"ACH" (space) message & send to 7575

قرض ‘ فرض اور مرض

چند روز قبل مجھے ایس ایم ایس پر کسی کا یہ قول موصول ہوا۔ ''تین چیزوں کو ہر گز معمولی نہ جانو۔ قرض ‘ فرض اور مرض‘‘۔ میں نہیں جانتا کہ یہ ارشاد کس ہستی کا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس ایک جملے میں زندگی کی پوری حقیقت سموئی ہوئی ہے۔ آپ قرض کو ہی لے لیں۔ کون سا انسان ایسا ہے جسے زندگی میں کبھی قرض کی ضرورت نہ پڑی ہو۔ کاروبار‘ گھر ‘ بیماری‘ تعلیم!کبھی نہ کبھی قرض کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔ جو قرض کی ادائیگی کے لوازمات کو سمجھتے ہیں‘ وہ ہر صورت اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں ‘چاہے ان کا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہوتا ہو۔ تاہم بعض اوقات زندگی میں ایسے نازک موڑ آتے ہیں کہ ساری عمر لوگوں کو قرض دینے والا ایک دن خود دوسروں کا قرض دار بن جاتا ہے۔جو قرض کو معمولی خیال کرتے ہیں‘ وہ اس کے چنگل میں ایسے پھنستے ہیں کہ پھر اس کے بھنور سے نکلنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ قرض صرف مالی قرض ہی نہیں ہوتا۔ بعض قرض ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر ہم اپنے ذمے واجب نہیں سمجھتے ۔ ہم ساری عمر اس سے جان چھڑاتے رہتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمیں یہ قرض لوٹانا پڑتا ہے۔ یہ قرض وہ خدمت ہوتی ہے‘ وہ محبت ہوتی ہے اور وہ پیار ہوتا ہے جو ہمارے والدین ہمارے ساتھ کرتے ہیں اور ایک دن آتا ہے جب ہمیں یہ قرض چکانا ہی پڑتا ہے۔ ہر اولاد اپنے والدین کی مقروض ہوتی ہے ۔وہ احسانات جو والدین اپنی اولاد پر کرتے ہیں‘ ان کا بدلہ
دنیا کی کوئی اولاد اپنے والدین کو نہیں دے سکتی۔ اگر آپ کے والدین نے آپ کو ایک گھر لے کر دیا ہے تو آپ انہیں چار بنگلے ہی کیوں نہ خرید کر دے دیں‘ آپ ان کے احسانات کا قرض نہیں چکا سکتے۔ آپ ساری عمر انہیں کندھے پر اُٹھا کر دنیا کا چکر بھی لگاتے رہیں تو اُس ایک رات کا قرض بھی نہیں ادا کر سکتے جو انہوں نے آپ کی بیماری پر آپ کے سرہانے کھڑے رہ کر گزاری تھی۔ اگر آپ کے والدین کو خون کی ضرورت ہے تو آپ اپنے جسم کا سارا خون دے کر بھی اُس آنسو کے ایک قطرے کا حق ادا کر نہیں سکتے جو آپ کی کسی نافرمانی کی وجہ سے آپ کے والدین کی آنکھ سے ٹپکا تھا۔ والدین کی خدمت دنیا کا واحد قرض ہے جو اولاد کو والدین کی زندگی تک بلکہ ان سے جدائی کے بعد بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ والدین کے بعد ہم اچھائی یا برائی کے راستے اپنا کر ان کی روح کو پر سکون یا بے سکون کر سکتے ہیں۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم کون ساراستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس قرض سے جتنا مرضی جان چھڑا لیں‘ یہ ہمارا پیچھا کرتا ہی رہے گا۔ ہم والدین کو اولڈ ہوم میں داخل کرا دیں‘ بیرون ملک نکل جائیں یا پھر کسی غار میں پناہ لے لیں‘ یہ قرض روز بروز بڑھتا رہے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا جہان کی مشکلات ایک طرف لیکن
والدین کی جدائی اور ان کی ناراضی کا بوجھ ہمیں زیادہ بھاری محسوس ہو گا۔ چنانچہ قرض کی ہر قسم سے بچئے‘ چاہے وہ مالی قرض ہو یا پھر والدین یا دوستوں کے احسانات کا قرض۔
دوسری چیز فرض ہے ۔ آپ دنیا کے بیشتر معاملات کو تادیر ٹال سکتے ہیں‘ آپ آٹھ کنال کا بنگلہ چالیس سال تک نہ خریدیں‘ آپ چھ کروڑ کی مرسڈیز کے بغیر ساری زندگی گزار لیں اور آپ سوئٹزر لینڈ کی برف پوش وادیاں اور وینس کی بہتی گلیاں چاہے ساری زندگی نہ دیکھ سکیں لیکن آپ اپنے بیٹے اور بیٹی کی بہتر پرورش‘ تعلیم اور شادی جیسے فرائض کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کر سکتے۔آپ یہ نہیں کر سکتے کہ بیٹے کو اچھی تعلیم دلوا دیں اور بیٹی کو برتن دھونے پر لگا دیں‘ بغیر کسی تفریق کے اپنی اولاد کو معیاری تعلیم دلوانا آپ کا فرض ہے‘ آپ اس میں کوتاہی نہیں کر سکتے ۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی چالیس یا پچاس برس کی عمر میں کروں گا‘ آپ اس فرض کی ادائیگی میں جتنی تاخیر کریں گے‘ نامعلوم بوجھ تلے دبتے جائیں گے اور یہ بوجھ دن بدن بڑھتا جائے گا ۔آپ یہ نہیں کر سکتے کہ آپ کی جیب میں پیسے ہوں اور آپ حج ادا کرنے کی بجائے آئر لینڈ یا الاسکا کی سیر کو نکل جائیں۔اسی طرح نماز کے وقت نوافل ادا کرنے سے آپ کی جان نہیں چھوٹ سکتی یا عین بیماری کے وقت پرہیز کی کوشش آپ کو بیماری سے نہیں بچا سکتی‘ وقت پر نماز پڑھنا اور کھانے میں پرہیز آپ پر فرض تھا‘ آپ نے اسے معمولی خیال کیا تو آپ کا کھاتہ مشکلات اور پریشانیوں سے بھر جائے گا اورفرائض کو معمولی جان کر نظر انداز کرتے رہنے سے آپ کی زندگی ایک بند گلی میں جا کر رُک جائے گی چنانچہ فرض کو فرض سمجھئے اس سے قبل کہ یہ آپ کے لئے وبال جان بن جائے ۔
تیسری چیز مرض ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی بیمار ہوتا ہے۔ہم جیسے ہی بیماری سے نکلتے ہیں‘ ہمارا جسم طاقت پکڑتا ہے اور ہم معمول کی زندگی میں واپس آتے ہیں تو ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ہم بیمار کیوں ہوئے اور مرض ہوتا کیا ہے۔آپ کبھی ہفتے مہینے میں ایک بار وقت نکالیں اور کسی بھی ہسپتال میں دس بیس منٹ گزاریں‘ آپ دیکھیں گے آپ کے سوئے ہوئے خلیے لمحوں میں بیدار ہو جائیں گے‘ جب ہر طرف درد سے کراہتی آوازیں سنیں گے‘ لوگوں کو ادویات اور ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگتا دیکھیں گے تو آپ کو اپنا وجود ایک خزانے کی مانند محسوس ہونے لگے گا۔ آپ کو لگے گا آپ دنیا کے خوش نصیب ترین انسان ہیں جو اپنے پائوں پر کھڑے ہیں‘ لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں‘ پھولوں کی خوشبو آپ کے دماغ تک پہنچ رہی ہے‘ اپنی مرضی سے حرکت کر رہے ہیں‘ ہنس رہے ہیں‘ کھا رہے ہیں‘ پی رہے ہیں اور اپنے لائف سٹائل کو انجوائے بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ کو اپنا آٹھ کنال کا بنگلہ‘ فارم ہائوس اورپینٹ ہائوس بھی بھول جائے گا‘ آپ کو یہ تک یاد نہیں رہے گا کہ آپ کروڑوں کی گاڑی کے مالک ہیں‘ آپ کا بینک اکائونٹ ڈالروں سے لدا پھندا ہے اور آپ کے سینے پر یورپی ممالک کی شہریت کا تمغہ سجا ہوا ہے۔ آپ کو صرف اتنا یاد رہے گا کہ آپ ایک صحت مند انسان ہیں‘ ایک ایسا انسان جو بغیر سہارے کے چل پھر سکتا ہے‘ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور قسم قسم کے کھانوں اور مشروبات سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ عین اسی لمحے آپ کو یاد آئے گا آپ نے کھانے میں فلاں بد احتیاطی کی تھی یا ورزش پر سگریٹ کو ترجیح دی تھی‘ آپ فوراً کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرلیں گے ۔ صحت اور مرض کے درمیان فرق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا‘ مرض کوئی بھی ہو‘ انسان کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے اور جو لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں‘ انہیں ایک روز اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔
کاش ہم قرض‘ فرض اور مرض کو معمولی خیال نہ کریں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں