کل میٹرو بس کے ٹریک پر نابینا افراد کو لیٹے دیکھا تو وہ دانشور یاد آ گئے جو اس منصوبے کے حق میں بڑی دور کی کوڑیاں لا رہے تھے۔ اگر یہ منصوبہ اتنا ہی شاندار اور عوام کے لئے باعث افتخار ہے تو نابینا افراد بسوں کے آگے کیوں لیٹے ہوئے تھے‘ وہ ان ٹھنڈی بسوں کے اندر کیوں نہیں تھے جن کی شان کے قلابے آسمان سے ملانے میں حکومتی قصیدہ گو ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں؟ جو شیر شاہ سوری کی مثالیں دے کر حکمرانوں کی چاپلوسی کر رہے ہیں وہ کیوں اپنے مائیک اور کیمرے لے کر ان نابینائوں کے پاس نہیں گئے؟ کیوں ان سے نہیں پوچھا کہ اتنی خوبصورت اور ٹھنڈی بسوں کے ہوتے ہوئے تم سڑک پر کیوں لیٹے ہو؟ اس منصوبے کے بعد تو تمہاری اور تمہارے جیسے کروڑوں عوام کی ساری پریشانیاں ختم ہو جانی چاہئیں تھیں تو پھر تمہیں کیا ہوا ہے کہ سفید چھڑیاں اٹھا کر یہاں ٹھوکریں کھاتے پھررہے ہو۔ جائو جا کر ٹکٹ خریدو۔ میٹرو میں بیٹھو۔ اس کے بعد ساری پریشانیاں ختم۔ سارے مسئلے حل۔
پوری قوم جب ٹی وی پر نابینائوں کے احتجاج کو دیکھتی ہے‘ انہیں جوتیاں‘ پنکھے اور چھڑیاں سرکاری قلعوں کے بلند آہنی دروازوں سے ٹکراتے دیکھتی ہے تو اس کا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن اگر فرق کسی کو نہیں پڑتا تو ان کو جن کے ہاتھ میں اربوں کھربوں کا بجٹ ہے‘ ملازمتیں دینے ‘مستقل کرنے اور الائونسز وغیرہ دینے کا اختیار ہے لیکن اس بے بس اور مجبور ترین طبقے کو بھی تگنی کا ناچ نچانے پر تلے
ہیں۔ کون سا ایسا طبقہ ہے جو سڑکوں پر آ کر احتجاج نہیں کر چکا اور جب تک کسی کے دو چار بندے جان سے نہیں گئے‘ حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آج کل ریس کورس کے باہر پی ایچ اے کے غریب مالی وغیرہ کئی دنوں سے ایک طرف کیمپ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ اس شریفانہ طریقے سے تو انہیں کچھ ملنے والا نہیں۔ جب تک سڑکیں بلاک نہ کریں گے‘ پولیس کی لاٹھیاں نہ کھائیں گے ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ تو عام طبقہ ہے ‘ حکومت نے ان مسیحائوں کو بھی نہیں بخشا جن کی ذمہ داری لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ ایک ڈاکٹر کی جانب سے بھیجا گیا خط ملاحظہ کیجئے اور سوچئے کہ اس طرح کے مسائل کے بعد کون اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنائے گا اور بنائے گا تو کون انہیں یہ ملک چھوڑنے سے روک سکے گا۔ایک طرف حکومت خود صحت کی سرکاری سہولتیں بہتر نہیں کرتی دوسری طرف نجی شعبے کو بھی ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔
''آج کل ہیلتھ کیئرکمیشن کی طرف سے عطائیت کے خلاف مہم پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں عطائیوں کی نشاندہی کریں، حالانکہ ہر علاقے کے ہر فرد کو اور محکمہ ہیلتھ کو بھی پتہ ہے کہ کون عطائی ہے اور کون مستند ڈاکٹر۔ اگلے ماہ مستند ڈاکٹروں کے خلاف نئی تشہیری مہم شروع ہو گی اورانہیں وارننگ دی جائے گی کہ اگر انہوں نے ہیلتھ کمیشن سے رجسٹریشن اور لائسنس حاصل نہ کیا تو انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور ان کے کلینک اور ہسپتال سیل کر دیئے جائیں گے۔آج سے چند سال قبل جب پنجاب حکومت نے ہیلتھ کمیشن کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا اور ڈاکٹرز کو لائسنسنگ کے انتہائی ظالمانہ قوانین کا پتہ چلا تو پوری ڈاکٹر برادری اس بل کے خلاف متحد ہوگئی۔ اس سلسلے میں لاہور کے پی ایم اے ہائوس سے چیئرنگ کراس مال روڈ تک ایک جلوس بھی نکالا گیا۔ اس وقت حکومت نے ڈاکٹرز کی تمام شرائط منظور کرلیں اور اسمبلی سے بل پاس کروالیا لیکن جب ہیلتھ کمیشن کا قیام عمل میں آیا تو پتہ چلا کہ اس بل کے برخلاف تمام ظالمانہ شرائط پھر سے عائد کردی گئی ہیں۔ اب ڈاکٹر تنظیموں نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ جب تک ظالمانہ شرائط واپس نہیں لی جائیں گی وہ رجسٹریشن نہیں کروائیں گے۔ ایک سال سے ڈاکٹر تنظیموں اور کمیشن کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف کمیشن نے ڈاکٹرز کو ڈیڈ لائن دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی گئی اوراب 30جون کی۔ ڈاکٹر برادری خوف و ہراس کے عالم میں مبتلا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کی سہولتیں انتہائی خراب ہیں اور جو کوئی سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کرپنجاب حکومت کو بددعائیں دیتا ہے لیکن پنجاب حکومت کو سڑکوں‘ فلائی اوورز اور میٹرو بسوں پر کھربوں روپے ضائع کرنے سے فرصت ملے تو وہ صحت اور تعلیم کی طرف توجہ دے ۔ کمیشن نے لائسنس کیلئے جو شرائط عائد کی ہیں اس کے لئے ہر کلینک کو نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا جس پر لاکھوں کے اخراجات ہوں گے۔ کلینک کو تعمیر کرنے کے بعداس کے چلانے کے اخراجات بھی لامحالہ کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ نتیجتاً ڈاکٹرز کو فیس میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا اور یہ فیس ادا کرنا عام آدمی کی دسترس سے بالکل باہر ہو جائے گا۔ یہ تمام باتیں اعلیٰ حکام کے گوش گزار کی جا چکی ہیں لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس کے لئے بین الاقوامی معیارات مقرر کرانے کی ضد کرنے والوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔ وزیراعلیٰ جنہوں نے صحت کی وزارت اپنے پاس رکھی ہوئی ہے‘کمیشن کو حکم دے رہے ہیںکہ وہ اپنا کام تیز کرے جس کے نتیجے میں کمیشن نے ڈیڈ لائن مقرر کردی ہے۔مسئلے کا حل یہی ہے کہ ڈاکٹر تنظیمیں وزیراعلیٰ سے براہ راست مذاکرات کریں اور انہیں اس بات پر راضی کیا جائے کہ تمام شرائط اور معیارات کو واپس لے کرصرف ڈگری اور پی ایم ڈی سی کی رجسٹریشن کی بنیاد پر ڈاکٹرز کو لائسنس جاری کئے جائیں ورنہ تمام پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتال بند ہو جائیں گے۔ ایسے میں علاج معالجہ کی پرائیویٹ سہولتیں نہ ہونے کے باعث پنجاب میںاموات کی شرح بڑھ جائے گی۔ حکمران اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے سرکاری سطح پر صحت اور تعلیم کی بین الاقوامی سہولتیں مہیا کریں‘ اس کے بعد نجی شعبے کی طرف آئیں۔ حکومت عوام کو دو دھاری تلوار کے ذریعے مارنا چاہتی ہے۔ کھربوں کے ٹیکس غریب عوام سے وصول تو کرتی ہے لیکن بدلے میں انہیں صحت کی معیاری سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ اگر سرکاری ہسپتالوں کا حال اتنا ہی اچھا ہے تو حکمران خود وہاں سے علاج کیوں نہیں کراتے؟ لوڈشیڈنگ اور دیگر بحرانوں کے ہوتے ہوئے کوئی پرائیویٹ سطح پر عوام کو بہتر سہولتیں دے رہا ہے تو حکومت اس کے پیچھے کیوں لٹھ لے کر پڑ گئی ہے۔ حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ اگر یہ ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں تو لوگوں کو پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوںکا رخ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اگر حکومت نے ڈاکٹروں کو تنگ کرنے کی پالیسی ختم نہ کی تو انہیں ایک بار پھرسڑکوں پر آنا پڑے گا کیونکہ کوئی بھی اپنے بچوں کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا‘‘۔