گزشتہ برس دسمبر میں جس روز ایاز صادق نے اپنے حلقے میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی اُس دن تک دال میں ''کچھ کچھ‘‘ کالا لگ رہا تھا لیکن ان کی اس درخواست کے بعد ''ساری دال‘‘ ہی کالی لگنے لگی تھی۔ اگر انہوں نے یا ان کے کارکنوں نے الیکشن میں دھاندلی نہیں کی تھی تو پھر انہیں کس بات کا ڈر تھا۔ دوسری طرف عمران خان جس اعتماد سے چار حلقوں بالخصوص سردار ایاز صادق والے حلقے میں دھاندلی کی آواز اٹھا رہے تھے‘ اس سے لگتا تھا کہ خان صاحب کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کی بنا پر وہ یہ مطالبہ اتنے عزم و استقلال کے ساتھ کر رہے تھے۔انہوں نے سینکڑوں بار ببانگ دہل اعلان کیا کہ حکمران جو حلقہ کہیں وہ کھولنے کے لئے تیار ہیں تو پھر حکمران جماعت کو کس بات کا خوف تھا۔ اب جبکہ الیکشن ٹربیونل نے فیصلہ ایاز صادق کے خلاف دیا ہے تو سب کو معلوم ہو گیا کہ کیوں ایاز صادق ووٹوں کی گنتی سے ہچکچا رہے تھے اور کیوں حکومت چار حلقے کھلوانے میں پس و پیش سے کام لے رہی تھی۔اس فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ گزشتہ برس عمران خان کا دھرنا بے کار نہیں گیا۔ ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کی محنت ‘ ان کا وقت اور ان کا خون رائیگاں نہیں گیا جو ایک سو چھبیس دن تک اس لئے بیٹھے رہے تاکہ اپنے جائز جمہوری حق کو منوا سکیں۔ حکومت نے پولیس اور گلو بٹوئوں کے ذریعے پورا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن یہ لوگ اپنے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹے ۔ ان پر پارلیمنٹ پر قبضے کا الزام لگا۔ پی ٹی وی پر حملے کی سازش ان کے گلے ڈالی گئی
تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ مجمع جو دھاندلی کی تحقیقات کے نام پر یہاں جمع ہے‘ درحقیقت جبرو تشدد کے ذریعے اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ گزشتہ روز الیکشن ٹریبونل کے فیصلے نے تحریک انصاف کی اخلاقی اور سیاسی جیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بہت کم ہوا ہے کہ کوئی سیاستدان انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہا ہو۔ دھاندلی کی شکایات ہر الیکشن میں آتی رہی ہیں لیکن انہیں ایک روایتی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔
ہر الیکشن کے قریب ایسے پیغامات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے ووٹ کو ضائع نہ کریں اور جیسے بھی ہو گھروں سے نکل کر اسے استعمال کریں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب عوام دہشت گردی اور دیگر خطرات اور مشکلات کے باوجود لمبی قطاروں میں لگتے ہیں اور دھول‘دھکم پیل اور گرمی وسردی کی سختی کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی کئی گھنٹوں بعد جا کر ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کا ووٹ تو دھاندلی کی نذر ہو گیا ہے۔ جب وہ اپنے ووٹ جسے مقدس امانت قرار دیا گیا تھا‘ اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہی حکمران ان پر گولیوں اور لاٹھیوں کی بارش کر
دیتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا جائز حق مانگنے کی ایسی سزا دیتے ہیں تاکہ آئندہ کبھی کوئی اپنا حق مانگنے کی جرأت نہ کرے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کا دھرنا قوم کو مہنگا پڑا‘ وہ گزشتہ روز کا فیصلہ دیکھیں اور بتائیں کہ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا اور اگر حکومت پر اس حد تک دبائو نہ بڑھایا گیا ہوتا تو حکمران دھاندلی کی تحقیقات پر آمادہ ہوتے؟ کہاں ہیں وہ جماعتیں جو کہتی تھیں کہ حالیہ الیکشن میں ان کے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی ہے؟ ان سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ اگر انہیں اس بارے میں خدشات تھے اور جیسا کہ سابق صدر آصف زرداری نے بھی اس کا برملا اظہار کیا تھا تو جس طرح تحریک انصاف اپنے موقف پر جم کر کھڑی رہی‘ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس طرح سٹینڈ کیوں نہ لیا؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے اور حکمران جماعت کے درمیان مک مکا ہو چکا ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر وہ بظاہر حکومت کے خلاف بیان بازی اور نورا کشتی کریں گے لیکن حقیقت میں حکمرانوں کو کوئی نقصا ن نہیں ہونے دیں گے یہاں تک کہ پانچ سال بیت جائیں گے اور اگلے الیکشن کا وقت آ جائے گا۔میثاق جمہوریت کو لوٹ مار کا ذریعہ بنانے والی وہ جماعتیں اور ان کے وہ لیڈر اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ عمران خان قوم کا وقت ضائع کر رہا ہے ‘ یہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اسے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں؟ یہ چاہتے تھے کہ یہ قوم دھاندلی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر پی جائے اور ہر الیکشن میں چپ چاپ ووٹ دیتی رہے۔ یہ نہ پوچھے کہ اُس نے جس کو ووٹ دیا تھا‘ اس تک پہنچا بھی یا پھر اُس کے شناختی کارڈ پر مخالف امیدوار کو دس دس ووٹ کاسٹ کر دئیے گئے؟
سردار ایاز صادق نے الیکشن ٹریبونل کے جج کاظم علی ملک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی بھی درخواست کی تھی جسے بعد میں رد کر دیا گیا تھا۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ انہیں اپنے حلقے میں دھاندلی یا بے ضابطگی ‘ جو بھی کہہ لیں ‘کا انتہائی زیادہ خوف تھا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سردار ایاز صادق دو سال سے بطور اسپیکر قومی اسمبلی کام کر رہے تھے اور یہ عہدہ وہ ان ووٹوں کے بل بوتے پر سنبھالے ہوئے تھے جو انہیں ڈالے ہی نہیں گئے تھے۔ ہمارا عدالتی نظام کس قدر تیز اور آسان ہے ‘ یہ فیصلہ اس کی بھی قلعی کھول دیتا ہے۔ عمران خان جیسے دبنگ سیاسی لیڈر کو اپنا حلقہ کھلوانے میں دو سال اور لاکھوں کروڑوں روپے لگ سکتے ہیں تو ایک عام آدمی اس ملک میں کس کرب اور کس تکلیف سے گزر رہا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔عمران خان کی اس جیت نے جوڈیشل کمیشن کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھا دئیے ہیں جس نے قوم کو منظم دھاندلی کی بھول بھلیوں میں الجھا کر شاید یہ سمجھ لیا کہ حقیقت کبھی سامنے نہیں آ سکے گی۔ اب سردار صاحب دھاندلی اور بے ضابطگی کے مخمصے میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ چلیں بے ضابطگی ہی سہی اور اس میں ان کا قصور نہیں بھی تھا‘ تب بھی انہیں اپنی جیت پر بھروسہ کیوں نہ تھا۔ کیوں انہوں نے عمران خان کی طرح کبھی ببانگ دہل اعلان نہیں کیا کہ میرا حلقہ ایک نہیں دس مرتبہ کھلوا لو‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یقینا انہیں معلوم تھا کہ عمران خان کے الزامات درست ہیں۔ وہ انتہائی اہم عہدے پر تھے اور اس فیصلے کے بعد سابق سپیکر اور سابق رکن اسمبلی ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں ان کے ان اقدامات کی کیا قانونی حیثیت ہے جو بطور سپیکر انہوں نے دو سال انجام دئیے۔
یہ دیگ کا ایک دانہ تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ دیگ کا ذائقہ چکھنے کے لئے ساری دیگ کھانا ضروری نہیں‘صرف ایک دانہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اگر سردار ایاز صادق اس فیصلے کے نتیجے میں نا اہل ہو سکتے ہیں ‘ وہ سپیکر سے سابق سپیکر ہو سکتے ہیں تو پھر اگر دیگ کے چند دیگر دانے بھی ایسے ہی نکلے تو خود ہی بتائیں ‘اس حکومت اور ان حکمرانوں کی کیا قانونی اور اخلاقی حیثیت باقی رہ جائے گی؟