کھڑی پولیس کو بے بسی سے دیکھتا رہا۔ یہ میرے ٹیکسوں پر عیاشی کر رہی تھی لیکن میرے لئے راستہ بنانے اور مجھے بچانے کیلئے تیار نہ تھی۔ میں نے گاڑی آگے بڑھائی۔ اتنے میں دوسری جانب سے آنے والی خاتون کی گاڑی پر کچھ لوگوں نے ہلہ بول دیا۔ سب ڈنڈے اٹھا کر اس سمت کو بھاگے۔ مجھے رستہ مل گیا۔ نہ مل پاتا تو آج حکمران یہی کہہ رہے ہوتے کہ نہ یہ اُدھر جاتا‘ نہ اس کے ساتھ ایسے ہوتا۔حکومت‘ پولیس اور داعش‘ سب بری ہو جاتے۔قصور سارا میرا نکلتا!