کل جب وزیراعلیٰ پنجاب پنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کی پریس بریفنگ لے رہے تھے تو میرے دل میں آیا کہ کاش وہاں انہیں کوئی عمران غازی کے ساتھ بیتنے والا روح فرسا واقعہ سنا دیتا اور پوچھتا کہ سرکاری ہسپتالوں میں سسکتے تڑپتے پریشان حال مریضوں کی زندگیاں زیادہ اہم ہیں یا جدید بسوں کے منصوبے؟
یہ ایک اور مظلوم خاندان پر بیتنے والے غم، پریشانی اور کرب کی روداد ہے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب تو یہ معمول بن چکا ہے۔ یہ کہانی عمران غازی کی زبانی سنیے اور پھر حکمرانوںسے پوچھئے کہ میٹرو بس منصوبے پہلی ترجیح ہونے چاہئیںیا خستہ حال ہسپتالوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح تڑپتے عوام ؟
''7مئی بروز جمعرات ملتان روڈ پر موٹرسائیکل حادثے میں میری اہلیہ کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ چوٹ کے نتیجے میں اس کے سر سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ ایمبولینس کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی کے قریب سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے تو وہاں ایک اور ہی قیامت کا سماں تھا۔ ایک ایک بیڈ پر دو دو اور تین تین مریض پڑے تھے۔ہمیں بڑی مشکل سے ایک بیڈ ملا جس پر ایک بچہ پہلے سے موجود تھا۔ اس پر مریضہ کو لٹادیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر آئے اور دیکھ کر چلے گئے۔ پھر ایک نوجوان ڈاکٹر جن کا تعلق شعبہ نیورو سے تھا ‘تشریف لائے اور انہوں نے سی ٹی سکین، ایکسرے اور الٹراسائونڈ کرانے کے لیے کہا تاکہ ان کی رپورٹس دیکھنے کے بعد باقاعدہ
علاج شروع کیا جاسکے۔ اس سارے عمل میں 2 سے3 گھنٹے گزر گئے۔اگلے روز 8مئی کو ہم لوگ شعبہ نیورو سرجری میں منتقل ہوگئے اور مریضہ صبح ہوش میں آگئی ۔ اس کی آنکھیں اور ہاتھ کام کررہے تھے اور ہاتھ لگانے کو محسوس کررہی تھی۔ اس دوران وہ بولنے کی کوشش کرتی رہی مگرمکمل بولنے میں کامیاب نہ ہوپاتی۔ یہاں دو روز مزید گزر گئے۔اس دوران وہ اشارے سے بتاتی رہی کہ سینے میں شدید درد ہے۔ ہم ڈاکٹرز کو بلاتے اور کہتے رہے اسے سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے مگر ہمیں ہر بار یہ جواب دیا جاتا کہ ڈاکٹر آپ ہیں یا ہم؟ ہم ٹھیک علاج کررہے ہیں ۔تین روز بعد ہمارے اصرار پر جب ڈیجیٹل ایکسرے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مریضہ کی پسلیاں فریکچرڈ ہیں۔ اندازہ کریں کہ یہ کیسا ہسپتال تھا کہ ایکسیڈینٹ کی مریضہ کے بارے میں تین روز بعد پتہ چلا کہ اس کی پسلیاں فریکچر ہیں۔ اس پر ڈاکٹرز نے مریضہ کو فوری طور پر بے ہوش کرکے نجانے کیوں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا۔ اس دوران دو مرتبہ وینٹی لیٹر بند ہو گیا لیکن کوئی معجزہ مریضہ کو بچا گیا۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ ہسپتال میں مہیا کی جانے والی ادویات کم معیار کی ہوتی ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو ادویات باہر سے منگوالیں ۔ لہٰذا دس رو ز تک ہم آئی سی یو میں رہتے ہوئے ادویات باہر سے خریدتے رہے۔آئی سی یو چوتھی منزل پر تھا اور
لفٹ اکثر خراب رہتی تھی۔ آئی سی یو میں ایک ینگ ڈاکٹر اکثر مریضوں کے لواحقین کے ساتھ جھگڑ رہے ہوتے۔ اسی طرح کا رویہ دوسرے ڈاکٹرز کا رہا ۔ یہ اپنی گفتگو ، چال ڈھال کے اعتبار سے ڈاکٹر کم اورقصائی زیادہ لگے۔ یہ عجیب و غریب بات بھی دیکھنے میں آئی کہ جب ڈاکٹرز کا رائونڈ ہوتا ‘ لواحقین کو باہر نکال دیا جاتا۔ جس سے مریض کے لواحقین مکمل لا علم رہتے کہ کیا علاج چل رہا ہے اور مریض کس حالت میں ہے۔ اگر کوئی اپنے مریض کے بارے میں پوچھ لیتا تو ڈاکٹر ، بلکہ نرسزاور دوسرے سٹاف کی ڈانٹ سننا پڑتی۔یہ ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کا حال تھا۔
مریضہ کی حالت نیورو ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی، تو ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح مریضہ مین آئی سی یو میں شفت ہوجائے کیونکہ ہسپتال سے ہی پتہ چلا کہ وہاں علاج زیادہ توجہ سے ہوتا ہے۔ تاہم تمام تر سفارشوں اور کوششوں کے باوجود مریضہ کو مین آئی سی یو میں شفٹ نہ کرایا جاسکا۔ مریضہ کی سرجیکل صورتحال بہتر تھی اور اس کا کوئی آپریشن نہ ہونا تھا۔ سینے میں انفیکشن کے باعث سانس لینے میں دشواری تھی لیکن اس عرصے میں کوئی چیسٹ سپیشلسٹ دیکھنے نہ آیا۔ اسی صورتحال کے پیش نظر ہم اُسے مین آئی سی یو میں لے جانا چاہتے تھے کہ وہاں چیسٹ سپیشلسٹ موجود ہوتے ہیں تاہم یہ نہ ہو سکا۔ اس ضمن میں 18مئی کو وفاقی وزیر ریلوے جناب خواجہ سعد رفیق اور صوبائی وزیر صحت جناب خواجہ سلمان رفیق کو بھی اہم سیاسی شخصیات کے ذریعے اپروچ کیا گیا اور انہوں نے ایم ایس کو سفارش کی کہ مریض کو خصوصی کیئر فراہم کریں تاہم اس پر بھی عمل نہ ہوا۔ 19 مئی کا سورج طلوع ہوا تو میں ایم ایس آفس پہنچا، اذن باریابی ملا تو حاضر ہو ا۔ ان سے سارا مدعا عرض کیا اور کہا کہ ہم اپنے مریض کی حالت اور ڈاکٹر ز کی تشخیص اور رویے کے سبب مین آئی سی یو میں لے جانا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کوئی مثبت جواب نہ دیا اور ٹال دیا۔رات11 بجے کے لگ بھگ جناب خواجہ سلمان رفیق خود تشریف لائے ۔ ہم نے انہیں ساری تفصیل بتائی اور کہا کہ ہماری مریضہ کا اصل مسئلہ اب دماغ سے زیادہ چیسٹ انفیکشن کا ہے مگر ہماری کسی نے نہ سنی ۔ رات 11بج کر چالیس منٹ پر میری اہلیہ ڈاکٹرز کی بے حسی اور ہماری بے بسی پر آنسو بہاتی اللہ کے پاس چلی گئی۔
ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر اتنی تگ و دو اور تگڑی سفارشوں کے بعد بھی ہماری کسی نے نہ سنی تو وہ عام لوگ جو اپنے مریض راجن پور ، مظفر گڑھ اور ڈی جی خان سے لاتے ہیں ، ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا اور آخر کب تک لوگ حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
یہ صرف عمران غازی کے ساتھ نہیں ہوا‘ لاکھوں شہری روزانہ اسی کرب سے گزر رہے ہیں لیکن کس کو پروا ہے؟ لوگ میٹرو بس پر سفر کرتے ہیں اور اس سے اُتر کر جیسے ہی کسی سرکاری ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں‘ انہیں لگتا ہے وہ کسی مقتل میں آ گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو یقین نہیں آتا تو وہ بھیس بدل کر کسی ہسپتال چلے جائیں ۔ویسے اس بات پر کون یقین کرے گا کہ حکمرانوں کو اتنے فعال میڈیا کے ہوتے حالات کا علم نہ ہو۔ لوگ میٹرو بسوں کے خلاف نہیں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں حکمران میٹرو اور نیلی پیلی ٹرینوں کے پروجیکٹ ضرور بنائیں لیکن اس سے پہلے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات تو دیں ۔کسی گھر میں اگر آٹھ سو سی سی گاڑی ہو اور گھر میں چار بندے بیمار پڑے ہوں لیکن گھر کا سربراہ نئی اٹھارہ سو سی سی گاڑی یہ کہہ کر لے آئے کہ اس میں سفر انتہائی شاندار اور آرام دہ ہو گا تو وہ چاروں مریض اس کی بات سن کر روئیں گے نہیں تو کیا کریں گے؟ اتنی سی بات چھٹی جماعت کے کسی بچے کو سمجھ آ سکتی ہے تو حکمرانوں کو کیوں نہیں؟کیوں وہ عوام کی بے چارگی اور بے بسی سے کھیل رہے ہیں۔ کیوں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟ آخر کیوں؟