ہم لاکھ ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید کرتے رہیں‘ ان کی شخصیت کو متنازع بنا کر پیش کرتے رہیں یا پھر ان کے یوٹرنوں کے پوسٹر چھپوا کر شہر کی دیواروں پر ہی کیوں نہ لگوا دیں‘ ایک بات ہمیں ماننا پڑے گی اور یہ ان کے حریف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قادری صاحب ایک موقع پر حکومت کو لے بیٹھے تھے اور ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب دھرنوں کے دوران چودھری نثار علی خان سے کہا گیا کہ وہ قادری صاحب کے ساتھ مذاکرات میں اپنا کردار ادا کریں تو چودھری نثار نے علی الاعلان کہا تھا کہ وہ تو علامہ صاحب کی تقریر ہی نہیں سنتے کہ انہیں یقین ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ علامہ صاحب سے متاثر ہو جائیں گے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جس ملک کا وزیرداخلہ ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ اس ملک کے ان کروڑوں عام لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہیں روزگار ملتا ہے نہ بجلی ‘ رہائش نہ روٹی۔دھرنے کے دوران ڈاکٹر صاحب نے جتنے بھی خطاب کئے‘ وہ عام آدمی کے دلوں کو چھو لینے والے تھے۔ اگر یہ ایسے نہ ہوتے تو کبھی ہزاروں لوگ اپنے گھر چھوڑ کر کئی مہینوں کے لئے دھرنوں میں نہ جاتے‘ ان میں طالب علم بھی تھے‘ بچوں والی مائیں بھی اور نحیف بوڑھے بھی۔ ان کے علاوہ وہ کروڑوں لوگ بھی ڈاکٹر صاحب کی پرجوش تقریروں کے زیر اثر تھے‘ جو روزانہ ٹی وی پر انہیں سنتے اور دیکھتے تھے۔ عرصے بعد انہیں ایسا محسوس ہوا کہ کوئی ان کے دل کی بات کہہ رہا ہے اور وہ بھی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ایک خاص مسلک سے ہے‘ لیکن میں نے مخالف مسلک اور مخالف جماعت کے لوگوں کو بھی ان
کی باتیں سن کر مبہوت ہوتے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب پیٹ میں روٹی نہ ہو‘ سر پر چھت نہ ہو‘تن پر کپڑا نہ ہو تو انسان نہ کسی مذہب کو دیکھتا ہے نہ حکمران اورنہ جماعت کو۔ وہ ہر اس رہنما‘ ہر اس شخص کو فالو کرنے کو تیار ہو جاتا ہے جو اس کے حقوق کی بات کرے اور جو اس کے زخموں پر مرہم رکھے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری وہ واحد شخصیت ہیں جن کی خطابت اتنی جاندار اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے کہ ان کا مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہاں یار بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب تک ماڈل ٹائون سانحہ برپا نہیں ہوا تھا‘ تب تک ڈاکٹر صاحب اور ان کی جماعت کو اتنی مقبولیت حاصل تھی نہ ہی اتنی ہمدردی۔ یہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد دوسرا ایسا بڑا سانحہ تھا کہ جب عوامی غیظ و غضب کا منہ ریاست کی طرف موڑ کر سب کچھ تہس نہس کیا جا سکتا تھا لیکن عوامی تحریک نے قانون کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ دھرنے پر روانگی سے قبل جب عوامی تحریک اور پورا ماڈل ٹائون محصور تھا‘ ڈاکٹر طاہر القادری نے رات آٹھ بجے کے قریب ایک مدلل خطاب کیا۔ تمام چینلز نے اپنا پرائم ٹائم حتیٰ کہ اپنی نو بجے کی خبریں اور کروڑوں کے اشتہارات بھی ڈاکٹرصاحب کی تقریر کی نذر کر دئیے اور ان کی اس تقریر سے اقتدار کے ایوانوں تک میں کھلبلی مچ گئی لیکن جیسے ہی تقریر ختم ہوئی ‘ انہوں نے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس نے انہیں اسی شاخ سے گرا دیا‘ جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے کہا کہ جو انقلاب مارچ سے واپس آئے اُسے بھی شہید کر دو‘ تو سوائے عوامی تحریک کے کارکنان کے ہر وہ شخص جو دو گھنٹے سے ان کی تقریر سن رہا تھا‘ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب جس طرح مجمع اکٹھا کرنے اور اسے مبہوت کرنے میں طاق ہیں‘ اسی مجمع کو تتر بتر کرنا اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا بھی کوئی ان سے سیکھے۔ اسی طرح جب دھرنے کے دوران حکومتی شخصیات ان سے مذاکرات کرنے آتیں تو ان کا رویہ کچھ اور ہوتا لیکن عوام سے خطاب میں وہ کچھ اور دکھائی دیتے۔ عوامی تحریک والے ان کی محبت میں اس حد تک گرفتار تھے کہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کفن پوش عورتیں اور بچے تک نظر آنا شروع ہو گئے اور اجتماعی قبریں تک کھودی جانے لگیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ملک میں واقعی ایک انقلاب آنے والا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے خونی انقلاب نہ دیرپا ہوتے ہیں نہ ہی قوموں کے لئے سود مند‘ اس کے
باوجود لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ اس سارے عمل میں انہیں چاہے ان کے حقوق ملیں نہ ملیں‘ لیکن وہ ایسے حکمرانوں ‘سیاستدانوں‘ جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کو پھانسی لگتا دیکھ سکیں گے جنہوں نے نوچ نوچ کر اس ملک کا یہ حال کر دیا کہ ایک طرف تو یہ ایٹمی طاقت بن گیا اور دوسری طرف اس کا ہر حکمران کشکول اٹھا کر ساری دنیا سے بھیک مانگنے پر لگا ہوا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب اتنی تبدیلی ضرور آئے گی کہ ملک کا خون چوسنے والے بھیڑیے جال میں قابو آ جائیں گے۔لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو یاد آ گیا کہ انہیں کینیڈا جانا ہے۔ ان کے مریدوں‘ ان کے چاہنے والوں اور ان کروڑوں لوگوں کے دلوں پر کیا بیتی‘ اس سے بے پروا ہو کر انہوں نے سامان سمیٹا اور یوں نکلے جیسے یہاں سیر سپاٹے کے لئے آئے تھے۔ان کا یہ عمل جہاں ان کی اور ان کی جماعت کی کریڈیبلٹی کو داغدار کر گیا‘ وہیں ان کروڑوں مفلوک الحال لوگوں کے دل بھی ٹوٹ گئے جو سمجھ رہے تھے کہ شاید اچھے دن آنے والے ہیں۔ کسی کے دن کیا بدلنے تھے‘ڈاکٹر صاحب تو ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والی خواتین اور جوانوں کے خون کا حساب بھی نہ لے سکے جن کی جانیں ڈاکٹر صاحب کے گھر اور ان کے مرکز کے دفاع میں چلی گئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کو شاید معلوم نہ ہو لیکن اس سانحے کا درد پوری قوم بلکہ پوری دنیا نے محسوس کیا تھا۔ اس طرز کی درندگی ہٹلر اور ہلاکو خان کے ادوار میں تو ہوتی تھی لیکن آج کے دور میں جب پولیس والے رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر سیدھی گولیاں برسا رہے ہوں اور پچاس سے زائد چینلز یہ سب براہ راست دکھا رہے ہوں ‘ آپ اتنا مضبوط مقدمہ ہار جائیں اور اپنے مطالبات کو وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے سے شروع کر کے نظام کو لپیٹنے تک لے جائیں تو ایسے میں کون آپ کے ساتھ ہمدردی رکھنے کو تیار ہو گا‘ کون آپ کو بار بار سنجیدہ لے گا؟
میں پھر کہتا ہوں‘ حکومت کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری سے زیادہ خطرناک اور کوئی مذہبی یا سیاسی شخصیت نہیں‘ یہ لوگوں کے مسائل سمجھتے بھی ہیں اور انہیں اچھے طریقے سے ایڈریس کرنا بھی جانتے ہیں‘ اسی لئے حکومت انہیں ان کی ماضی کی درجنوں غلطیوں کے باوجود سیریس لیتی ہے۔ اسے ڈر ہے کہ جس دن ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس خامی پر قابو پا لیا‘ اگر انہوں نے اپنے ہی تیار کئے گئے مٹی کے پتلے کو لات مارنا چھوڑ دیا‘ اس روز حکمرانوں کی خیر نہیں ہو گی۔ میری ڈاکٹر صاحب سے بھی درخواست ہے کہ آپ جن جذبات کا اظہار کرکے لوگوں کو مدہوش کرتے ہیں‘ وہ صرف عوامی تحریک والوں کے نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے جذبات ہیں لیکن جب آپ لوگوں کی توقعات کو آسمان پر لے جائیں گے‘ انہیں طرح طرح کے خواب اور امیدیں دکھائیں گے اور آخر میں اس ڈاکٹر کی طرح کریں گے جو مریض کا آپریشن کرتا ہے‘ اسے بے ہوش کرتا ہے‘ اس کا سینہ چیرتا ہے‘ اس کا دل باہر نکالتا ہے‘ اس دل کو ایک مشین سے جوڑتا ہے اور اس دوران اسے یاد آ جاتا ہے کہ اس نے تو بیوی کو شاپنگ کے لئے لے جانا تھا‘ چنانچہ وہ گائون اتارتا ہے‘ چابی پکڑتا ہے اور خود گاڑی میں بیٹھ کر شاپنگ کو نکل جاتا ہے اور مریض اللہ کی طرف۔
ڈاکٹر صاحب! اگر آپ نے اس مرتبہ بھی یہی کرنا ہے‘ اس بار بھی آپ نے اس سسکتے ہوئے نظام کا سینہ چیر کر خود نیاگرا فالز دیکھنے نکل جانا ہے ‘ تو خداکے لئے رہنے دیں‘ یہ کام پہلے ہی یہاں ہزاروں لوگ کر رہے ہیں!