حسین خاں والا ماڈل ٹائون سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہے اور گاڑی میں یہاں پہنچنے میں تیس چالیس منٹ لگتے ہیں۔ جبکہ حسین خان والا سے بنی گالہ تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ہے اور بنی گالہ سے قصور آنے میں کم از کم پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔کیا یہ پنجاب کے حکمرانوں کے لیے سوچنے کا مقام نہیں کہ صوبہ ان کا‘گائوں میں موجود ایم پی اے اُن کی اپنی جماعت کا لیکن متاثرہ بچوں کے دکھ بانٹنے اسلام آباد سے عمران خان کی اہلیہ ریحام خان تو پہنچ گئیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب جن کے پاس کہیں زیادہ تیز رفتار گاڑیوں کا قافلہ اور ہیلی کاپٹر تک موجود ہیں‘ انہوں نے وہاں ابھی تک قدم رنجہ فرمانا مناسب نہیں سمجھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ متعلقہ گائوں کا ایم پی اے پچاس لاکھ روپے رشوت لے چکا ہے۔ اسی طرح تھانیدار بھی بیس لاکھ میں بک چکا۔ دونوں اس معاملے کو اراضی کے تنازعے کا رنگ بھی دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعلیٰ کے وہاں پہنچنے سے پہلے کہانی کو اس انداز میں موڑ دیا جائے کہ بااثر ملزمان اور حکمران جماعت کے ایم پی اے اور پولیس کا گٹھ جوڑ ثابت ہی نہ ہو سکے اور متاثرہ خاندان کو دھمکیاں اور دبائو دے کر معاملے کو واقعتاً اراضی کے تنازعے میں تبدیل کر دیا جائے ۔
کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ کرنے کے جس واقعے نے پاکستان سمیت دنیا کو ہلا دیا ‘ وہ واقعہ پنجاب کے حکمرانوں کو کیوں نہ جگا سکا‘ یہ آج کا سوال ہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرح کسی کیس پر پردہ ڈالنے اور لٹکانے کے لئے ماضی میں کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں‘ اُن سہ رکنی کمیٹیوں کی جگہ اب جوڈیشل کمیشن نے لے لی ہے۔ رپورٹ کمیٹیاں بنائیں یا کمیشن‘بنانی تو انسانوں نے ہیں اور پیش بھی حکمرانوں کے سامنے کرنی ہے۔ اب آگے ان کی مرضی کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں یا پھر ایک نئی جوڈیشل انکوائری ٹیم بنا کر من پسند رپورٹ سامنے لے آئیں۔ مثال کے لئے ملاحظہ ہو‘ جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ‘ جس کے بارے میں جب وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا جائے تو وہ یہ کہہ کر بات گول کر دیتے ہیں کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اس پر کوئی کمنٹ نہیں دے سکتے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ اس معاملے کو عدالت تک پہنچایا کس نے؟ پہلی رپورٹ کی تیاری میں حکمران جماعت اور پولیس جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوئی‘ عوامی تحریک والوں کا اس پر دبائو کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ وہ رپورٹ جب دنیا ٹی وی میں کامران شاہد سامنے لائے تو رانا ثنا اللہ نے بجائے رپورٹ کے مندرجات کا جواب دینے کے‘ الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ جس نے آپ کو یہ رپورٹ دی ہے ‘ جواب بھی آپ انہی سے لے لیں۔ یہی رانا ثنا اللہ آج قصور واقعے پر بھی مٹی ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہاں کی پولیس اور وہاں کے بااثر افراد وہاں کے مقامی ایم پی اے کے زیراثر ہیں۔ ایسا لگتا ہے رانا صاحب کی یہی ذمہ داری ہے کہ انہوں نے ہر حال میں پولیس کو بچانا ہے چاہے اس کے لئے معصوم بچوں کی زندگیاں ہی کیوں نہ برباد ہو جائیں۔ جب کئی ملزمان اعتراف جرم کر چکے‘ ویڈیوز میں ان کی شناخت ہو چکی تو اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کی کیا ضرورت؟ اگر ہر کام جوڈیشل کمشن نے کرنا ہے تو پھر پولیس کا محکمہ ختم کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ جوڈیشل کمیشن زیادہ سے زیادہ اپنی فائنڈنگ پر مبنی ایک رپورٹ پیش کرے گا لیکن
اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں پھر یہی حکمران رکاوٹ بن جائیں گے تو پھر اس سارے پراسیس کا فائدہ؟ اس طرح کا سیکنڈل پہلی بار آیا ہے نہ پولیس کے جانبدارانہ رویے کی یہ کوئی پہلی مثال ہے۔ یہ سارا کمزور اور طاقتور کا کھیل ہے۔ کون نہیں جانتا جوڈیشل کمیشن اور کمیٹیاں عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حکمرانوں کو پولیس اور ارکان اسمبلی کی عزت کا تو بڑا خیال آتا ہے لیکن ان غریب بچوں کا نہیں جن کے ساتھ یہ دل سوز واقعہ پیش آیا۔ ایسے بچوں اور ان کے والدین کو فوری طور پر نفسیاتی معالجین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمدردی اور حوصلے کے چند الفاظ ان کے دکھ ختم نہیں کم تو کر سکتے ہیں لیکن ان متاثرہ خاندانوں کو آج بھی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر عدالت میں اپنے بیان پر قائم رہے تو اپنے قدموں پر گھر نہیں جا سکو گے۔ جن غریب بچوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں‘ ان کے والدین صبح سے شام تک زمینداروں کی زمینوں کو جنت بنانے میں جتے رہتے ہیں لیکن بدلے میں دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ لوگ کیسے اتنے بڑے گینگ کا مقابلہ کر پائیں گے کہ جن کی سرپرستی کسی نہ کسی زاویے سے حکمران بھی کرتے ہیں۔ یہ پولیس کو پالتے پوستے ہی اسی دن کے لئے ہیں اور پولیس بھی ان کے ناز نخرے اس لئے اٹھاتی ہے کہ جب پولیس پر ایسا وقت آئے تو حکمران کمیشنوں اور کمیٹیوں کی گتھیوں میں معاملے کو ایسا اُلجھائیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
سنا تھا‘بچے سانجھے ہوتے ہیں۔ حکمران اس روایت کو بھی بدلنے پر مصر ہیں۔ یہ ''اپنے‘‘ لوگوں کو بچانے میں لگے ہیں۔ خدا کی پناہ ہے۔ پولیس کیا آسمان سے نازل ہوئی ہے؟ کیا گنڈا سنگھ والا کا ایس ایچ او خدائی خدمت گار ہے جو اسے ابھی تک ہتھکڑی نہیں لگائی گئی؟ کیا پولیس‘ عدالتیں اور دیگر نظام از خود ذمہ داری ادا کرنے سے معذور ہو چکا ہے کہ بات صرف وزیراعلیٰ کے حکم پر ہی آگے بڑھتی ہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی کو حکمرانوں نے ایسی کسی کارروائی کی اجازت ہی نہیں دی کہ اس طرح حکمرانوں کی جگہ ان کی خبریں اور تصویریں میڈیا میں چلیں گی۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز کو وزیراعلیٰ کی آشیرباد نہ ہو تو ان کی کیا مجال کہ چھوٹے بڑے ہوٹلوں پر چھاپے ماریں؟کیسے مان لیا جائے کہ چار برس سے زیادتی کی چھوٹی بڑی انفرادی خبریں متواتر اخبارات میں چھپ رہی ہوں اور متعلقہ ایم پی اے اور پولیس لا علم ہو؟ میں شرط لگا کر کہتا ہوں کہ پنجاب حکومت صوبہ خیبر کے کئی اقدامات کی نقل تو پنجاب میں کر رہی ہے مگر یہ وہاں کی پولیس کی طرح پنجاب پولیس کو کبھی بھی سیاسی مداخلت سے آزاد نہیں کرے گی۔ اس کی چاہے اسے جو مرضی قیمت چکانا پڑے‘ یہ چکائے گی۔اگر یہ گڈ گورننس ہے تو پھر جنگل کا راج کسے کہتے ہیں؟
اگر یہ کیس فوجی عدالت میں نہیں چلتا تو پھر اس کا حال بھی وہی ہو گا جیسا پی ٹی آئی کے دھاندلی والے کیس میں ہوا۔ وہ ایک جادو تھا‘ جسے سب نے دیکھا۔ ایک جادو چند دنوں میں ہونے والا ہے۔ ہم اور آپ یہ جادو اکٹھے دیکھیں گے۔ چونکہ ج سے جادو اور ج سے ہی جوڈیشل کمیشن بنتا ہے تو دھاندلی والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی طرح اس کمیشن کی جادو بھری رپورٹ بھی کچھ ایسی آئے گی کہ اس واقعے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں‘ گواہ بھی اور مدعی بھی‘ ملزمان اعتراف جرم بھی کر چکے اور ان کی شکلیں بھی کیمروں میں صاف پہچانی جا چکیں‘ یہ ویڈیوز جن کو بیچی گئیں ان کو بھی پکڑ لیا گیا‘جنہوں نے بنائیں انہوں نے بھی اعتراف جرم کر لیا اور اس سارے معاملے میں پولیس اور بااثر افراد کا گٹھ جوڑ بھی واضح ہے لیکن یہ سارا کچھ چونکہ قانونی نکتہ نگاہ سے منظم طور پر ثابت نہیں ہو سکا اس لئے ملزموں کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور یہی حسین خاں والا جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہے۔