اس وقت انٹرنیٹ پر صرف آن لائن تعلیمی ڈگریوں کا فراڈ ہی نہیں بلکہ سینکڑوں قسم کے فراڈ چل رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا شکار پڑھے لکھے لوگ بن رہے ہیں۔ سب سے معروف ٹیلی مارکیٹنگ فراڈ ہے۔ اس میں جو کال موصول ہو گی اس میں آپ سے کہا جائے گا کہ فلاں ویب سائٹ پر قرعہ اندازی ہوئی جس میں خوش قسمتی سے آپ کا موبائل نمبر نکلا ہے۔ آپ فلاں ملک کی سیر و تفریح کا پیکیج معہ ٹکٹ اخراجات وغیرہ جیت چکے ہیں ۔ بس آپ فلاں اکائونٹ میں اتنے پیسے رجسٹریشن کے بھیج دیں اور ساتھ اپنے پاسپورٹ وغیرہ کی کاپی بھی تاکہ آپ کی سفری دستاویزات وغیرہ تیار کی جا سکیں۔ اگر توآپ نے سچ سمجھ لیا اور دس بیس ہزار رجسٹریشن کے بھیج دئیے تو آپ مارے گئے۔ ایک اور فراڈ شناخت کی چوری کا ہے۔آپ اے ٹی ایم سے رقم نکلوائیں‘ یا بینک اکائونٹ سٹیٹمنٹ حاصل کریں تو کبھی بھی اس کی رسید کو پھاڑے بغیر نہ پھینکیں۔ اسی طرح ایکسپائر ہونے والے اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈز کو کبھی غیر اہم سمجھ کر کوڑے کی ٹوکری یا سڑکوں پر نہ پھینکیں۔ کچھ ذہین لوگ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ انہیں یہ چیزیں ملیں اور وہ آپ کی شناخت کو استعمال کر کے آپ کے نام پر فائدے سمیٹیں اور فراڈ کریں۔شناختی کارڈ کی کاپی کو سنبھالنا اور اسے کراس کر کے متعلقہ شخص یا ادارے کو دینا اور زیادہ اہم ہے کیونکہ شناختی کارڈ کی کاپی پر آپ کا گھر‘ آپ کی گاڑی سب کچھ آپ کے ہاتھ سے جا سکتا ہے۔ایڈوانس فیس سکیم ایک اور فراڈ ہے۔ اس میں کسی ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ‘ مکان یا کسی چیز پر ایڈوانس اور پھر قسطیں مانگی جاتی ہیں۔آپ ایڈوانس اور قسطیں
دیتے جاتے ہیں اور چند ماہ بعد وہ کمپنی اور وہ سارے لوگ ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ ایسی سکیموں کو ایڈوانس دینے سے قبل سائٹ کو وزٹ کیا جائے‘ لوگوں اور متعلقہ اداروں سے چھان بین کی جائے تو پریشانی نہیں ہو گی۔ہیلتھ انشورنس سکیم فراڈ کے ذریعے آپ سے کچھ فارمزبھروا لئے جاتے ہیں۔ آپ کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو علاج کی مد میں اتنے پیسے ملیں گے اور وفات کے بعد لواحقین کو اتنے لاکھ روپے ملیں گے ۔ اس کے بعد آپ سے کاغذات کی مد میں فیس وغیرہ کے نام پر چند ہزار مانگے جائیں گے جو ظاہر ہے آپ خوشی سے دے دیں گے ۔انعامی بانڈز فراڈعام لوگوں کی بڑی تعداد کو گھیر لیتا ہے۔ فراڈئیے پرنٹنگ پریس سے جعلی انعامی بانڈز چھپوا لیتے ہیں جسے دیکھ کر پہلی نظر میں ہر آدمی دھوکا کھا سکتا ہے۔لوگ یہ بانڈ اس لئے خرید لیتے ہیںتاکہ برے وقتوں میں کام آئیں۔ لیکن ایسے جعلی بانڈ تو برے وقتوں کو خود دعوت دینے کے مترادف ہیں۔انہیں خریدنے والے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ لیٹر آف کریڈٹ کا فراڈ بینکوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ لیٹر آف کریڈٹ بینک اس لئے جاری کرتا ہے تاکہ کاروباری سودے کے لئے مصنوعات کے ملک میں آنے کی تصدیق ہو سکے۔اگر آپ نے کسی دوسرے ملک سے کوئی چیز منگوائی ہے تو تصدیق کر لیں کہ وہ کمپنی موجود بھی ہے یا نہیں اور وہ چیز ہوائی جہاز یا بحری جہاز سے آ بھی رہی ہے یا نہیں۔کریڈٹ کارڈ فراڈ تو عام ہو چکا ہے۔ اگر آپ کسی غیر معروف ویب سائٹ سے کوئی چیز خریدتے ہیں یا کسی ویب سائٹ کے فارم کو پُر کرتے وقت اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر اُسے دے دیتے ہیںتو آپ کے کارڈ سے چند منٹوں میں لاکھوں روپے نکل جائیں گے۔آن لائن کمیٹی فراڈ اس کمیٹی کی نئی شکل ہے جو عام طور پر محلے کی خواتین ڈالتی ہیں۔ طریقہ وہی ہے بس اس میں آپ پیسے آن لائن ہر ماہ جمع کراتے ہیں۔ قرعہ اندازی میں دس بارہ ماہ سے پہلے آپ کی پرچی نہیں نکلتی۔ دس بارہ ماہ آپ باقاعدگی سے آن لائن کمیٹی بھجواتے رہتے ہیںا ور جب کمیٹی نکلنے کا مہینہ آتا ہے‘ وہ ویب سائٹ کام کرنا ہی چھوڑ دیتی ہے۔یوں فراڈئیے آپ جیسے درجنوں لوگوں کو ٹیکا لگا کر ایک ہی جھٹکے میں کروڑوں روپے کما لیتے ہیں اور آپ ویب سائٹ کھولتے رہ جاتے ہیں۔اگر آپ آن لائن جا کر کوئی پلاٹ یا
مکان وغیرہ پسند کرتے ہیں تو آپ کو ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ بعض لوگ آپ ہی کے انتظار میں ہیں۔ یہ لوگ پہلے سے فروخت شدہ پلاٹ یا مکان وغیرہ کی تصاویر اور تفصیلات انٹرنیٹ پر اتنے خوبصورت انداز میں ڈال دیتے ہیں کہ آپ جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ متعلقہ شخص آپ کو پلاٹ یا مکان وزٹ بھی کرا دیتا ہے اور جعلی مالکان سے آپ کی میٹنگ بھی کرا دیتا ہے۔ یہ لوگ جعلی کاغذات بھی تیار رکھتے ہیں اور یوں آپ سے ایڈوانس کے طور پر بڑی رقم ہتھیا سکتے ہیں۔ایک اور اہم فراڈ جس پر والدین کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ بری ویب سائٹس ہیں جو تصاویر وغیرہ دیکھنے کے لئے کریڈٹ کارڈ نمبر طلب کرتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں یہ ویب سائٹ سرگرم ہیں اور کروڑوں ڈالر روزانہ کما رہی ہیں۔بچے والدین کے پرس سے کارڈ لے کر نمبر کاپی کر لیتے ہیں اور مختلف جگہوں پر استعمال کرتے ہیں۔ بیرون ملک سے گاڑی درآمد کرتے ہوئے بھی فراڈ کا اندیشہ رہتا ہے۔ زیادہ تر جاپان سے ایسی کالیں آتی ہیں کہ آپ ری کنڈیشنڈ گاڑی بجائے مارکیٹ کے‘ جاپان سے براہ راست منگوائیں‘ اس سے آپ کو پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کی بچت ہو گی۔ یہ آپ کو ایک ویب سائٹ کا پتہ دیتے ہیں جس پر گاڑیوں کی تصاویر اور دیگر تفصیل ہوتی ہے۔آپ سے کہا جاتا ہے کہ گاڑی پسند کریں ‘ اس کی فلاں تاریخ کو آکشن ہے۔ پھر آپ سے بولی کے لئے کچھ رقم جمع کرانے کو کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ سے کہا جاتا ہے آپ گاڑی کے حق دار ہیں لہٰذا پچاس فیصد رقم فوری طور پر بھجوا دیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رقم بھی جاتی ہے اور گاڑی بھی۔
یہ تو چند فراڈ ہیں جن کا میں نے ذکر کیا اور یہ صرف ہمار ے ملک میں نہیں بلکہ ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ عام لوگوں کو پھنسانا اور ایسی شاطر ی سے بچنا ایک آرٹ ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ بہت سے ایسے فراڈ ہیں جو انسانوں کی جانوں سے کھیلنے کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ بھی ہمارے ملک میں عام ہو رہے ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ سے لے کر غیر معیاری نجی میڈیکل کالجوں تک‘ جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ حکومت کے علم میں نہیں؟ خود حکمران جماعت کے بعض لیڈروں نے سابق دور میں دو دو کنال کی کوٹھیوں میں ایسے میڈیکل کالج کھولے جن میں ڈاکٹر تو کیا ایک میٹرک پاس بچہ بھی تیار نہیں ہو سکتا۔ ان میڈیکل کالجوں سے پندرہ بیس یا پچیس لاکھ روپے دے کر جو ''ڈاکٹر‘‘ نکلے گا ‘ وہ آپ کے اور میرے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ہر دوسرے نجی ٹی وی چینل پر جعلی ادویات‘ جعلی خوراک ‘ جعلی پانی اور جعلی مصنوعات بنانے کے پروگرام چل رہے ہیں ‘ یہ لوگ پولیس کو اعتماد میں لے کرچھاپے مارتے ہیں اور ریکارڈ شدہ ویڈیوز بھی نشر کرتے ہیں لیکن فراڈئیے بدستور اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور اگر کسی کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا تو وہ حکمران اور سرکاری ادارے ہوتے ہیں جن کی یہ اصل ذمہ داری ہوتی ہے جو میڈیا ادا کرتا ہے اور برا بھی بنتا ہے۔یہ بہترین موقع ہے۔ حکومت دودھ کے گوالوں سے شروع کرے اور جعلی میڈیکل کالجوں تک جائے‘ میٹرو بس کے ٹھیکوں سے آغاز کرے اور لیپ ٹاپ سکیموں تک کو کھنگالے‘ پھر پتہ چلے گا حکمران کرپشن اور فراڈ ختم کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔